یوکرین کو دیئے جانے والے ہتھیار، دہشتگرد گروہوں سے برآمد ہو رہے ہیں
شیعہ نیوز: اقوام متحدہ کی نائب سربراہ اور ہتھیاروں کے انخلا کے امور میں بین الاقوامی ادارے کی سینیئر مندوب ایزومی ناکامتسو نے کہا ہے کہ ان سے یوکرین کو تباہ کن ہتھیاروں کی ترسیل اور اس کے نتیجے کے بارے میں تحریری رپورٹ طلب کی گئی تھی جسے وہ پیش کررہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ گذشتہ ستمبر میں دی جانے والی رپورٹ کے بعد یہ ان کی دوسری رپورٹ ہے جو سلامتی کونسل میں پیش کی جا رہی ہے۔
ایزومی ناکامتسو نے مزید کہا کہ چوبیس فروری سے شروع ہونے والی اس جنگ کے دوران بعض ممالک نے یوکرین کو اپنی دفاع کے بہانے جنگی وسائل اور ہتھیار فراہم کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ستمبر کے مہینے میں بھی اس بارے میں انھوں نے بتایا تھا اور اعداد و شمار سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بعض ممالک جنگ میں یوکرین کی مدد کررہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ٹینکوں، بکتر بند جنگی گاڑیوں، توپوں، میزائل سسٹم اور ہلکے ہتھیاروں کی تعداد کے بارے میں موجود رپورٹیں حکومتوں کے ذریعے بھی حاصل ہوئی ہیں اور آزاد ذرائع سے بھی حاصل کی گئی ہیں۔
اقوام متحدہ کی انڈر سیکریٹری محترمہ ناکامتسو نے کہا کہ اس جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر ایسی غیرمصدقہ رپورٹیں بھی موصول ہوئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ مختلف نوعیت کے ہتھیار من جملہ بھاری توپوں کو ان نیم فوجی دستوں اور ملیشیا کے حوالے کیا گیا ہے جو کی ایف کے حلیف ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے گروہوں کو بھاری مقدار میں اسلحے کی فراہمی سے امن و استحکام کی صورتحال اور بھی پیچیدہ ہورہی ہے اور اس کے نتیجے میں جنگ کی وسعت اور شدت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یوکرین کو دیئے جانے والے ہتھیار روس سے بر سرپیکار نیم فوجی گروہوں کے علاوہ علاوہ بلیک مارکیٹوں میں بھی دیکھے گئے ہیں۔
گذشتہ بیس اکتوبر کو رائٹرز نیوز ایجنسی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کی ایف کو دیئے جانے والے ہتھیار مغربی ایشیا، وسطی افریقہ اور ایشیا کے انتہاپسند دہشتگردوں کے پاس سے بھی برآمد ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی قیادت میں یورپی اور مغربی ممالک نے بھاری مقدار میں کی ایف کو ہتھیار فراہم کئے ہیں جس کے نتیجے میں جنگ یوکرین طویل تر ہوتی جا رہی ہے اور سب سے زیادہ نقصان یوکرینی عوام کا ہو رہا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ روسی حکام نے بارہا خبردار کیا ہے کہ مغربی ملکوں کی جانب سے یوکرین کے لئے اسلحے کی سپلائی سے جنگ طول پکڑ رہی ہے اور اس کے غیر متوقع نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