اٹھو تمہیں شہیدو کا لہو آواز دیتا ہے
کائنات کی بنیاد عشق ہے۔ جب انسان کا قلب روشن ہوتا ہے، اس میں عشقِ الہیٰ پیدا ہوتا ہے۔ یہی عشقِ الہیٰ کائنات کی حقیقتوں کو آشکار کرتا ہے۔ عقل کی تاریک راہوں کو یہی باطنی روشنی منور کرکے کائنات کے رازوں سے ہمکنار کرتی ہے۔ کتابوں کا علم ظاہری علم ہے اور باطنی علم وہ علم ہے، جو عشق کی گرمی و تپش سے پیدا ہوتا ہے۔ عشق میں یہ تپش و گرمی نورِ الہیٰ کی کرنوں سے پیدا ہوتی ہے، جس سے قلبِ انسانی روشن ہوتا ہے۔ کتابی علم اشیاء کی ظاہری صورت تک ہی پہنچ پاتا ہے۔ اِن کے باطن میں چھپی حقیقت تک اِس کی رسائی نہیں۔ عشق ہی رازِ حیات ہے، اس لیے ہر حقیقی مظہر عشق ہی کا مظہر ہے۔ جسے عشق کی پیدا کردہ باطنی قوت ہی سے سمجھا جا سکتا ہے اور یہی قوت انسان کو ادنیٰ درجے سے اٹھا کر انسانیت کے ارفع و اعلیٰ مقام پر فائز کرتی ہے۔
آیئے عاشقانِ خدا کی طرف نگاہ کریں، جنہوں نے عشق کے اصل مفہوم سے آگاہ کیا۔ وہ مٹھی بھر عُشاق جو اپنے ہدف اور منزل سے آگاہ تھے، جو اِس مادی اور چکا چوند دنیا میں مہمان کی طرح آئے اور اگلی منزل پر پہنچنے کیلئے اُن کی بے قراری قابلِ دید تھی۔ گلزار شہداء سے گزر ہوا تو دیکھا ایک جوان یہ کہتا دکھائی دیتا ہے، *میری زندگی کا ہدف خدا کی معرفت، اہلِ بیتؑ کا دفاع اور خودسازی ہے* جوانی ایک ایسا دور ہے، جہاں ہزار منہ زور خواہشیں انسان کی توجہ اپنی طرف کھنچتی ہیں، جہاں ایک ہی جست میں دنیا کی تمام کامیابیاں سمیٹنے کی آرزو ہوتی ہے، وہی ایک جوان دن رات خود کو جسمانی و قلبی طور پر تیار کرتا ہے، تاکہ خود کو کاروانِ شہداء سے ملا سکے۔ ابھی حیرت کے سمندر میں گم تھی کہ دیکھا ایک ایسا جوان بھی ہے، جس نے فقط سولہ برس میں اپنے عشق کو پا لیا۔ وقتِ شہادت اپنی والدہ کو یہ کہتا دکھائی دیتا ہے کہ آپ میری شہادت پہ گریہ مت کیجیے گا، اِس سے سیدہ زینب سلام علیہا ناخوش ہوں گی۔ اپنی بے تابی سے اِنہیں ناراحت نہ کیجیے گا۔
ایک ایسا جوان بھی دیکھا کہ اگر کوئی اِس کی دل آزاری کرتا تو جواب دینے کی بجائے دو رکعت نماز ادا کرتا اور کہتا کہ خدایا تیرے اس بندے کا دھیان میری طرف نہ تھا، تُو اسے معاف فرما دے۔ ایک کم سن انیس سالہ شہید دیکھا، جو شب زندہ دار ہے اور مثلِ سیدہ زہراؑ شب کی تاریکی میں اپنے لئے گمنامی مانگ رہا ہے اور یہ کہتا دکھائی دیتا ہے، ہم کہتے ہیں کہ *کاش یا زینبؑ ہم کربلا میں ہوتے تو کبھی شامِ غریباں نہ آتی، یا کبھی آپ کی چادر نہ لٹتی۔ آج کی کربلا شام کی گلیوں میں برپا ہے۔۔۔ لیکن ہم اُس کے لیے کیا کر رہے ہیں۔؟* یہ جملہ پُکار ہے حسینی مکتب کے ہر اُس جوان کے لیے جو ثانی زہراؑ سے عشق رکھتا ہے۔
اِس دور کے لشکرِ ابرہہ کو محمدیﷺ فوج کے نہتے ابابیلوں نے نصرتِ الہیٰ کے ساتھ کتنی آسانی سے ملیا میٹ کر دیا اور کیسے جدید ٹیکنالوجی، تدبرات اور شیطانی سازشوں کو توکل، استقامت، توسل اور غیبی مدد سے ناکام بنا دیا۔ یہ (مجاہدین) خدا کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہیں، جو زمین میں گمنام جبکہ آسمان میں معروف و مشہور ہیں۔ آج ہم اپنے امور پر نظر ثانی کریں، آیا ہم رضائے الہیٰ کے لیے قدم اٹھا رہے ہیں؟ اِن پاک طینیت عاشقانِ خدا کو دیکھ کر ایک لمحے خیال آتا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کے اتنے برس گزار دیئے، آخر خدا ہمارا خریدار کیوں نہ ہوا؟ شہداء جس طرح ہر کام کے لیے خدا اور آئمہ اطہارؑ سے توسل کیا کرتے تھے، ہم نے اپنے انفرادی، سماجی اور اجتماعی امور میں بہتری کے لیے خدا سے کتنا راز و نیاز کیا؟
شہداء کی وصیت ناموں کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھیں۔ حب الدنیا کے لباس کو اتار دیں اور جہاد و مقاومت کی زرہ کو پہن لیں، تاکہ خدا بھی ہمیں مہنگے داموں خرید لے۔
حق ہے ہمارا راستہ منزل ہماری کربلا
ہم ہیں حسینی کارواں، ہم فاطمی رزمِ جہاں
خوںِ شہیداں کی قسم سینہ سپر ہیں دم بدم
میداں میں اٹھیں جب قدم پسپا ہوں سب اہلِ ستم
ہم وارثِ سیف و عَلم، ہم ضامنِ لوح و قلم
ہم ہیں حسینی کارواں ہم فاطمی رسمِ جہاں
تحریر: سویرا بتول