پاکستانی شیعہ خبریںہفتہ کی اہم خبریں

اہلسنت ہوں، بیٹی کو لیکر شام غریباں کی مجلس میں ضرور جاتا ہوں

تحریر: علی محمد اصغر

شامِ غریباں ایک ایسا لفظ ہے، جسے سننے کے بعد ہر پتھر دل اور شمر مزاج انسان طنزاً مسکرا دیتا ہے اور ہر دردِ دل رکھنے والا باضمیر انسان غمگین ہو جاتا ہے، تقریباً پچانوے فیصد غیر شیعہ افراد کے شامِ غریباں کے متعلق وہی خیالات ہیں، جو ان کو ان کے شیطان صفت مولویوں نے بتا رکھے ہیں۔ چونکہ میرا تعلق بھی اہل سنت مکتبہ فکر سے ہے، میں بھی اپنے دوستوں میں بیٹھ کر شامِ غریباں پہ بہت مذاق بنایا کرتا تھا، ہمیں ہمارے دوست احباب شامِ غریباں کے متعلق لطیفے سنایا کرتے تھے، دینی تعلیم دینے والے اساتذہ بھی محرم آتے ہی شامِ غریباں کے متعلق ایسی ایسی واہیات باتیں سناتے کہ ہم شیعوں پہ لعن طعن کئے بنا نہ رہ پاتے۔

ایک دفعہ ہم دو دوستوں نے شیعوں کی شام غریباں میں جانے کا فیصلہ کیا، کالا کپڑا گلے میں ڈال کر جب امام بارگاہ پہنچے تو ابھی مجلس شروع نہیں ہوئی تھی، آہستہ آہستہ خواتین و مرد جمع ہو رہے تھے، ہم دونوں دوست دل ہی دل میں عجیب و غریب ماحول کی منظر کشی کر رہے تھے، اس وقت شام غریباں کی مجلس ہمارے شہر کے محلہ حسین آباد کی امام بارگاہ میں ہوا کرتی تھی، مجھے آج بھی یاد ہے کہ جو لڑکے ہمارے اردگرد بیٹھے تھے، انہوں نے زنجیر کا ماتم کیا ہوا تھا اور ان کی قمیضیں انکے زخموں سے چپک رہی تھیں اور زخموں سے ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا، میں سوچ رہا تھا کہ یہ لوگ زخمی حالت میں کیسے یہاں بتیاں بند کرکے برائی کریں گے۔

یہاں تو کوئی خاتون نہیں، سب خواتین الگ کمرے میں بیٹھی ہیں، اسی دوران ذاکر صاحب پہنچ گئے، ان کے آتے ہی لوگوں نے آہستہ آہستہ رونا شروع کر دیا۔ انہوں نے مائیک کو پکڑتے ہی کہا انا للہ وانا الیہ راجعون اور لوگوں نے زور زور سے رونا شروع کر دیا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی، یہ رو کیوں رہے ہیں جبکہ یہ تو یہاں برائی کرنے آئے ہیں۔ ذاکر صاحب نے کہا کہ بتیاں بند کر دو، یہ شام غریبوں کی ہے اور غریبوں کے گھر روشنیاں نہیں جلتیں۔ بتیاں بجھا دی گئیں، میں سمجھا اب یہ اپنا اصل مقصد پورا کریں گے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، ذاکر صاحب کسی زینب (س) خاتون کا نام لیتے تھے تو لوگ اونچا رونے لگتے تھے، کبھی حسین بن علی (ع) کا نام لیتے تو کبھی عباس بن علی (ع) کا، جب سکینہ بنت الحسین (س) کہتے تو لوگ زور زور سے ماتم شروع کر دیتے۔

یقین جانیئے سوائے حسین ابن علی (ع) کے نام کے باقی ناموں سے میں ناواقف تھا، میں عجیب شش و پنج میں مبتلا ہوتا چلا گیا کہ ہمارے استاد صاحب تو کچھ اور بتا رہے تھے، لیکن یہ لوگ تو بس روئے جا رہے ہیں۔ ماتم کئے جا رہے ہیں، ہائے حسین (ع) ہائے حسین (ع) کر رہے ہیں، اللہ معاف کرے یہ کیسے ’’زانی‘‘ لوگ ہیں، جو برائی کرنے کی نیت سے آئے ہیں اور نام حسین ابن علی کا لے رہے ہیں۔ مجھے پوری مجلس میں ایک ہی فقرے کی سمجھ آئی کہ زینب بنت علی (س) نے بھائیوں کے قتل کے بعد کیسے بچ جانے والوں کی تنہا حفاظت کی، بس اسی جملے نے میرا کلیجہ چیر دیا۔ میں بے اختیار رونے لگ پڑا، خیر مجلس ختم ہوئی، بتیاں جلا دی گئیں، کچھ لوگ نوحہ پڑھ رہے تھے، کچھ ماتم کر رہے تھے، امام بارگاہ سے نکلتے ایک ہی بات سوچ رہا تھا، اے اللہ مجھے معاف کرنا، میں نے شیعوں کے مرد و خواتین پہ بہت بیہودہ الزامات لگائے اور ان ملاوں کو بھی ہدایت دے، جو قرآن پاک کو سامنے رکھ کر جھوٹ بولتے ہیں اور نوجوان نسل کے دل میں نفرت کے بیج بوتے ہیں۔

