آیت اللہ خامنہ کا عالمی حالات پر گہرا اور وسیع مطالعہ ہے,پاکستانی سینیٹر مشاہد حسین سید
شیعہ نیوز:بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی برسی کی مناسبت سے ایران سمیت دنیا بھر میں تقریبات ہوئیں۔ ایران میں مرکزی تقریب تہران میں امام خمینی کے حرم میں ہوئی جس میں رہبر معظم نے خطاب کیا۔ تقریب میں ملکی اور غیر ملکی اہم سیاسی و سفارتی شخصیات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر پاکستان سے آنے والے مہمان سینیٹ کی دفاعی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے غیر ملکی نیوز ایجنسی کے ساتھ خصوصی گفتگو کی۔
ان کے انٹرویو کا متن ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
غیر ملکی نیوز ایجنسی : رہبر معظم کے خطاب کے بارے میں آپ کیا تجزیہ کریں گے؟
مشاہد حسین سید: میں خوش قسمت ہوں کہ میں نے امام خمینیؒ کی برسی میں شرکت کی۔ رہبر معظم نے بہت جامع خطاب کیا۔ میں نے دیکھا کہ ان کا بڑا وسیع مطالعہ ہے۔ انہوں نے تین موضوعات پر گفتگو کی۔ وہ بین الاقوامی حالات سے پوری طرح پر باخبر تھے۔ وہ مبصرین کے بیانات اور تھنک ٹینکس میں ہونے والی باتوں کا گہرا ادارک رکھتے ہیں۔ غزہ پر انہوں نے کئی ریفرنسز دیے اور نام لئے بغیر مبصرین کے بیانات اور تجزئے نقل کئے۔ انہوں نے غزہ کے حوالے سے کہا کہ طوفان الاقصی بہت بڑا واقعہ ہے جس سے دنیا کی سمت تبدیل ہوگی۔ اسرائیلی رژیم کی جو بالادستی تھی اس کی نابودی کا یہ آغاز ہے۔ انہوں نے واضح پیغام دیا۔ انہوں نے طوفان الاقصی کے اثرات اور نتائج کا بھی وقتا فوقتا ذکر کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے شہید صدر رئیسی کا نام لے کر کافی تعریف کی اور کہا کہ وہ امام خمینیؒ کے سچے شاگرد تھے اور ان کی راہ کے پیرو تھے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں متعدد صدور آئے لیکن صدر رئیسی کا عوام سے رابطہ بہت مستحکم تھا۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ انتخابات میں بڑی تعداد میں شرکت کریں۔ انہوں نے آئندہ آنے والے صدر کے حوالے سے بھی کہا کہ ان کے اندر کیا خصوصیات ہونی چاہئے۔ ایسا صدر آنا چاہئے جو ذاتی صلاحیت اور قابلیت کے علاوہ انقلابی خیالات کا حامل ہو۔ لوگوں کی بڑی تعداد ہونے کے باوجود رہبر کا مجمع پر پورا کنٹرول تھا اور لوگ وقتا فوقتا نعرے لگارہے تھے۔
غیر ملکی نیوز ایجنسی: اسرائیل کی نابودی کے بارے میں اب مغربی اور صہیونی تجزیہ نگار خود اعتراف کررہے ہیں، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
مشاہد حسین سید: میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ آیت اللہ خامنہ ای نے تازہ ترین خبریں دیں اور اسرائیلی تجزیہ کاروں کی باتوں کا حوالہ دیا۔ ان کا یہی پیغام تھا جو سالوں پہلے امام خمینیؒ نے دیا تھا۔ ان کا بڑا جامع مطالعہ ہے۔ انہوں نے امریکہ اور دوسرے میں اسرائیل کی مخالفت میں طلباء کے احتجاج کا ذکر کیا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ عیسائیوں اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں نے اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنا شروع کیا ہے۔
غیر ملکی نیوز ایجنسی: رہبر معظم نے امریکی طلباء کے نام خط لکھا، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
مشاہد حسین سید: یہ انتہائی امید افزا لیٹر ہے۔ وہ پہلے مسلم لیڈر ہیں جنہوں نے امریکی طلباء کی تائید کی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اس سے پہلے 1989 میں امام خمینی نے سویت یونین کے سربراہ گوباچوف کے نام خط لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تمہارا نظام ناکام ہوچکا ہے اس لئے دستبردار ہوجائیں۔ ان کے خط دو سال بعد سویت یونین کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے بھی ایسا خط لکھا ہے جس میں انہوں نے طلباء کی تعریف کی ہے اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ اس سے مغربی معاشرے میں امید کی کرن روشن ہوگئی ہے۔ یہ بڑا اچھا اور صائب قدم تھا۔
غیر ملکی نیوز ایجنسی: گذشتہ دنوں ایران میں فضائی حادثے میں صدر رئیسی اور وزیرخارجہ شہید ہوگئے، مسلم ممالک مخصوصا پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کے حوالے سے ان کی پالیسی کے بارے میں کیا کہیں گے؟
مشاہد حسین سید: شہید صدر رئیسی نے حلف اٹھاتے ہی پیغام دیا تھا کہ ہمسایہ اور مسلم ممالک کے ساتھ اسٹریٹیجک تعلقات کو فروغ دیں گے جس میں پاکستان، ترکی، سعودی عرب اور آذربائیجان وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے آخری دورہ بھی پاکستان کا کیا تھا۔ جہاں ان کو اور ایرانی خاتون اول کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دی گئی۔ اس طرح ان کا دورہ صرف سیاسی شخصیت کا دورہ نہیں تھا بلکہ ایک دانشور کا بھی دورہ تھا۔ ان کا دورہ بہت زبردست تھا۔ دورے کے ایک ہفتے بعد انہوں نے اسلام آباد میں اپنے سفیر علی رضا مقدم کو تہران طلب کرکے دورے کے دوران ہونے والے معاہدوں پر ہونے والی پیشرفت پر رپورٹ طلب کی اور کہا کہ میرے دورے کے دوران ہونے والے معاہدوں پر من و عن عملدرامد ہونا چاہئے۔
غیر ملکی نیوز ایجنسی: غزہ میں دوبارہ جنگ بندی کی باتیں ہورہی ہیں چنانچہ صدر جوبائیڈن نے ایک تجویز پیش کی ہے، کیا مستقل جنگ بندی ممکن ہے؟
مشاہد حسین سید: اسرائیل کی چابی امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ امریکہ جنگ سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ نتن یاہو کو معلوم ہے کہ جنگ بندی کا نتیجہ اس کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ اسرائیل سیاسی، سفارتی، نفسیاتی، اخلاقی اور قانونی طور پر جنگ ہارچکا ہے۔ سات مہینے گزرنے کے باوجود غزہ میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ دوسری طرف جنگ بندی صدر جوبائیڈن کے لئے بہت ضروری ہے۔ اگر جنگ مزید طول پکڑتی ہے تو جوبائیڈن الیکشن ہار جائیں گے۔ اسرائیل کا ساتھ دینے کی وجہ سے پارٹی کے اندر سے لوگ صدر جوبائیڈن کی مخالفت کررہے ہیں۔ اسرائیل کے خلاف ایک سوچ پیدا ہورہی ہے۔ اس وجہ سے جوبائیڈن جنگ بندی پر مجبور ہیں۔