مضامینہفتہ کی اہم خبریں

کیایہ 5 خطرناک دہشتگرد ہیں؟

لیجئے صاحب، خاموشی اور شرافت کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیجئے، اوپر دی گئی تصویر میں پانچ شخصیات ہیں۔ یہ پانچوں کوئی عام نہیں بلکہ اپنے اپنے شعبہ میں ماہر، جید اور ہمیشہ دلیل سے گفتگو کرنیوالی شخصیات ہیں۔ مذکورہ پانچوں شخصیات کو راقم ذاتی طور پر جانتا ہے۔ پانچوں کیساتھ اُٹھنا بیٹھنا رہا ہے۔ شائد ان کیساتھ دس سالہ یا شائد اس سے زیادہ عرصے کی رفاقت ہے۔ مذکورہ پانچوں شخصیات میں چار علمائے کرام ہیں۔ مذکورہ چاروں علمائے کرام نے ہمیشہ وحدت، اخوت، بھائی چارے، امن و امان اور رواداری کی بات کی ہے۔ مذکورہ چار علمائے کرام میں سے دو تو مجلس وحدت مسلمین کے عہدیدار ہیں، مجلس وحدت مسلمین، یعنی مسلمان کے درمیان وحدت کیلئے بنائی گئی جماعت۔ اس جماعت کے پلیٹ فارم سے ہمیشہ وحدت و اخوت کی بات ہوئی ہے۔ ایک علامہ راجہ ناصر عباس ہیں، جو ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے سربراہ ہیں۔ علامہ راجہ ناصر عباس کی دور اندیشی، وحدت کے فروغ کیلئے کوششوں کے اپنے تو کیا بیگانے بھی معترف ہیں۔ دوسرے عالم دین علامہ عبدالخالق اسدی ہیں، علامہ اسدی ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے سربراہ ہیں۔ ایک صوبائی مسئول ہونے کے ناطے انہوں نے بھی ہمیشہ رواداری اور بھائی چارے کو فروغ دیا ہے۔

مذکورہ دونوں علمائے کرام کا تو فرض منصبی ہی وحدت کا فروغ ہے، ان سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ فرقہ واریت اور دہشت گردی کے فروغ کا باعث بنیں گے۔ تیسرے عالم دین علامہ غلام شبیر بخاری ہیں۔ علامہ شبیر بخاری کیساتھ راقم کی یاد اللہ گذشتہ 20 سے 25 برس پر محیط ہے۔ شبیر بخاری نے ہمیشہ نوجوانوں کو تقرب الی اللہ کی دعوت دی ہے۔ ہمیشہ تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نوجوانوں کی فکری تربیت میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ علامہ شبیر بخاری زمانہ طالب علمی میں آئی ایس او کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں۔ آئی ایس او کی حب الوطنی سے کسی کو انکار نہیں، پھر جب کوئی عالم دین کا لباس پہن لے تو اس کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہیں۔ معاشرے میں وحدت و اخوت ترجیح بن جاتی ہے۔ جس کیلئے علامہ شبیر بخاری کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چوتھے عالم دین علامہ سید حسن مہدی کاظمی ہیں۔ میری ان سے کبھی ملاقات تو نہیں ہوئی، مگر ان کے خطابات سوشل میڈیا پر سننے کا موقع ملا، علامہ سید حسن مہدی کاظمی جامعہ بعثت سے وابستہ ہیں۔ جامعہ بعثت وہ ادارہ ہے جو پاکستان میں دینی تعلیم کیساتھ جدید تعلیم کے فروغ کیلئے سب سے پہلے میدان عمل میں اُترا۔ علامہ حسن مہدی کے حوالے سے بھی واقفان بتاتے ہیں کہ جید علماء میں شمار ہوتے ہیں۔

اوپر دی گئی تصویر میں پانچویں تصویر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر عارف حسین الجانی کی ہے۔ عارف حسین الجانی قائد طلبہ ہیں، کراچی سے خیبر اور کوئٹہ سے گلگت تک پاکستان کے کروڑوں طلبہ کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ عارف حسین الجانی نے ہمیشہ تعلیمی اداروں میں طلبہ وحدت کی بات کی ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی پالیسی ہی تعلیمی اداروں میں پُرامن تعلیمی ماحول کا قیام ہے، آئی ایس او پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت اور نوجوان نسل کی فکری تربیت کیلئے کوشاں ہے۔ عارف حسین الجانی کو راقم گذشتہ 3 برسوں سے جانتا ہے۔ ان تین برسوں میں کسی بھی محفل میں ان کے منہ سے فرقہ واریت کی بات نہیں سنی، عارف حسین الجانی نے جب بھی بات کی طلبہ وحدت کی بات کی، طلبہ حقوق کی بات کی، امن و سلامتی کی بات کی اور دیگر تنظیموں کے طلبہ کو بھی جوڑنے کی بات کی۔

