شام سے متعلق جو بائیڈن کی ممکنہ پالیسیاں
امریکہ میں جو بائیڈن کی کامیابی کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں موجودہ امریکی حکومت نے شام کے خلاف مختلف قسم کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ مستقبل میں جو بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ پابندیاں برقرار رہیں گی۔ مزید برآں، ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کے برعکس، جو بائیڈن کی مدت صدارت میں شام کے خلاف ان امریکی پابندیوں میں یورپی ممالک بھی امریکہ کا ساتھ دیں گے۔ شام پر امریکہ اور یورپ کی جانب سے مشترکہ اقتصادی دباو ڈالا جائے گا جس کے نتیجے میں شام کو مزید اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہذا اس دباو کا مقابلہ کرنے کیلئے ایران اور روس جیسے شام کے اتحادی ممالک کو بھی مزید تگ و دو کرنی پڑے گی۔
اکثر سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ جو بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ دور میں اپنائی جانے والی جارحانہ پالیسیوں کی شدت میں کمی واقع ہو گی اور امریکی پابندیوں کا شکار ممالک مذاکرات کے ذریعے درپیش اقتصادی دباو کم کرنے کے قابل ہوں گے۔ لیکن ہمیں دیکھنا ہو گا کہ سیاسی ماہرین کی یہ رائے کس حد تک حقیقت سے قریب ہے اور کیا شام جیسے ممالک پر بھی اس کا اطلاق کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ یاد رہے شام گذشتہ دس برس سے ڈیموکریٹک امریکی صدر براک اوباما کی مدت صدارت میں امریکہ کے حمایت یافتہ مسلح دہشت گرد گروہوں سے نبرد آزما رہنے کے بعد اس وقت ریپبلکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے "قانون قیصر” کی شکل میں عائد کی گئی شدید ترین اقتصادی پابندیوں سے روبرو ہے۔
قانون قیصر شام کے خلاف عائد کی جانے والی امریکہ کی اہم ترین اور سخت ترین پابندیوں میں شمار ہوتا ہے۔ امریکہ کے اراکین سینیٹ نے دسمبر 2019ء میں چھ سال دیر سے اس قانون کی منظوری دی تھی اور ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی 20 دسمبر 2019ء کے دن اس پر دستخط کر دیے تھے۔ یہ قانون 17 جون 2020ء سے لاگو کر دیا گیا ہے۔ قانون قیصر کا نشانہ ایسے تمام افراد اور اداروں کو بنایا گیا ہے جو دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ میں شام کی جمہوری اور قانونی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسی طرح اس قانون کی زد میں ایسے افراد اور بین الاقوامی تنظیمیں بھی آتی ہیں جو شام یا اس کے اتحادی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد یا کمپنیوں سے لین دین کرتی ہیں اور تیل کی پیداوار یا فوجی ضروریات پوری کرنے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔
حالات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ شام سے متعلق جو بائیڈن کی پالیسیاں موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوں گی۔ یہ نتیجہ جو بائیڈن کے مشیروں کا موقف دیکھ کر بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر صدارتی الیکشن مہم کے دوران جو بائیڈن کے مشیر اور مستقبل میں ممکنہ امریکی وزیر خارجہ یا قومی سلامتی کے مشیر اینتھونی بلینکن نے 20 مئی 2020ء کے دن سی بی ایس نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "بشار اسد حکومت کے ساتھ سازباز ممکن نہیں ہے اور شام سے ہمارا فوجی انخلاء روس، ایران اور حتی ترکی کے مقابلے میں ہمارا اثرورسوخ کم ہونے کا باعث بنا ہے۔ ہمیں اپنا اثرورسوخ دوبارہ حاصل کرنا ہو گا۔ ہمیں شام حکومت سے مراعات حاصل کئے بغیر اسے شمال مشرقی شام میں تیل کے ذخائر تک رسائی فراہم نہیں کرنی چاہئے۔”
لہذا یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ میں جو بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد شام حکومت کے مخالفین خاص طور پر کرد رہنماوں کی حمایت پر مبنی پالیسی میں تیزی لائی جائے گی۔ یہ حمایت تین مختلف پہلووں سے انجام پا سکتی ہے۔ پہلا پہلو کرد مسلح گروہوں کو مضبوط بنانے پر استوار ہے۔ شام حکومت اور اس کے اتحادی ممالک شام کی ملکی سالمیت مضبوط بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور ظاہر ہے کہ شام کے شمال مشرقی صوبے بھی اس پالیسی کا حصہ ہیں۔ لہذا مستقبل میں امریکہ شام کے شمال مشرقی حصوں کی آزادی میں رکاوٹیں پیدا کرے گا اور اس مقصد کیلئے مسلح کرد گروہوں کو پراکسی کے طور پر بروئے کار لائے گا۔ اسی طرح امریکہ سیاسی میدان میں انسانی حقوق کا ایشو ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ دوسرا پہلو شام کے صوبہ ادلب میں ترکی کے حمایت یافتہ مسلح دہشت گرد عناصر کی حمایت پر مبنی ہے۔
امریکہ کرد مسلح گروہ ایس ڈی ایف کی جانب سے ترکی کو درپیش خطرات کم کر کے شام کے صوبہ ادلب میں ترکی کے حمایت یافتہ تکفیری مسلح عناصر کی حمایت کرے گا اور انہیں شام، روس اور ایران کے خلاف استعمال کرے گا۔ شام سے متعلق امریکی پالیسیوں کا تیسرا پہلو شام حکومت اور شامی عوام پر اقتصادی اور سیاسی دباو میں اضافے پر مبنی ہو گا۔ امریکہ شام کے شمال مشرقی حصوں میں فوجی موجودگی برقرار رکھ کر وہاں سے تیل اور زراعتی مصنوعات کی لوٹ مار میں اضافہ کرے گا اور شام حکومت کو بھی ان علاقوں تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ یوں شام مزید اقتصادی مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ یاد رہے شام میں تیل کے پائے جانے والے ذخائر کا بڑا حصہ شمال مشرقی علاقوں میں واقع ہے۔
تحریر: صمد محمدی