مقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

عقیدہ امامت کے بغیر عقیدہ ختمِ نبوّت کو درپیش چیلنجز

کیا نبیؐ نے قیامت تک جہانِ اسلام کو اسی طرح اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر بددیانتی، اغیار کی غلامی، پسماندگی اور جہالت میں سرگرداں رہنے کیلئے چھوڑ دیا تھا۔؟ یقیناً ایسا کرنا خلاف حکمت ہے اور نبیؐ تو اس کائنات کی حکیم ترین و دانا ترین شخصیت ہیں۔ عقیدہ امامت کے بغیر ختمِ نبوّت کی بات کرنے والوں کے پاس اسکا کوئی جواب نہیں

شیعہ نیوز: ختم نبوت کے بعد ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسانیت کو ہدایت کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے؟ کیا اب انسان کو رہنمائی کا کوئی ذریعہ میسر نہیں رہا۔؟ نبوّت تو ختم ہوگئی، اب کیا ہدایت بھی ختم ہوگئی ہے۔؟ یعنی کیا ختمِ نبوّت کا مطلب ختمِ ہدایت و ختمِ تعلیم و تربیّت بھی ہے۔؟ اگر ہدایت بھی ختم ہوگئی ہے تو پھر قیامت تک کے لوگوں کی ہدایت کون کرے گا۔؟ کیا جو لوگ ختمِ نبوّت کے بعد عقیدہ امامت کا انکار کرتے ہیں، اُن کے پاس قیامت تک انسانیت کو ہدایت فراہم کرنے کا خدا و رسولؐ کی طرف سے کوئی ایک متفقہ، مشترکہ، مستند اور معتبر ذریعہ موجود ہے۔؟ کیا ہمیں نبیؐ کے بعد قرآن و حدیث کی درست تفسیر و تشریح معلوم کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔؟ اگر ضرورت ہے تو پھر نبیﷺ کے بعد شریعت کی ٹھیک علمی تشریح اور اس پر عمل درآمد کے لیے ایسا کون ہے، جسے خود رسولؐ نے اپنے عِلم کا جانشین اور وارث قرار دیا ہے۔؟

جب نبی ؐ کے بعد ہمارے پیارے نبیؐ کے علم کا جانشین ہی ہمارا امام نہیں ہوگا تو پھر کیا معاشرے میں ہمارے نبی ؐکے علم کے بغیر عدل و انصاف نافذ ہوگا۔؟ کیا عقل و منطق اس بات کی تصدیق نہیں کرتی کہ جس طرح کائنات کا ہر نظام ایک مرکز کے گرد گھومتا ہے، اسی طرح انسانیت کو بھی ایک مرکزِ ہدایت کی ضرورت ہے، جو اسے گمراہی اور انتشار سے بچائے۔؟ آپ تھوڑی سی منصف مزاجی سے کام لیں اور اپنے ضمیر اور عقل کو آزادانہ طور پر کم کرنے دیں۔ انسان کی فطرتِ سلیم یہ گواہی دیتی ہے کہ ختمِ نبوّت کے بعد امامت کا عقیدہ صرف ایک مذہبی ضرورت ہی نہیں، بلکہ یہ ایک سماجی، قومی، منطقی اور علمی ضرورت بھی ہے۔ یہ ضرورت انسان کو ختمِ نبوّت کے بعد درست ہدایت و تربیّت حاصل کرنے کیلئے بے چین کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کو دہشتگردی کہنا سراسر ظلم اور سچائی سے انحراف ہے،سینیٹر علامہ راجہ ناصرعباس

صاحبان فکر و نظر بخوبی جانتے ہیں کہ ختم نبوت کا مطلب ہرگز ختم ہدایت نہیں ہے۔ ختم نبوت کا عقیدہ صرف یہ بیان کرتا ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اور ان کے بعد کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ تاہم ہدایت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا، چونکہ قیامت تک بنی نوعِ انسان کو قدم قدم پر ہدایت کی ضرورت ہے۔ لہذا ختمِ نبوّت کے بعد لوگوں کی ہدایت کا فریضہ سو فیصد اُنہی لوگوں کے سُپرد کیا جا سکتا ہے، جو اس منصب کے حقیقی اہل ہیں۔ ختمِ نبوّت کے بعد امام کا کردار سو فیصد یہی ہے کہ وہ بغیر کسی غلطی، کوتاہی یا بھول چوک کے قرآن و سنت کی درست تشریح کرے، دین کی حفاظت کرے اور انسانیت کو راہِ راست پر گامزن رکھے۔ المختصر یہ کہ امامت ہدایت کا وہ ذریعہ ہے، جو ختم نبوت کے بعد انسانیت کو سو فیصد گمراہی سے بچاتا ہے۔

پس امامت کا بنیادی مقصد ختمِ نبوّت کو اُس کی حقیقی صورت میں باقی رکھتے ہوئے دین کی حفاظت اور اسے نافذ کرنا ہے۔ امام صرف اور صرف قرآن و سنت کی روشنی میں انسانیت کی رہنمائی و تربیّت کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رہنمائی اور تربیّت حاصل کرنے کیلئے امام کی معرفت حاصل کرنا اور اُس کے مقام و مرتبے کو پہچاننا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ اس معرفت اور پہچان کے بغیر ختمِ نبوّت کے بعد امام کے گِرد امت متحد نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں امامت کے تسلسل کو متعدد آیات میں واضح کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: "اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعے حضرت ابراہیم کا امتحان لیا اور انھوں نے پورا کر لیا تو اللہ نے کہا: ہم تمہیں لوگوں کا امام بنا رہے ہیں۔” (سورۃ البقرہ)

قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں امامت کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔جیسا کہ ارشاد پروردگار ہے: "یوم ندعوا کل اناسٍ بامامہم” (اس دن ہم ہر انسان کو اس کے امام کے ساتھ پکاریں گے)۔ اسی طرح نبی اکرمﷺ نے فرمایا: "یكون اثنا عشراً امیراً” (میرے بعد بارہ امیر ہوں گے)۔ ان میں سے بارہواں امام حضرت امام مہدیؑ ہوں گے، جو زمین پر عدل و انصاف قائم کریں گے۔ اس حدیث کی صداقت کا انحصار بھی نبی ؐ کے بعد بارہ آئمہ کے وجود پر منحصر ہے۔ یاد رکھئے کہ عقیدہ امامت کو نہ سمجھنے والے لوگ قیامت تک قرآن و حدیث کی کسی ایک تفسیر پر متحد نہیں ہوسکتے۔ اس عدمِ اتحاد کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ختم نبوت کے بعد انسانیت کو جس روحانی اور عملی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ وہ قرآن و حدیث کی سو فیصد درست تفسیر کے بغیر ممکن نہیں۔ جب تک قرآن و سُنّت کی من مانی تفاسیر ہوتی رہیں گی، نِت نئے مسائل اور اختلافات جنم لیتے رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ؐ کو ختم النبین ماننے والا ہر عقل مند انسان یہ ضرور سوچتا ہے کہ نبیﷺ کے بعد میرے لئے کون ہدایت کا سرچشمہ ہے اور مجھے سو فیصد قرآن و حدیث کی درست تفسیر کون بتانے کا مجاز ہے۔؟

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ نے غزہ میں اپنے ہیڈکوارٹر پر حملے کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرا دیا

یقیناً نبی ؐ کے بعد تمام امور کو علم اور عدل و انصاف کے ساتھ چلانے کیلئے ایک منسجم نظام کی ضرورت ہے۔ یہ نظام دینِ اسلام کے اندر ہی موجود ہے اور اِسی نظام کے تسلسل کے طور پر امام مہدیؑ کا ظہور ہوگا۔ زمین پر علمِ نبویؐ اور عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کا مظاہرہ امام مہدی ؑ کے دور میں لوگ دیکھیں گے۔ ختمِ نبوّت کے بعد حضرت امام مہدی ؑ کا ظہور عقلی طور پر امامت و ہدایت کے ایک منظّم ارتقاء اور تسلسل کا نتیجہ ہے نہ کہ اچانک کسی حادثے کا۔ ختمِ نبوّت کے بعد امامت کا سلسلہ دینِ اسلام کے اندر پہلے سے موجود ہے، جس کا سب سے پہلا اعلان دعوتِ ذوالعشیر میں ہی کیا گیا تھا۔ اسلام کی پہلی دعوت میں ہی اس کا ذکر اسی لئے کیا گیا تھا، تاکہ مسلمان کرپٹ، بدکار اور گنہگار ہونے کے بجائے اپنی روحانی تکمیل، تعلیم، ہدایت اور تربیت کے ساتھ زمین پر اللہ کے احکامات کو نافذ کریں۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: "ولقد کتبنا فی الذبور من بعد الذکر ان الارض یرثہا عبادی الصالحون” (ہم نے زبور میں یہ لکھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے)۔ جو لوگ عقیدہ امامت کو نہیں سمجھتے، اُن کے پاس اس کا کوئی لائحہ عمل نہیں کہ حضرت امام مہدیؑ کے ظہور کا تسلسل کیا ہے۔؟ اس ظہور کیلئے دنیا میں تبدیلیاں کیسے آئیں گی۔؟ اللہ کا آخری دین اور کتاب مکمل طور پر ساری دنیا میں کیسے نافذ ہوگا؟ ختم نبوت کے بعد عالمِ بشریّت کے لیے قرآن و سُنّت کی درست تفسیر و تشریح، حقیقی ہدایت، مطلوبہ تربیّت، شفاف عدل اور مکمل علمی و عملی رہنمائی کا ذریعہ کیا ہے۔؟

کیا نبیؐ نے قیامت تک جہانِ اسلام کو اسی طرح اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر بددیانتی، اغیار کی غلامی، پسماندگی اور جہالت میں سرگرداں رہنے کیلئے چھوڑ دیا تھا۔؟ یقیناً ایسا کرنا خلاف حکمت ہے اور نبیؐ تو اس کائنات کی حکیم ترین و دانا ترین شخصیت ہیں۔ عقیدہ امامت کے بغیر ختمِ نبوّت کی بات کرنے والوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں کہ نبیؐ کے بعد ایک طرف تو اُمّت کی نادانی و سرگردانی ہے اور دوسری طرف نبیؐ کی حکمت و دانائی۔۔۔ کیا یہ حکیم و دانا نبیؐ اپنے بعد اپنی اُمّت کو ہدایت کا کوئی ترقی یافتہ اور بہترین نظام دینا بھول گیا تھا۔؟ یقیناً نبی خاتمؐ نہیں بھول سکتے، جو بھی بھول چوک ہے، وہ اس امت کی طرف سے ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button