اب آتے ہیں چنیوٹ کی ضلعی انتظامیہ کے انوکھے رویئے کی طرف۔ چنیوٹ کے ڈپٹی کمشنر نے مذکورہ پانچوں شخصیات کے ضلع چنیوٹ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے جاری ہونیوالے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ڈی پی او چنیوٹ کے مراسلے کی رُو سے مذکورہ پانچوں شخصیات کے چنیوٹ میں داخلے پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ ڈی پی او چنیوٹ نے اپنے مراسلے میں بتایا ہے کہ مذکورہ شخصیات چنیوٹ میں خطاب کریں گی تو ان کے خطاب میں نقص امن کا خطرہ ہے، اس لئے ان کے داخلے پر پابندی عائد کی جائے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے ڈی پی او کی گمراہ کن رپورٹ پر یقین کرتے ہوئے فوری طور پر مذکورہ شخصیات پر پابندی عائد کر دی۔ حیرت ہے کہ ڈی سی چنیوٹ نے یہ تک پوچھنا گوارہ نہیں کیا کہ اتنا ہی پتہ کر لے کہ مذکورہ شخصیات ہیں کون اور ان کا پروفائل کیا ہے۔

مذکورہ شخصیات ملت جعفریہ کے معتبر علماء ہیں۔ ایسے علمائے کرام پر تو پابندی لگائی جا رہی ہے، جو امن کی بات کرتے ہیں، لیکن ان کو کھلا چھوڑا ہوا ہے، جو ہمیشہ فرقہ واریت اور تکفیر کی بات کرتے ہیں۔ جو اپنے ہر جلسے اور محفل میں مخالف فرقے کی توہین ’’عین عبادت‘‘ سمجھتے ہیں۔ گذشتہ دنوں تلہ گنگ میں واقعہ پیش آیا، حافظ آباد میں جلوس عزا کے بانی کو شہید کر دیا گیا۔ گذشتہ چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر پُرامن واک پر مقدمات درج کر لئے گئے۔ ہزاروں بے گناہوں کے نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیئے گئے، نارووال میں پولیس نے عزادار خواتین پر تشدد کیا۔ ایسے لگتا ہے کہ فرقہ پرست عناصر اور پنجاب کی بیوروکریسی نے گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔ دونوں ملت جعفریہ کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ ڈی اسلام آباد نے ایک کالعدم جماعت کے جلسہ میں نہ صرف شرکت کی بلکہ انہیں جلسہ کرنے کی اجازت بھی دی، اسی جلسے میں مخالف فرقے کیخلاف تکفیری نعرے لگائے گئے۔ ڈی پی اور ڈی سی چنیوٹ کے اس رویئے کے بعد تو یہ سب بے نقاب ہوگئے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین حکومت کی اتحادی جماعت ہے۔ اس حوالے سے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات اسد عباس نقوی وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کی اہم رہنماء سیدہ زہراء نقوی رکن پنجاب اسمبلی ہیں۔ اس صورتحال پر اسد عباس نقوی اور سیدہ زہراء نقوی کو اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم سے چنیوٹ کی ضلعی انتظامیہ کی اس رویئے پر احتجاج ریکارڈ کروانا ہوگا اور دونوں ضلعی افسران کو معطل کروانا ہوگا۔ اگر امن کی بات کرنا جرم ہے تو پوری ملت جعفریہ کو اس کی سزا ملنی چاہیئے کہ یہی وہ قوم ہے جو گذشہ 30 سال سے سو سو لاشوں پر بھی کھڑے ہو کر امن کی بات کرتی آرہی ہے۔ جبکہ قاتل سرعام دندناتے پھر رہے ہیں بلکہ سرکاری پروٹوکول میں گھوم رہے ہیں۔ پنجاب کی بیوروکریسی میں موجود ان تکفیری عناصر کے ترجمان کا صفایا کروانا ہوگا اور دہشتگردوں کیساتھ مراسم رکھنے والوں کی سرکوبی کرنا ہوگی۔ ملک میں امن کیلئے یہی ضروری ہے
۔تحریر: ابو فجر لاہوری

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button