عراق اور شام میں داعش کی دوبارہ سر اٹھانے کی کوشش
ایک طرف عراقی عوام ملک سے امریکہ کے مکمل فوجی انخلاء کے مطالبے پر زور دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے دوبارہ سر اٹھانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ حال ہی میں جمعہ 21 جنوری کے روز داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر نے شام کے قصبے الحسکہ میں جیل توڑنے کی کوشش کی، جہاں 3 ہزار داعشی دہشت گرد بند ہیں۔ اسی طرح انہوں نے عراق کے صوبہ دیالہ میں ایک فوجی چوکی پر حملہ کرکے 11 عراقی فوجیوں کو شہید کر دیا۔ دوسری طرف شام میں امریکی ڈرون دوبارہ سے سرگرم عمل ہوگئے ہیں اور امریکی سفارت خانے نے بھی داعش کی جانب سے خطرہ شدید ہونے کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔ گذشتہ چار دن سے شام کے شمال مشرق میں واقع قصبہ الحسکہ بدامنی کا شکار ہے۔
الحسکہ میں بدامنی کا آغاز اس وقت ہوا، جب بدھ 19 جنوری کی رات داعش کے خفیہ سیل نے غویران جیل پر دھاوا بول دیا۔ اس جیل میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً تین ہزار داعشی قید ہیں۔ موصولہ رپورٹ کے مطابق غویران جیل پر حملہ کرنے والے داعشی دہشت گردوں کی تعداد 80 سے 100 کے درمیان تھی۔ ساتھ ہی جیل میں قید داعشی دہشت گردوں نے بھی ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔ کرد ڈیموکریٹک فورسز نامی ملیشیا نے فوری کارروائی کرکے جیل پر اپنا کنٹرول دوبارہ قائم کر لیا، لیکن اس وقت تک سینکڑوں داعشی قیدی جیل سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ اگرچہ تمام دہشت گرد قیدی جیل سے بھاگنے میں کامیاب نہیں ہوسکے، لیکن فرار ہونے والے دہشت گردوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ اب تک یہ قصبہ بدامنی کا شکار ہے۔
اخبار القدس العربی کے بقول غویران جیل پر یہ حملہ گذشتہ تین برس میں داعش کا سب سے بڑا اور منظم حملہ تھا۔ شام میں ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ سرگرم کارکن المرصد السوری نے صحافیوں کو بتایا کہ داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر اور کرد ملیشیا کے درمیان مسلح جھڑپوں کے دوران اب تک 120 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق داعش کے 77 دہشت گرد اور کرد ملیشیا کے 39 افراد جبکہ 7 عام شہری ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ البتہ کہا جا رہا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے ٹیلی گرام مسینجر میں اپنے چینل میں اعلان کیا ہے کہ غویران جیل میں موجود اسلحہ کا ایک ڈپو بھی اس کے ہاتھ لگا ہے۔
ابھی شام کے قصبے الحسکہ میں واقع غویران جیل پر داعش کے حملے کو ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ داعش سے وابستہ ایک اور خفیہ سیل نے عراق کے صوبہ دیالہ کے علاقے العظیم میں واقع ایک فوجی چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا اور 11 عراقی فوجی شہید ہوگئے۔ یہ انتہائی غیر متوقع حملہ تھا۔ شام اور عراق میں داعش کے ایک ساتھ سر اٹھانے کی کوشش بہت مشکوک اور پراسرار دکھائی دیتی ہے۔ ان حملوں میں داعشی دہشت گردوں نے اسنائپر گنوں کے ساتھ ساتھ ہلکے اور بھاری ہتھیار استعمال کئے۔ داعش نے الطالعہ، وام اور الکرمی دیہاتوں کو بھی اپنے حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ عراقی وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی نے ان حملوں میں شہید ہونے والے افراد کے خون کا بدلہ لینے کا وعدہ کیا ہے۔ عراق آرمی اور حشد الشعبی نے گذشتہ دو دنوں سے وسیع پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کر رکھا ہے۔
مختلف عراقی حکام اور سیاست دانوں کی جانب سے داعش کی حالیہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کے بارے میں ردعمل سامنے آیا ہے۔ عراق کے وزیر دفاع عناد سعدون نے صوبہ دیالہ میں پیش آنے والے واقعہ کو درمیانی اور نچلی سطح کے سکیورٹی کمانڈرز کی غفلت کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت دہشت گرد گروہ داعش کی طاقت بہت کم ہوچکی ہے اور اس کے پاس زیادہ بھاری اسلحہ بھی نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں ان کی کامیابی کی وجہ ہماری اپنی کمزوری ہے۔ عراق کی پارلیمنٹ کے اسپیکر الحلبوسی نے بھی اپنے ٹویٹر پیغام میں دہشت گرد عناصر کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے ماضی کی طرح عراقی عوام میں خوف و ہراس پیدا نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ داعش ہرگز واپس نہیں آئے گی اور انہیں ملک میں بدامنی پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
بعض سیاسی اور فوجی ماہرین حالیہ واقعات کو 2014ء میں رونما ہونے والے واقعات سے تشبیہہ دے رہے ہیں۔ یاد رہے 2014ء میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے عراق میں پہلی بار سر اٹھایا تھا اور امریکہ نے بھی اس سے مقابلے کا بہانہ بناتے ہوئے عراق میں فوجی چڑھائی کر دی تھی۔ اب جبکہ عراق میں اسلامی مزاحمتی گروہوں اور عراقی عوام کی جانب سے امریکہ کے فوجی انخلاء پر بہت زیادہ زور دیا جا رہا ہے، داعش کا ایک بار پھر سر اٹھانا انتہائی مشکوک دکھائی دیتا ہے۔ گویا امریکہ ایک بار پھر داعش کے کارڈ سے عراق میں نیا کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ شک اس وقت زیادہ ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ بغداد میں امریکی سفارت خانے نے صوبہ دیالہ میں داعش کی کارروائی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے داعش کے خطرے کو شدید قرار دیا ہے۔
تحریر: علی احمدی