مشرق وسطی

کویتی طالبہ کی فلسطینی نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرنے سے روکنے پر برطانوی یونیورسٹی پر مقدمہ

شیعہ نیوز: برطانیہ کی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والی ایک بہادر کویتی طالبہ ’عائشہ البدر‘ نے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں جسمانی تشدد، زبردستی قید اور انسانی حقوق کی پامالی کا سامنا کرنے کے بعد ویلز کی بانغور یونیورسٹی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ یہ مقدمہ اس وقت درج کیا گیا جب یونیورسٹی نے اسے ایک پرامن احتجاج سے روک دیا جو وہ قابض اسرائیل سے وابستہ کمپنیوں میں یونیورسٹی کی سرمایہ کاری کے خلاف کرنا چاہتی تھی۔

یہ واقعہ سنہ2023ء میں یونیورسٹی کے گریجویشن تقریب کے دوران پیش آیا، جہاں عائشہ نے اسٹیج پر ڈگری لیتے وقت ایک تکیے کے غلاف پر لکھا پیغام اٹھانے کا ارادہ کیا تھا جس پر درج تھا کہ”بانغور یونیورسٹی نسل کشی میں سرمایہ کاری کر رہی ہے” لیکن اس کے جذبے کو کچلنے کے لیے چار سکیورٹی اہلکاروں نے اسے نہایت بے دردی سے اسٹیج سے گھسیٹا، لوگوں کے سامنے رسوا کیا اور بالآخر ہال سے باہر نکال دیا۔

یہ لرزہ خیز مناظر کیمرے کی آنکھ نے قید کیے، جن کی ویڈیوز نے دیکھتے ہی دیکھتے ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کے دل دہلا دیے۔ ان ویڈیوز میں صاف نظر آتا ہے کہ کیسے سکیورٹی اہلکار طالبہ کو بے دردی سے گھسیٹ رہے ہیں۔ عائشہ نے اس واقعے کو جسمانی تکلیف اور شدید تذلیل کا باعث قرار دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : جہازوں کو نشانہ بنانا شپنگ کمپنیوں کے لیے واضح پیغام ہے، محمد البخیتی

اپنے وکلاء کے ذریعے جاری کردہ بیان میں عائشہ البدر نے کہا کہ "میں یہ نہیں کر سکتی تھی کہ خاموشی سے ڈگری لے لوں، جب مجھے علم ہے کہ میری یونیورسٹی ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہے جو فلسطینی عوام پر ظلم ڈھا رہی ہیں۔ میں نے اس لمحے کو ان مظلوموں کے لیے آواز بننے کے لیے چُنا جنہیں روز سلب کیا جا رہا ہے، جنہیں انسان ہی نہیں سمجھا جاتا”۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ "میں نے صرف ایک سچ اٹھایا، ایک تکیے کا غلاف جس پر ایک حقیقت لکھی تھی جس سے یونیورسٹی نظریں چُرا رہی ہے۔ لیکن اس کے بدلے میں مجھے زخم، ذلت، اپنے کیریئر کے مواقع کی قربانی اور مستقبل کے خوفناک خدشات ملے۔ میرے والدین ہزاروں میل سفر کر کے میری خوشی دیکھنے آئے تھے، یہ دن فخر اور خوشی کا ہونا چاہیے تھا، نہ کہ جبر اور تشدد کا”۔

عائشہ کے وکلاء نے یونیورسٹی انتظامیہ کو 20 صفحات پر مشتمل قانونی مراسلہ بھی بھیجا ہے جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ان کی مؤکلہ کا احتجاج مکمل طور پر پرامن تھا اور صرف قابض اسرائیل سے وابستہ سرمایہ کاری کے خلاف تھا۔

خاص طور پر بانغور یونیورسٹی میں طلباء کا دھرنا تقریباً 400 دن تک جاری رہا، جس کے بعد یونیورسٹی نے ایک طویل 250 صفحات پر مبنی دستاویز جاری کر کے احتجاج ختم کروایا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں کے مطابق اکتوبر کے بعد سے کم از کم 28 برطانوی جامعات نے فلسطینی حامی طلباء کے خلاف تادیبی کارروائیاں کی ہیں، جن میں بعض مواقع پر پرائیویٹ مانیٹرنگ کمپنیوں کی مدد بھی لی گئی تاکہ طلباء کی نگرانی کی جا سکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button