
مقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں
علامہ سید حسن ظفر نقوی کا اسرائیلی فضلہ خور صحافی وجاہت مسعود کو کرارا جواب
آپ نے اپنے کالم بہت ہی بچگانہ اور مضحکہ خیز بات کی کہ ایران کو اس جنگ میں شکست ہوگئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نوشتہ دیوار بھی پڑھنے سے عاجز ہیں۔ ایسے میں جب ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل پر شکست کا سوگ طاری ہے اور ایران کی عوام اپنی رہبری اور فوج کی فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ ٹرمپ کی اور نتن یاہو کی شکست کا اعلان خود ان کے ملکوں کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کر رہا ہے، آپ جیسے صحافی ایران کی شکست کی بانسری کا بے سرا راگ الاپ رہے ہیں
شیعہ نیوز: معروف شیعہ عالمِ دین علامہ حسن ظفر نقوی نے تاریخی حقائق اور منطقی دلائل کے ساتھ وجاہت مسعود کی علمی دُرگت بنائی ڈالی، علامہ حس ظفر نے لکھا کہ میں اسے صحافتی بددیانتی نہ کہوں تو صحافتی لا علمی کہاں تک جا پہنچی ہے اس کا اندازہ مورخہ 25 جون 2025 کے روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحے میں وجاہت مسعود صاحب کے ایران سے متعلق لکھے گئے مضمون سے ہوا۔ موصوف نے اپنے خیال میں بڑی ہی قابلیت کا مظاہرہ کیا اور خوبصورتی سے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی، ان کا مضمون شروع سے آخر تک غلط بیانی کا ایک پلندہ ہے۔
ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ایران کی سرزمین پر برطانوی سامراج کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کرنے والے بھی ایک مجتھد آیت اللہ شیرازی ہی تھے جنھوں نے 1888 میں سامراجی معاہدوں کے خلاف کامیاب تحریک چلائی کہ جو "تحریکِ تحریم تمباکو” کے نام سے تاریخ میں موجود ہے اور اس وقت بھی ایرانی قوم اپنے علماء کے پیچھے کھڑی تھی (اس تحریک کا مطالعہ کر لیجئے گا۔)
پھر دوسری تحریک 1940 کے عشرے میں آیت اللہ شہید حسن مدرس نے برطانوی پٹھو رضا شاہ پہلوی کے خلاف چلائی تھی اور انھیں شہید کردیا گیا تھا۔
پھر ایک تحریک شمالی ایران یعنی مازندران آور گیلان میں روسی قبضے کے خلاف مرزا کوچک خان جنگلی نے چلائی تھی۔ چونکہ یہ تحریک جنگلی علاقوں میں تھی لہذا اسے نہضتِ جنگل یعنی تحریک جنگل کا نام دیا گیا۔ یہ بھی ایک عالم دین تھے اور روسیوں نے ان کا سر قلم کر دیا تھا۔ گیلان کے دارالحکومت رشت میں ان کا مزار اور گھر دونوں آج بھی روحانی طاقت کے مظہر ہیں۔
ڈاکٹر مصدق کی تحریک ہی پوری پڑھ لی ہوتی تو آپ کو علم ہوتا کہ وہ کبھی شاہ کے خلاف کامیابی، چاہے وقتی ہی سہی، حاصل نہیں کرسکتے تھت اگر آیت اللہ کاشانی ان کے ساتھ نہ ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس انقلاب کی ناکامی کے بعد مصدق کو صرف قید ہوئی جبکہ نواب مجتبٰی صفوی سمیت درجنوں علماء کو فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کیا گیا۔
پھر جب 1963 میں شاہ ایران نے امریکہ اور اسرائیل سے ذلت آمیز معاہدے کئے تو امام خمینی کی تحریک وجود میں آئی۔ سب سے پہلے قربانی دینے والا طبقہ علماء کا تھا۔ اس تحریک کے آغاز میں ہی سیکڑوں علماء اور دینی طلاب کو شہید کیا گیا، پھر ساری ایرانی قوم اپنے علماء کے پیچھے ہر شہر میں نکل آئی۔ شاہ کی افواج نے درندگی اور بربریت کر کے ساتھ ہزاروں جانیں لیں۔ امام خمینی کو جلا وطن ہونا پڑا۔
