
انصار اللہ امریکہ اور صیہونیوں کے لیے موت جب کہ غزہ کی حمایت ایک اسٹریٹجک نظریہ ہے,ترک مبصر
شیعہ نیوز:غزہ جنگ کے بعد مقبوضہ علاقوں کو کبھی بھی سلامتی اور امن نصیب نہیں ہوا۔ ہر ہفتے ہم ایسی خبریں دیکھتے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یمنی حملوں کی وجہ سے مقبوضہ فلسطین میں وارننگ سائرن سنائی دے رہے ہیں۔
مزاحمتی محور کی طرف سے ان علاقوں کو نشانہ بنانا واضح طور پر یہ پیغام دیتا ہے کہ فلسطینی عوام کبھی تنہا نہیں ہیں۔
یمنی مسلح افواج کی جانب سے دقغے گئے بیلسٹک میزائل اور ڈرون 2,040 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے صرف ساڑھے 11 منٹ میں مقبوضہ فلسطین کے قلب تک پہنچ جاتے ہیں۔
یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ یمن پہلے عرب ملک کی حیثیت سے اپنی پوری طاقت کے ساتھ غزہ کے ساتھ کھڑا ہے۔ یمن جن نازک اور مشکل حالات سے نبرد آزما ہے اس کے باوجود انصار اللہ کی صفوں اور اس سرزمین کے لوگوں میں مزاحمت کا جذبہ واضح طور پر عیاں ہے۔
اس سلسلے میں مہر کے نمائندے نے مزاحمتی محور کے صحافی اور محقق حسن آکارس سے ایک انٹرویو کیا جس کا متن کچھ یوں ہے:
غیر ملکی نیوز ایجنسی : یمن جن نازک حالات سے گزر رہا ہے اس کے باوجود ہم فوج اور عوام کی جانب سے غزہ کی حمایت کے لیے ایک مضبوط اور بے مثال عزم کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یمن کے مستقل موقف کو تشکیل دینے والے مذہبی، سیاسی، عسکری اور قومی عوامل کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے؟
حسن آکارس: یمن کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں ملک کی اسٹریٹجک پوزیشن پر غور کرنا چاہیے۔ یمن اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پوری تاریخ میں ہمیشہ عالمی سامراجی طاقتوں کے لیے دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ تزویراتی باب المندب آبنائے پر غلبہ حاصل کرنے کی خواہش، جو یورپ اور ایشیا کے درمیان مختصر ترین سمندری راستہ بناتی ہے اور بحیرہ احمر کو خلیج عدن سے ملاتی ہے، نیز بحر ہند کے تجارتی راستوں کو کنٹرول کرنے کے ہدف نے یمن کو مختلف طاقتوں کے لیے سٹریٹجک ہدف بنا دیا ہے۔
یہ وجوہات 2015 میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی قیادت میں یمنی جنگ کا باعث بنی، یہ ممالک، جن کو مغرب کی حمایت حاصل ہے، یمن کو کمزور کرنے کے لیے برسوں سے کوشش کر رہے ہیں اور انصار اللہ کو اسی طرح کے حملوں کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے ہم آج غزہ میں دیکھ رہے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں جب 7 اکتوبر کو آپریشن طوفان الاقصیٰ کیا گیا تو یمن ایک ایسا ملک تھا جو ابھی جنگ سے نکلا تھا اور اسے بہت سے شعبوں میں مدد کی ضرورت تھی۔ اگر ان دنوں ہم سے پوچھا جاتا کہ غزہ کی مدد کس کو کرنی چاہیے تو بلاشبہ یمن ہمارے آخری جوابات میں سے ایک ہوتا۔ تاہم، 7 اکتوبر کے بعد، یمن ان چند ممالک میں سے ایک بن گیا جنہوں نے غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے خلاف اپنی فوجی طاقت کا استعمال کیا۔
حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف مزاحمت، جو لبنانی حکومت کی جنگ بندی کے ساتھ ختم ہوئی، ایک ایسی طاقت کی نمائندگی کرتی ہے جو علاقائی فوجی مساوات میں بہت زیادہ وزن رکھتی ہے اور یمن نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور پر یمن اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے درمیان فاصلے کو دیکھتے ہوئے اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ یہ حقیقت کہ یمن اپنی آپریشنل مشکلات کے باوجود مزاحمتی محاذ کا ایک موثر حصہ ہے جو تمام مسلمانوں اور اسلامی ممالک کو ایک اہم پیغام دیتا ہے وہ یہ کہ غزہ کے لیے یمن کی حمایت گہرے اسٹریٹجک موقف اور نظرئے کی عکاسی کرتی ہے۔
یمن کا یہ موقف مذہبی عقائد سے تشکیل پاتا ہے، جو سیاسی بیداری سے برقرار ہے، اور جسے فوجی تجربے سے تقویت ملتی ہے۔
یمنی عوام اور قیادت مسئلہ فلسطین کو محض ایک عرب یا نسلی کاز کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ ایک ذمہ داری کے طور پر دیکھتے ہیں جسے امت مسلمہ کو نبھانا چاہیے۔ اس تناظر میں بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کا دفاع ایمانی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی نقطہ نظر سے، یمنی عوام اور قیادت اسرائیل کی تعریف ایک جائز ادکار کے طور پر نہیں، بلکہ ایک علاقائی قبضے کے منصوبے کے طور پر کرتی ہے۔ اگرچہ خطے میں اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے والے ممالک کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، لیکن مزاحمتی محور، جس میں یمن بھی شامل ہے، اس موقف کو واضح طور پر مسترد کرتا ہے۔
اس وجہ سے غزہ کے ساتھ یکجہتی ایک جغرافیائی سیاسی ضرورت کے ساتھ ساتھ ایک دینی اور انسانی فریضہ کے طور پر نمایاں ہے۔
فوجی سطح پر، تقریباً 10 سال کے محاصرے اور جنگی حالات کے باوجود، یمن زندہ رہنے اور غیر مساوی جنگ کا سنجیدہ تجربہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ طاقت آج بحیرہ احمر میں امریکہ اور مغربی طاقتوں کے خلاف کی جانے والی فوجی کارروائیوں میں واضح طور پر نظر آتی ہے جو اسرائیل کو براہ راست نشانہ بناتی ہے۔
یمنی عوام اس جدوجہد کو اپنی آزادی کی جدوجہد سمجھتے ہیں۔ یمنی عوام غزہ کی حمایت کو اپنی خودمختاری اور تاریخی شناخت کے دفاع کے حصے کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے یمن اپنی پرعزم اور موثر کارروائیوں کے ذریعے کئی مہینوں سے جنگ کے ایک اہم حصے کے طور پر اپنا فرض نبھا رہا ہے۔
غیر ملکی نیوز ایجنسی : نو سال سے زائد عرصے سے شدید اور مسلسل محاصرے کے باوجود یمن نے جدید میزائلوں اور ڈرونز ٹیکنالوجی تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان صلاحیتوں کو خطے میں دیگر مزاحمتی تحریکوں کے لیے نمونے کے طور پر کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے، اور مستقبل میں ہونے والی پیش رفت پر ان کے کیا اثرات ہوں گے؟
سب سے پہلے، ہمیں اس عمل کو متوازی اور مساوی طاقتوں کے درمیان جدوجہد کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ ایک طرف ایک قابض طاقت ہے جس کے پاس مغرب کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے تمام جدید ہتھیار ہیں اور وہ کسی بین الاقوامی قانون کی پاسداری نہیں کرتا۔ دوسری طرف، اخلاقی برتری کے ساتھ مزاحمتی قوتیں ہیں جو تمام مذہبی، انسانی اور قانونی اصولوں کی پاسداری کرتی ہیں اور اپنی کارروائیوں کے نتائج کا بہت احتیاط سے حساب لگاتی ہیں۔
