مقالہ جات

باکو میں صیہونی تکفیری بیٹھک

تحریر: مہدی سیف تبریزی

تکفیری دہشت گرد گروہ ھیئت تحریر الشام کے سربراہ ابومحمد الجولانی جس نے احمد الشرع کے نئے نام سے شام کی نام نہاد حکومت سنبھال رکھی ہے، اس نے حال ہی میں آذربائیجان کا دورہ کیا ہے۔ 12 جولائی 2025ء کے دن اس دورے میں جولانی نے دارالحکومت باکو میں آذربائیجان کے صدر الہام علی اف سے ملاقات بھی کی۔ ماہرین خطے میں موجودہ کشمکش اور حساس حالات میں اس دورے کو بہت زیادہ اہم قرار دے رہے ہیں جبکہ آذربائیجان حکومت اور غاصب صیہونی رژیم کے انتہائی قریبی تعلقات اور گہرے تعاون کے پیش نظر اسلامی دنیا میں اس ملاقات کے بارے میں شدید تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک سفارتی ملاقات ہی نہیں بلکہ اسرائیل، ترکی، ھیئت تحریر الشام کے زیر کنٹرول شام اور آذربائیجان پر مشتمل ایک نئے سیاسی اور سکیورٹی اتحاد کی تشکیل کی علامت ہے۔

اقتصادی تعاون کی آڑ میں سکیورٹی ملاقات
باکو میں جولانی کی بظاہر سفارتی ملاقاتوں کے بعد آئی 24 جیسے عبرانی ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹس میں فاش کیا ہے کہ جولانی نے آذربائیجانی حکام کی وساطت سے کم از کم ایک میٹنگ اسرائیلی حکام سے انجام دی ہے۔ عبرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ میٹنگز جولانی رژیم کے وزیر خارجہ اسعد الشیبانی اور صیہونی رژیم کے کوآرڈینیٹر احمد الدالاتی کے درمیان انجام پائی ہیں اور ان میں شام اور اسرائیل کے درمیان سکیورٹی معاہدہ، خطے میں ایران کا کردار، حزب اللہ لبنان کی فوجی صلاحیتیں اور فلسطینی گروہوں کی صورتحال جیسے حساس موضوعات زیر بحث لائے گئے ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ آئی 24 صیہونی چینل کے مطابق ان ملاقاتوں کے لیے باکو کا انتخاب فریقین (جولانی رژیم اور صیہونی رژیم) کا مشترکہ فیصلہ تھا، تاکہ یوں ایران کو واضح پیغام بھیجا جا سکے۔ یہ خطے کے کچھ ممالک کی جانب سے صیہونی رژیم سے قریبی تعاون کی اہم علامت ہے۔

امریکہ کا کردار اور جولانی سے ٹرمپ کے مطالبات
اس بارے میں امریکہ کے بنیادی اور مرکزی کردار سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیئے۔ گذشتہ مہینے کے آغاز میں سعودی عرب میں ابو محمد الجولانی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات کے بارے میں شائع ہونے والی مختلف رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ نے جولانی کی سربراہی میں موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے جو شرائط پیش کی ہیں، ان میں سے اہم ترین شرط اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے اور ابراہیم معاہدے میں شامل ہونے کے مقدمات فراہم کرنا ہے۔ اسی طرح داعش اور دیگر تکفیری عناصر سمیت غیر ملکی دہشت گردوں کو ملک سے نکال باہر کرنا، فلسطینی گروہوں کو ملک سے نکالنا اور شمال مشرقی شام میں داعش کے عناصر پر مشتمل جیلوں کو کنٹرول کرنے میں تعاون کرنا جیسی شرائط بھی پیش کی گئی ہیں۔ یاد رہے امریکہ نے ھیئت تحریر الشام کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست سے بھی خارج کر دیا ہے۔

اس بارے میں ایک اہم تشویش یہ پائی جاتی ہے کہ امریکہ کی جانب سے جولانی رژیم سے "غیر ملکی دہشت گرد عناصر کی ملک بدری” کے مطالبے کا مقصد ان دہشت گرد عناصر کی آذربائیجان منتقلی بھی ہوسکتا ہے، تاکہ انہیں ایران کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ اس سے پہلے بھی جب 2020ء میں قرہ باغ کی دوسری جنگ شروع ہوئی تو بڑی تعداد میں ھیئت تحریر الشام اور النصرہ فرنٹ سے وابستہ دہشت گرد عناصر کو آذربائیجان منتقل کیا گیا تھا۔ مزید برآں، جب جنگ ختم ہوگئی تو ان عناصر کو آزاد شدہ علاقوں میں مستقل رہائش بھی فراہم کر دی گئی تھی۔ جنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ھیئت تحریر الشام 3500 غیر ملکی دہشت گردوں کو اپنے ساتھ ملحق کرکے شام کی قومی فوج تشکیل دینے کے درپے ہے۔ ان میں مشرقی ترکستان کی جماعت اسلامی بھی شامل ہے۔

ایران کیخلاف باکو اور تل ابیب کا باہمی تعاون
گذشتہ چند سالوں کے دوران آذربائیجان اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعلقات ایران کے علاقائی استحکام کو درپیش ایک بنیادی چیلنج بن چکے ہیں۔ موجودہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل 1990ء کی دہائی سے باکو سے وسیع فوجی اور انٹیلی جنس تعلقات استوار کرچکا ہے، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1)۔ اسلحہ کی فراہمی: اسرائیل آذربائیجان کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا سورس ہے۔ اسرائیلی فراہم کردہ اسلحہ میں جدید ڈرون طیارے اور میزائل ڈیفنس سسٹم بھی شامل ہیں، جنہوں نے قرہ باغ کی دوسری جنگ میں آرمینیا کے مقابلے میں باکو کی فوجی برتری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
2)۔ انٹیلی جنس سرگرمیاں: رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے بحیرہ کیسپین کے ساحل پر واقع آذربائیجان کے علاقوں میں وسیع پیمانے پر جاسوسی آلات نصب کر رکھے ہیں، جن کا مقصد ایران کی جاسوسی کرنا ہے۔

مصدقہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل نے انہی جاسوسی آلات کی مدد سے ایران میں کئی جوہری سائنس دانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی ہے، جن میں مسعود علی محمدی بھی شامل ہیں۔ یہ ٹارگٹ کلنگ باکو میں واقع اسرائیلی سفارت خانے سے انجام دی گئی ہے۔ اسی طرح ایران کے ایک اور جوہری سائنس دان ڈاکٹر محس فخری زادہ کی ٹارگٹ کلنگ کے لیے جس اسلحے کا استعمال کیا گیا، وہ آذربائیجان سے ایران اسمگل کیا گیا تھا جبکہ ایران کی جوہری دستاویزات چوری کرنے کے لیے جو اسرائیلی جاسوسی ٹیم آئی، وہ بھی آذربائیجان کے راستے ہی آئی اور واپس گئی تھی۔ مزید برآں، شیراز میں شاہ چراغ نامی مزار پر دہشت گردانہ حملہ انجام دینے والے عناصر بھی آذربائیجان سے ہی ایران میں داخل ہوئے تھے۔ اسی طرح حالیہ اسرائیل ایران جنگ میں کئی ڈرون حملے آذربائیجان کی سرزمین سے کیے گئے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button