امام خمینی ترکی سے ہوتے ہوئے نجف پہنچے وہاں سے ان کی تقاریر اور پیغامات ایران پہنچتے رہے، یہ تحریک جڑیں پکڑتی رہی، اس دوران ساواکیوں (شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک کے کارندوں) نے نجف میں امام خمینی کے بڑے بیٹے آیت اللہ مصطفٰی خمینی کو شہید کروا دیا۔ اسی دوران ڈاکٹر شریعتی کو لندن میں شہید کر دیا گیا۔
اِدھر ایران میں کیونکہ بائیں بازو کی جڑیں عوام میں نہیں تھیں اس لئے تودہ پارٹی سمیت تمام بائیں بازو کے دھڑوں نے اسی امام خمینی کی سائے میں پناہ لی اور اس تحریک کے دھارے میں شامل ہو گئے، اس امید پر کہ ملاّؤں سے تو نظام نہیں چلے گا اور انقلاب کی کامیابی کے بعد انقلاب پر ہمارا قبضہ ہو گا۔
امام خمینی انقلاب سے پہلے ہی بعد کا نظام بھی ترتیب دے چکے تھے، ہزاروں کی تعداد میں نظام چلانے والوں کا لشکر بنا چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بہشتی و مطہری جیسوں کی شہادت بھی انقلاب کو نہ گرا سکی۔ غداروں کی وجہ سے اوائل انقلاب ہی میں ایران کا صدر محمد علی رجائی اور وزیراعظم جواد باہنر شہید کیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کے 72 ارکان شہید کئے جاتے ہیں، لیکن انقلاب قائم رہتا ہے۔ انھیں خیانت کاروں کی وجہ سے ایران پر جنگ مسلط کی جاتی ہے اور امریکی ایجنٹوں کے سبب آغاز جنگ میں ایران کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ لیکن ان خیانت کاروں کے فرار اور انجام کے بعد ایران کی جنگ میں کامیابیوں کا آغاز ہوتا ہے۔
آپ نے جن ترقی پسندوں کی موت پر اظہار افسوس کیا ہے وہ ترقی پسند نہیں بلکہ بیرونی قوتوں کے ایجنٹ تھے۔ تودہ پارٹی کے لیڈر نورالدین کیانوری سمیت کسی ایسے شخص کو پھانسی نہ دی گئی جو نظام کا مخالف ضرور تھا لیکن کسی بیرونی طاقت کا ایجنٹ نہ تھا۔ ان میں اکثر صرف نظر بند کئے گئے، اکثریت آزاد رہی۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں تودہ کے بچے کچھے افراد نے اسلامی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
آخر میں آپ نے اپنے کالم بہت ہی بچگانہ اور مضحکہ خیز بات کی کہ ایران کو اس جنگ میں شکست ہوگئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نوشتہ دیوار بھی پڑھنے سے عاجز ہیں۔ ایسے میں جب ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل پر شکست کا سوگ طاری ہے اور ایران کی عوام اپنی رہبری اور فوج کی فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ ٹرمپ کی اور نتن یاہو کی شکست کا اعلان خود ان کے ملکوں کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کر رہا ہے، آپ جیسے صحافی ایران کی شکست کی بانسری کا بے سرا راگ الاپ رہے ہیں۔
اسرائیل اور امریکہ جو اہداف لے کر ایران پر حملہ آور ہوئے تھے وہ تین تھے۔
1۔ ایران کو جوہری پروگرام کو بند کروانا۔ کیا ایسا ہوا۔ جواب نہیں۔
2۔ ایران میں حکومت کو تبدیل کرنا ۔ کیا ایسا ہوا۔ جواب نہیں۔
3۔ ایران کی سپریم قیادت کا خاتمہ۔ کیا ایسا ہوا۔ جواب نہیں۔
میں نے صرف خلاصہ لکھا ہے تفصیل سے بحث چاہتے ہیں تو یہ ناچیز طالب علم خدمت میں حاضر ہے ۔
وما توفیقی الا باللہ۔