میں سوچ رہا تھا، اے اللہ تیری یہ کیسی مخلوق ہے، جو یکم محرم سے تیرے نبی (ص) کی اولاد کو رونا شروع کرتی ہے، ساری ساری رات گلیوں میں ماتم کرتے پھرتے ہیں، بازاروں میں خود کو ماتم سے تکلیف دیتے ہیں اور ان میں ان کا کوئی ذاتی مفاد بھی نہیں ہوتا اور پھر رات کو خشک آنکھوں، پردرد سینوں اور زخموں کے ساتھ پھر تیرے حسین (ع) کو رونے آجاتے ہیں، حالانکہ ان کی اس شام غریباں پہ جو جو طنز کسے جاتے ہیں، ان سے تو جسم کیا روح تک زخمی ہو جاتی ہے۔ فطرت انسانی ہے، انسان اس نیک عمل سے بھی کنی کتراتا ہے کہ جس میں بدنامی کا اندیشہ ہو، یہاں بھی تو شام غریباں سے متعلق ایسا ایسا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ لوگ اگر اس کی پرواہ کرتے تو اس میں شرکت سے کنی کتراتے، مگر حسین (ع) کی محبت اتنی غالب ہے کہ ہر شے بخوشی سہہ جاتے ہیں۔ ہزاروں طنز و تنقید کے تیروں کے باوجود یہ اپنی بیٹیوں، بہنوں اور ماوں کے ساتھ شام غریباں کی مجالس میں شریک ہوتے ہیں۔

فقط نبی کی آل کے غم میں رونے کیلئے، اے اللہ یہ کیسی قوم ہے؟ یہ کون ہیں۔؟ کہاں سے آئے ہیں، کس مٹی سے بنے ہیں؟ کفر و شرک کے فتوؤں کے باوجود اپنی بات پہ قائم رہتے ہیں، قتل و ذبح ہونے کے باوجود انہوں نے ہمیشہ یزید کو برملا یزید ہی کہا ہے اور یزیدیت کو ایسی گالی بنا دیا ہے کہ یزید کے پیروکار بھی خود کو دیگر شناختوں کا لبادہ اوڑھنے پہ مجبور ہیں۔ آج بھی جب میں اپنی بیٹی اور بیوی کو شام غریباں کی مجلس میں لے جاتا ہوں، تو واپسی پہ غیر شیعہ افراد کو طنزاً اشارے کرتے دیکھتا ہوں، وہ یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ شیعہ شام غریباں منا کر آرہے ہیں، کیونکہ ان کو ان کے شمر صفت مولویوں نے بتایا یہی کچھ ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے، ہر سال اپنے ایک غیر شیعہ دوست کو شام غریباں کی مجلس پہ لے جائیں اور انکو دکھایں کہ یہاں کوئی برائی نہیں ہو رہی بلکہ ہم اجر رسالت ادا کرنے آتے ہیں۔

بھلا، پوری دنیا میں ہے کوئی ایسی قوم جو اتنے گندے اور بہودہ الزامات کے باوجود اپنے عشق سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹی ہو؟ ان پہ اور ان کی خواتین پہ الزام لگاتے رہتے ہیں، لیکن پھر بھی وہ گلیوں بازاروں میں بیٹیوں، بہنوں کو ساتھ ملا کر حسین (ع) کی مجالس و ماتم میں شریک ہوتے ہوں۔ میری اہل سنت بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس دفعہ شامِ غریباں کا نام لے کر مذاق اڑانے سے پہلے ایک دفعہ خود کسی امام بارگاہ میں چلے جانا اور اپنی آنکھوں سے دیکھنا کہ یہ شیعہ قوم جسے آپ کافر کہتے ہو، نبی پاک (ص) کی بیٹیوں کے لٹنے کا ماتم کیسے کرتے ہیں۔ سچ کہوں تو ان مجالس میں شریک ہونے کے بعد مجھے احساس ہو چلا کہ جیسے نبی (ص) فقط شیعوں کے نبی (ص) ہیں، کیونکہ ان کی آل کا غم فقط شیعہ جو مناتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button