پاراچنار میں راستوں کی بندش اور 50 سے زائد بچوں کی شہادت، اہل علاقہ کا دھرنا جاری
دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے تحصیل چیئرمین آغا مزمل حسین نے کہا تقریبا ڈھائی ماہ سے پاراچنار اور ملحقہ علاقوں کی لاکھوں نفوس پر مشتمل آبادی محصور ہو کر رہ گئی ہے اور لوگ بحرانی کیفیت کا شکار ہیں
شیعہ نیوز: ضلع کرم میں ڈھائی ماہ سے آمد و رفت کے راستوں کی بندش کے باعث زندگی سے منسلک تمام ہی سرگرمیاں مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں. سماجی رہنما فیصل ایدھی کہتے ہیںعلاج نہ ملنے کے باعث اسپتال اور دیگر مراکز صحت میں 50 سے زائد بچے دم توڑ چکے ہیں. صورت حال کی سنگینی پر پاکستانی عوام، وفاقی حکومت اور مقتدر حلقوںکی توجہ دلانے کے لیے پاراچنار میں متاثرین 21 دسمبر سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں.
شدید سردی کے باوجود رات پر گھروںسے باہر سڑک پر اس امید کے ساتھ بیٹھے رہے کہ شائد حکمرانوںکو کچھ خیال آجائے. دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے تحصیل چیئرمین آغا مزمل حسین نے کہا تقریبا ڈھائی ماہ سے پاراچنار اور ملحقہ علاقوں کی لاکھوں نفوس پر مشتمل آبادی محصور ہو کر رہ گئی ہے اور لوگ بحرانی کیفیت کا شکار ہیں. ایسے میں حکومت کی جانب سے اپرکرم کے محصور عوام سے اسلحہ جمع کا مطالبہ بالکل اس طرح ہے کہ جیسے انہیں غیرمسلح کرکے دہشت گردوں کے آگے ڈال دینا. ہم اس کی کسی صورت اجازت نہیں دے سکتے. ممبر صوبائی اسمبلی علی ہادی عرفانی نے کہا حکومت غیر ضروری فیصلوں کے بجائے فوری طور پر آمد و رفت کے راستے کھول کر انہیں محفوظ بنائے. وقت ضائع کیے بغیر محصور عوام کو ریلیف دینے کے انتظامات کرے.
یہ بھی پڑھیں: پاراچنار کے دو مسافر جوانوں کو تکفیریوں نے دھوکہ دے کر زبح کر دیا
مراکز صحت کی حالت خراب ہونے پر سماجی رہنما فیصل ایدھی نے بحران کے شکار اور محصور عوام کے لیے ایئر ایمبولنس شروع کی ہے. ائیر ایمبولینس کے ذریعے اب پاراچنار شہر اور ملحقہ علاقوں کے مریضوں کو پشاور پہنچایا جا رہا ہے. ادویات بھی پشاور سے اسی ائر ایمبولنس کے ذریعے لائی جا رہی ہیں. بہتر علاج نہ ملنے کی وجہ سے علاقے میں 50 سے زائد بچے ماؤںکی گودوںمیں دم توڑ چکے ہیں. بعضذرائع کے مطابق ایڑیاں رگڑ رگڑ کے جان دینے والے بچوںکی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوگی.
پاراچنار شہر میں اشیاء خوردونوش تیل اور گیس ختم ہونے کے باعث شہری اذیت ناک صورت حال اور بحرانی کیفیت سے
دوچار ہیں.یرسٹورنٹ و تندور اور دیگر دکانیں اور کاروباری مراکز سب ہی بند پڑے ہیں. ایسے میں ڈھائی مہینے سے ضلعی انتظامیہ مسلسل یہ ہی کہے جارہی ہے کہ آمد و رفت کے راستے کھولنے اور دیگر اقدامات کے لیے مذاکراتی عمل جاری ہے.