لہذا، یہ جنگ، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا، ایک غیر متناسب جنگ ہے۔ اس وجہ سے ہمیں یمن میں ہونے والی تمام کارروائیوں کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔ یمن کی فوجی اور تکنیکی کامیابیاں اس بات کی سب سے اہم مثال بن گئی ہیں کہ کلاسیکی فوجی مساوات میں انڈر ڈاگ کے طور پر دیکھی جانے والی عوامی تحریکیں طاقت کے توازن کو کس طرح بگاڑ سکتی ہیں۔
یہ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں، جب حزب اللہ نے اسرائیلی غاصب حکومت کے خلاف دو کامیابیاں حاصل کیں۔ سنہ 2000 اور 2006 کے درمیان حزب اللہ نے جنگوں کے ذریعے لبنان کو آزاد کرایا۔
اب ہم یمن کو اسی حکمت عملی کے ساتھ فوجی مساوات کو بدلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ شدید پابندیوں، بنیادی ڈھانچے کی کمی، اور مسلسل بمباری کے باوجود، یمن نے داخلی جدوجہدکے ذریعے اعلیٰ آپریشنل صلاحیتوں کے حامل ہتھیاروں کے نظام کو تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
طویل فاصلے تک مار کرنے والے ڈرونز، خاص طور پر زمین سے سطح اور سمندری اہداف کو نشانہ بنانے والے میزائل، نہ صرف حکمت عملی بلکہ اسٹریٹجک ڈیٹرنس بھی فراہم کرتے ہیں۔
ہم نے یہ واضح طور پر امریکہ کی مثال میں دیکھا کہ جسے بحیرہ احمر میں شروع ہونے والے آپریشن کو دو ماہ سے بھی کم عرصے میں ختم کرنے پر مجبور کیا تھا۔ یمن کی طرف سے فراہم کردہ مثال سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح محاصرے کے تحت دفاع لبنان کی حزب اللہ سے لے کر عراق کی حشد الشعبی اور یہاں تک کہ حماس اور غزہ میں اسلامی جہاد تک بہت سی تحریکوں کو تبدیل کر سکتا ہے، جو خود کو از سر نو تعمیر کر رہی ہیں۔
یہ تجربہ اس بات کی علامت تھا کہ یہ مزاحمتی گروہ مستقبل میں اہم تبدیلی سے گزریں گے۔ یہ تبدیلی درحقیقت غزہ اور لبنان میں حزب اللہ کے تخفیف اسلحہ کے تمام منصوبوں کے سامنے ایک منطقی قدم ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں ہوگی کہ اگر یمنی ہتھیاروں کے نظام، جو کہ لاگت کی تاثیر کے لحاظ سے کامیاب رہے ہیں، مستقبل میں مزاحمتی گروہوں کے لیے دستیاب ہوں گے۔
یمن کی ان مقامی ہتھیاروں کے نظاموں سے امریکہ اور اسرائیل کو نشانہ بنانے کی صلاحیت، جو ممکنہ طور پر ایرانی "معلومات” کے تعاون سے تیار کی گئی ہے، نہ صرف فوجی بلکہ نفسیاتی خلل کا باعث بنی ہے۔ مغربی تسلط پسندوں کے لیے یہ خطہ اب نہ صرف ایک غیر مستحکم علاقہ بن چکا ہے بلکہ ایک بے قابو خطہ بھی ہے۔ ایک جغرافیہ جس میں وہ براہ راست متاثر ہوسکتے ہیں اور آسانی سے مداخلت نہیں کرسکتے ہیں۔
غیر ملکی نیوز ایجنسی : کیا صنعاء اور واشنگٹن کے درمیان حالیہ جنگ بندی خطے سے امریکی انخلاء کے ایک مرحلے کے آغاز کی طرف اشارہ کرتی ہے یا یہ محض ایک تدبیری وقفہ ہے؟ کون سی علامات اس کی تصدیق یا تردید کر سکتی ہیں اور اس صورت حال کا تجزیہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟
