
بین الاقوامی ناکامی
یاسر فرخ پارسا
1)۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو "عالمی بحرانوں کے فوری حل” کے نعرے سے وائٹ ہاؤس میں داخل ہوا تھا، اب اسے ایسے مسائل کا سامنا ہے جو نہ صرف حل نہیں ہوئے بلکہ خارجہ پالیسی میں اس کی اسٹریٹجک کمزوریاں بن چکے ہیں۔ ٹرمپ کا یہ دعوی کہ وہ "یوکرین میں جنگ کو ایک دن میں ختم کر سکتا ہے” کئی بار دہرایا گیا، لیکن آخرکار اس نے ایک بیان میں اعتراف کیا کہ یہ جملہ محض ایک مذاق تھا اور اس کا مطلب "فیصلہ سازی کی رفتار میں اضافہ کرنا” تھا۔ ٹرمپ کے موقف میں یہ تبدیلی نہ صرف حکمت عملی میں تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ امریکہ کے اندرونی سیاسی، سیکورٹی اور میڈیا حلقوں کی جانب سے ٹرمپ پر بہت زیادہ دباؤ کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔ مزید برآں، اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ٹرمپ جیسی متنازع شخصیت بھی اسٹریٹجک ناکامیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
2)۔ یوکرین کے مسئلے میں شکست واضح طور پر ثابت ہو چکی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کیف کی حمایت منقطع کرنے کے وعدے نہ صرف جنگ ختم ہونے کا باعث نہیں بنے بلکہ ان کی وجہ سے امریکہ کے اتحادی یورپی ممالک میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ "طاقت کے بدلے امن” نامی ٹرمپ کے منصوبے کا دنیا بھر میں مذاق اڑایا گیا اور بدلے میں روس، جنگ کو لمبا کر کے میدان جنگ میں طاقت کا توازن اپنے حق میں تبیل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ دریں اثنا، غزہ کے مسئلے نے بھی امریکہ اور خاص طور پر ٹرمپ کے امیج کو بھی شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ اپنی پہلی مدت صدارت میں ٹرمپ کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کی غیر مشروط حمایت، اب غزہ میں صیہونی رژیم کے نامحدود مجرمانہ اقدامات سے بھی جڑ گئی ہے۔ ایسے مجرمانہ اقدامات جنہیں حتی امریکی میڈیا بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔
3)۔ ٹرمپ، جو اپنی دوسری مدت صدارت کے دوران غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے یمن کو مکمل طور پر امریکہ کا مطیع بنانے کی کوشش میں مصروف تھا، اب اس کی حالت یہ ہے کہ وہ خطے میں طاقت کی نئی حقیقت قبول کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ یمن پر امریکی فضائی حملوں کی ناکامی اور انصار اللہ کے ٹھکانوں پر ان حملوں کے بے اثر ہونے کے بعد نہ صرف ٹرمپ کا فوجی منصوبہ بری طرح ناکام ہو گیا بلکہ امریکہ غیر اعلانیہ طور پر یہ بات قبول کرنے پر بھی مجبور ہو چکا ہے کہ بحیرہ احمر میں اپنی جہاز رانی کے راستوں کی سیکورٹی کے لیے اسے صیہونی رژیم کی سلامتی کو نظرانداز کرتے ہوئے انصار اللہ یمن کی رضامندی حاصل کرنی پڑے گی اور حتی ریاض اور ابوظہبی میں اپنی اتحادی حکومتوں کی رائے سے بھی چشم پوشی اختیار کرنا ہو گی۔ یہ حقیقت بحیرہ احمر میں طاقت کے توازن میں تبدیلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
4)۔ اگرچہ ایران کے مسئلے میں ابھی ٹرمپ کو یقینی شکست نہیں ہوئی لیکن موجودہ حالات اور ٹرمپ کے طرز عمل سے پالیسی سازی میں تعطل کے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔ ایران میں یورینیم افزودگی کے مکمل خاتمے پر مبنی ٹرمپ کے حد سے زیادہ نامعقول مطالبے نیز زبانی دھمکیوں نے عملی طور پر کسی بھی طرح کے منطقی مذاکرات کا راستہ روک دیا ہے۔ ٹرمپ نے زیادہ سے زیادہ دباؤ کا ماحول بنا کر تہران کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی لیکن ایران نے اپنی اندرونی طاقت، علاقائی اثر و رسوخ اور مقامی جوہری صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے ثابت کر دیا کہ وہ کمزور پوزیشن میں مذاکرات قبول نہیں کرے گا۔ اگر ٹرمپ نے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی نہیں کی تو ایران کے مسئلے میں شکست بھی اس کی ناکامیوں کی فہرست میں شامل ہو جائے گی۔
5)۔ عالمی سطح پر ان ناکامیوں کے ساتھ ساتھ، ڈونلڈ ٹرمپ اندرون خانہ سیاست میں بھی سنگین بحرانوں سے روبرو ہے۔ اس نے اپنے قومی سلامتی کے مشیر کو اختلافات کے عروج پر برطرف کر دیا، امریکہ کی اقتصادی اور میڈیا طاقت کی علامت تصور کیے جانے والے شخص یعنی ایلن ماسک سے تعلقات کی جگہ تلخ کلامی اور ایکدوسرے کے راز فاش کرنے نے لے لی اور اب ٹرمپ کو کیلی فورنیا سمیت کئی ریاستوں میں تارکین وطن کے بڑے پیمانے پر احتجاج کا سامنا ہے۔ تارکین وطن کا ایشو، جسے کبھی ٹرمپ اپنی صدارتی مہم میں اپنے حق میں استعمال کرتا تھا، اب اس کی نسل پرستانہ اور دھوکہ دہی پر مبنی امیگریشن پالیسیوں کے باعث سماجی ناراضگی کی علامت بن چکا ہے۔ سڑکوں کے مناظر اور پولیس گردی ایک بے بس امریکہ کی تصویر کشی کر رہے ہیں جو اب مزید دنیا میں جمہوریت کا علمبردار ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا۔
6)۔ ایسے حالات میں ٹرمپ نے خارجہ تعلقات کی بحالی یا خارجہ پالیسی کی حکمت عملیوں پر نظرثانی کرنے کے بجائے آگے بھاگ کر اندرونی بحران پیدا کرنے کا سہارا لیا ہے۔ تارکین وطن پر حد سے زیادہ توجہ، اپنے میڈیا کارکنوں کے خلاف دھمکی آمیز بیانات اور نرم خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنا وہ حربے ہیں جو ٹرمپ استعمال کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بین الاقوامی ایشوز میں شدید ناکامی کا براہ راست نتیجہ اندرونی تشدد کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ اب ٹرمپ دنیا میں ایک طاقتور امیج پیش کر کے اپنے حامیوں کو قائل نہیں کر سکتا لہذا وہ گھر میں دشمن تراشی کر کے اپنا سیاسی وقار بحال کرنے کے درپے ہے۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں اب ماضی کی تاثیر نہیں رہی۔ نہ ڈیٹرنس پاور، نہ بین الاقوامی اتفاق رائے پیدا کرنے کی طاقت اور نہ ہی علاقائی اتحادیوں کو سنبھالنے کی صلاحیت۔