مضامینہفتہ کی اہم خبریں

جو بائیڈن اور یمن جنگ خاتمے کے دعوے

ستمبر 2016ء میں امریکہ کے سینیٹ کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں مشرق وسطی میں ایک نئی جنگ کے آغاز کیلئے اسلحہ فروخت کرنے کا مسئلہ زیر بحث لایا گیا۔ اس اجلاس کے بعد امریکہ نے سعودی عرب کو 1.5 ارب ڈالر کا اسلحہ فراہم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسلحہ کی اس کھیپ میں 150 ایبرامز ٹینک بھی شامل تھے۔ اگرچہ یہ معاہدہ براک اوباما کی مدت صدارت کے دوران امریکہ اور سعودی عرب میں دسیوں ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کے گذشتہ معاہدوں کی نسبت ایک چھوٹا معاہدہ قرار دیا جا رہا تھا لیکن سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد کی جانب سے یمن کے خلاف تھونپی گئی جنگ کو ڈیڑھ سال گزر جانے کی بدولت جنگ مخالف حلقوں میں بہت زیادہ حساسیت پیدا ہو چکی تھی۔

اس وقت ڈیڑھ ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ فروخت کرنے کا معاہدہ درحقیقت براک اوباما کی سربراہی میں امریکی حکومت کی جانب سے یمن کے نہتے شہریوں کے خلاف سعودی عرب کی جان لیوا جنگ کی واضح اور کھلی حمایت کا معنی رکھتی تھی۔ براک اوباما حکومت نے اس وقت تک بھی خاموشی اختیار کرنے کے ذریعے سعودی عرب کو یمن کے خلاف جارحیت کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپریل 2019ء ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کی جانب سے پیش کردہ اس بل کو ایک بار پھر ویٹو کر دیا جس میں حکومت سے یمن کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کی حمایت ترک کر دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ وائٹ ہاوس کی جانب سے اس بل کو مسترد کرنے کا اقدام یمن جنگ ختم نہ کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔

براک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ حکومتوں کی جانب سے یمن کے خلاف سعودی عرب کی ظالمانہ جارحیت کی واضح حمایت اور اس سلسلے میں انجام پانے والے اقدامات کا مقصد وائٹ ہاوس کے ناجائز مفادات کی تکمیل ہے۔ حال ہی میں موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے انسانی حقوق کی پاسداری کا ڈرامہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ یمن کے خلاف جاری جنگ میں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی حمایت ترک کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یوں اس غریب عرب ملک کے خلاف سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد کو گذشتہ چھ برس سے مہیا کی جانے والی امریکہ کی فوجی امداد روک دی گئی ہے۔ جو بائیڈن نے یہ بات امریکی وزارت خارجہ میں ایک تقریر کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ یہ جنگ ختم ہو جانی چاہئے۔

جو بائیڈن نے اپنے موقف پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم یمن کے خلاف جارحانہ اقدامات میں مخالف فریق کو حاصل تمام امریکی مدد اور حمایت ختم کر رہے ہیں جن میں سے ایک انہیں اسلحہ کی فروخت ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے اس بظاہر انسان پسندانہ اقدام کے پس پردہ اہداف کو صحیح طور پر سمجھنے کیلئے کچھ سوالات کا جواب دینا ضروری ہے۔ کیا وجہ ہے کہ جب جو بائیڈن براک اوباما حکومت میں نائب صدر کے عہدے پر فائز تھے انہوں نے یمن کے خلاف سعودی جارحیت کی روک تھام کیلئے کوئی اقدام انجام نہیں دیا تھا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اس وقت امریکی حکومت سبز جھنڈی نہ دکھاتی تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو یمن کے خلاف جنگ شروع کرنے کی جرات نہ ہوتی۔

کیا وجہ ہے کہ یمن کے خلاف ظالمانہ جنگ کو 6 برس گزر جانے کے بعد موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کو یہ جنگ ختم کرنے کا خیال آیا ہے اور اب انہوں نے سعودی عرب کو اسلحہ فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے؟ یمن میں ایران کے سفیر نے اپنے ٹویٹر پیغام میں اس بات کا اظہار کرتے ہوئے کہ وہ امریکہ کی جانب سے یمن جنگ ختم کرنے پر مبنی دعووں سے پرامید نہیں ہیں، لکھا: "امریکی حکومت جنگ کا شکار اس ملک میں زبردستی سیاسی اور فوجی موجودگی پیدا کرنے کے درپے ہے۔” جو بائیڈن نے ایک طرف سعودی عرب کو اسلحہ فراہم نہ کرنے کا اعلان کیا جبکہ دوسری طرف یہ دعوی بھی کیا کہ وہ سعودی عرب کی سلامتی یقینی بنانے کا عہد کر چکے ہیں۔ امریکی صدر کے بیان کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سعودی عرب کو اسلحہ کی فراہمی روکنا نہیں چاہتے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی قریبی کمپنیوں نے سعودی عرب کے ساتھ اسلحہ فروخت کرنے کے متعدد معاہدے انجام دے رکھے تھے۔ جو بائیڈن کا اصل مقصد ڈونلڈ ٹرمپ کی حامی کمپنیوں سے یہ معاہدے واپس لینا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ معاہدے جاری رہتے ہیں تو 2024ء میں آئندہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس الیکشن مہم چلانے کیلئے وسیع بجٹ میسر ہو جائے گا۔ لہذا جو بائیڈن یہ معاہدے ختم کر کے اپنی قریبی کمپنیوں کے ذریعے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ نئے معاہدے انجام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اصل میں جو بائیڈن کا مقصد یمن کے نہتے شہریوں کا قتل عام روکنا نہیں بلکہ وہ ایک تیر سے کئی نشانے لگانا چاہتے ہیں۔ ایک طرف سعودی عرب پر دباو ڈال کر اسے مزید اسلحہ فروخت کریں گے اور دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کی حامی کمپنیوں کو ان معاہدوں سے محروم کر دیں گے۔
تحریر: پیمان یزدانی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button