بھارت میں شہریت ترمیمی بل اور طلباء پر تشدد کے خلاف مظاہرے
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) بھارت میں شہریت ترمیمی بل کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں جاری احتجاجی مظاہروں کے دوران دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلباء کے مظاہروں پر پولیس کے حملوں کے بعد لکھنو اور ملک کے دیگر اعلی تعلیمی اداروں میں شہریت ترمیمی بل پر احتجاج شروع ہوگئے ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق لکھنو میں یونیورسٹی کے طلباء نے بھی شہریت ترمیمی بل اور جامعہ ملیہ اور اے ایم ایو کے طلباء پر پولیس کے تشدد کے خلاف مظاہرے شروع کردیئے ہیں اور پوری ریاست اترپردیش میں حالات تیزی کے ساتھ بگڑتے جارہے ہیں۔
ریاستی حکومت نے یوپی میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کردی ہے۔ ریاستی حکومت نے سہارنپور ، بریلی ، علی گڑھ ، بلند شہر، میرٹھ اور دیگر کئی اضلاع میں دفعہ ایک سوچوالیس کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ موبائل سروس بھی بند کردی گئی ہے۔
اطلاعات ہیں کہ لکھنو کے ندوہ کالج کے طلباء نے کل رات سے شہریت ترمیمی بل اور جامعہ ملیہ کے طلباء کے خلاف پولیس کے تشدد کے خلاف جو احتجاج شروع کیا تھا اس میں آج شدت آگئی ہے۔
دوسری جانب دہلی یونیورسٹی میں بھی طلباء نے شہریت ترمیمی بل اور جامعہ ملیہ اور اے ایم یو کے طلباء پر پولیس کے تشدد کے خلاف مظاہرہ شروع کردیا ہے ادھر ممبئی اور حیدرآباد میں یونیورسٹی کے طلباء بھی سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔
اس درمیان جامعہ ملیہ کے طلباء پر پولیس کے تشدد اور بربریت کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا میں شکایت درج کرادی گئی ہے ۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے اس موقع پر کہا کہ اس شکایت پر سماعت منگل کو ہو گی لیکن شرط یہ ہے کہ تشدد رک جائے۔
سینیئر وکیل اندرا جے سنگھ نے جامعہ ملیہ اور اے ایم یو میں ہوئے واقعات کی چیف جسٹس آف انڈیا اور دو دیگر ججوں کے بینچ کے سامنے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کو اس معاملے میں نوٹس لینا چاہئے۔
سینیئر وکیل اندرا جے سنگھ نے کہا کہ یہ پورے ملک میں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔
اس درمیان سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیو کلپ بھی دکھائی جارہی ہے کہ جس میں پولیس اہلکار علی گڑھ میں لوگوں کی موٹر سائیکلوں کی توڑپھوڑ کررہے ہیں۔
بعض عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دہلی میں اتوار کو جن تین بسوں میں آگ لگائی گئی تھی ان میں سے ایک بس کو پولیس نے آگ کے حوالے کیا تھا لیکن دہلی پولیس نے اس کی تردید کی ہے۔
دریں اثنا جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وی سی نجمہ اختر نے کہا ہے کہ پولیس نے یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر یونیورسٹی میں داخل ہو کر طلباء پر تشدد کیا جو ناقابل قبول ہے ۔
انہوں نے کہا کہ شہریت ترمیمی بل پر پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں لیکن اب صرف جامعہ ملیہ کا نام لیا جارہا ہے۔
انہوں نے اعلی تعلیم کی وزارت سے مطالبہ کیا کہ وہ طلباء پر پولیس کے تشدد کی اعلی سطحی جانچ کرائے ۔ جامعہ ملیہ کی وی سی نے کہا کہ پولیس نے لائبریری میں گھس کر طلباء پر تشدد کیا جس میں دوسو طلبا زخمی ہوگئے۔
اس درمیان وزیراعظم نریندر مودی نے شہریت ترمیمی بل کے خلاف پورے ملک میں ہورہے احتجاجی مظاہروں پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اس بل کے خلاف ہونے والے پرتشدد مظاہرے افسوسناک ہیں۔
انہوں نے اپنے ٹویٹر پیج پر لکھا ہے کہ نظریاتی اختلاف جمہوریت کا اٹوٹ حصہ ہے لیکن عوام کی املاک کو نقصان پہنچانا ہندوستان کی تہذیب کاحصہ نہیں ہے۔
بھارتی وزیراعظم مودی نے کہا کہ میں بہت ہی واضح الفاظ میں یہ یقین دلاتا ہوں کہ شہریت ترمیمی بل کسی بھی مذہب کے ماننے والے یا کسی بھی ہندوستانی شہری کے خلاف نہیں ہوگا اوراس پرکسی کوبھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔
تاہم مسلمانوں اور ملک کی دیگر سیکولر سیاسی جماعتوں نے اس قانون کو ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والا قانون بتایا ہے۔