اگرچہ امریکہ اور یمن کے درمیان جنگ بندی کو بحران سے نمٹنے کے لیے ایک قلیل مدتی اقدام کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور اسے ٹرمپ کی فتح کے طور پر بھی پیش کیا گیا تھا، لیکن یہ حقیقت میں خطے میں امریکی اثر و رسوخ اور طاقت کے کمزور ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔
امریکہ کا خیال تھا کہ مارچ کے وسط میں کیے گئے حملوں سے وہ یمن کو غزہ میں اپنی امدادی کارروائیاں ترک کرنے اور بحیرہ احمر میں جہاز رانی کی حفاظت کو یقینی بنانے پر مجبور کر سکتا ہے۔ تاہم اس بہانے کئے گئے فضائی حملوں میں امریکہ میدان جنگ میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
جب یمن نے اپنی کارروائیاں روکنے کے بجائے جوابی کارروائی کی تو ٹرمپ انتظامیہ نے سفارتی رابطوں کے ذریعے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی۔ یمنی بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو، جن میں سے ہر ایک کی مالیت 15 بلین ڈالر سے زیادہ ہے، کو نشانہ بنانا، جدید امریکی MQ-9 ڈرونز کو روزانہ گرانا، اور بحیرہ احمر میں کارروائیوں کے دوران تین F-18 لڑاکا طیاروں کو مار گرانے نے امریکہ کو مؤثر طریقے سے پسپائی پر مجبور کیا۔
یمن پر اپنے حملوں کے دوران امریکا نہ صرف آپریشنل مساوات کو اپنے حق میں بدلنے میں ناکام رہا بلکہ فضائی برتری حاصل کرنے میں بھی ناکام رہا۔ اس صورتحال نے امریکی فوجی ڈیٹرنس پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
یمن میں جنگ بندی نے اس بات کی تصدیق کی کہ امریکہ خطے اپنا تسلط کھو چکا ہے اور اس کے اتحادیوں نے امید چھوڑ دی ہے۔ مزید برآں، جب جنگ بندی ہو رہی تھی، یمنی حکومت مشروط اور فیصلہ کن پوزیشن کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئی اور فوجی فائدہ اور برتری کے ساتھ ایک اداکار کے طور پر، اس نے اپنے مطالبات نافذ کرنے کی صلاحیت کو آزمایا اور اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ تاہم اس عمل کو خطے سے امریکی انخلاء کے آغاز کے طور پر اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔
اگرچہ ٹرمپ اسرائیل کے بعض اقدامات سے ناراض ہیں اور انہوں نے اس کے لیے براہ راست حمایت کم کر دی ہے، لیکن وہ اسرائیل کی حمایت کے لیے پرعزم ہیں۔
واضح رہے کہ 20 سال سے زائد عرصے سے خطے میں مہنگے فوجی آپریشن کرنے والے امریکا کے پاس اب وہ قوت اور ارادہ نہیں رہا جو اس کے پاس کبھی تھا۔ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکی رائے عامہ میں اس صورتحال کا ردعمل زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔ امریکہ نے اپنی فوجی صلاحیت سے جو مغربی ایشیائی مساوات بنائی تھی اب ٹوٹ چکی ہے۔ اندر سے اٹھنے والی آوازوں اور مزاحمتی محور کی کامیابیوں سے اس حکومت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ایسے میں امریکہ کا فوجی ڈیٹرنس کمزور ہو رہا ہے، جب کہ معاشی اخراجات بڑھ رہے ہیں، تاہم مزاحمتی محاذ کو تکنیکی برتری حاصل ہے۔
امریکہ اب خطے میں اتنی آسانی سے تسلط جمانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، یہ وہ چیز ہے جسے واشنگٹن میں پالیسی سازوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ لہذا، اگرچہ ہم مکمل انخلاء کی بات نہیں کر سکتے، ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ امریکہ خطے میں اپنی فوجی طاقت کھو چکا ہے۔