بھارتی بہادر ڈھیر ہوگئے، چین کا لداخ کے اندر گھس کر بھارتی افواج پر حملہ
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) بھارت اور چین کے درمیان سرحدی گشیدگی شدت اختیار کرگئی ہے ۔ چینی افواج نے بھارتی غرور کو خاک میں ملا دیا ہے ۔ بھارتی جارحیت کے جواب میں چینی افواج کی لداخ بارڈر سے بھارتی سرحدی حدود میں گھس کر کارروائیاں۔ بھارت کو بھاری فوجی، جانی ومالی نقصانات کی اطلاعات ۔
بھارت اور چین کے درمیان اس حالیہ کشیدگی کو سنہ 1999 میں انڈیا کے روایتی حریف پاکستان کے ساتھ کارگل میں ہونے والی جنگ کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی کشیدگی کہا جا رہا ہے۔
اس سے قبل سنہ 2017 میں بھارت اور چین کی افواج ڈوکلام کے مقام پر آمنے سامنے آئی تھیں لیکن گذشتہ ایک ہفتے کے دوران مرکز کے زیر انتظام علاقے لداخ سمیت انڈیا اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے مختلف مقامات پر دونوں جانب سے افواج کی موجودگی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
سرحدی تنازع اس قدر کشیدہ ہے کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے منگل کے روز بری، بحری اور فضائیہ تینوں افواج کے سربراہوں اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال سے مشورہ کیا ہے لیکن اس ملاقات کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے تینوں افواج کے سربراہان اور چیف آف ڈیفنس سٹاف بپن راوت سے علیحدگی میں بات چیت بھی کی ہے۔ ان دونوں میٹنگز کا پیش خیمہ رواں ماہ ایل اے سی پر کم از کم چار مقامات پر دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان جھڑپ رہی ہے۔
لداخ میں پینگونگ ٹیسو، گالوان وادی اور دیمچوک کے مقامات پر دونوں افواج کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے جبکہ مشرق میں سکم کے پاس بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے ہیں۔ تاہم بری فوج کے سربراہ جنرل منوج نراونے نے کہا ہے ان دونوں علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں میں کوئی تعلق نہیں۔
دریں اثنا بدھ کے روز انڈین فوج کی تین روزہ ششماہی کانفرنس شروع ہو رہی ہے جس میں اعلیٰ کمانڈرز شرکت کر رہے ہیں۔ فوج کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’انڈین فوج کی اعلیٰ سطحی قیادت سکیورٹی کی تازہ صورتحال، انتظامی چیلنجز پر غور و خوض کرے گی اور انڈیا کی بری فوج کے مستقبل کا منصوبہ تیار کرے گی۔‘
دوسری جانب انڈین خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ نے انتہائی خراب صورتحال کے پیش نظر اپنی فوج کو جنگ کے لیے تیار رہنے اور ملک کی سالمیت کا مضبوطی سے دفاع کرنے کا کہا ہے۔
66 برس کے شی جن پنگ حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کے جنرل سیکرٹری ہیں اور انھوں نے یہ باتیں حال ہی میں ایک پارلیمانی سیشن میں پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) اور پیپلز آرمڈ پولیس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہیں۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہو کے حوالے سے پی ٹی آئی نے لکھا کہ ’شی جن پنگ نے کہا کہ فوج کو خراب ترین صورتحال کے لیے تیار رہنا چاہیے اور اس کے لیے اپنی تربیت اور جنگی تیاری کی سطح میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ فوری طور پر اور مؤثر ڈھنگ سے کسی بھی قسم کی پیچیدہ صورتحال سے مضبوطی سے نمٹ سکیں اور قومی سلامتی، سکیورٹی اور ترقیاتی مفادات کا دفاع کر سکے۔‘
بہرحال چینی صدر نے ملک کو درپیش کسی خاص مسئلے کا ذکر نہیں کیا۔
فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ لداخ میں سرحد کے نزدیک چینی فوج کے ہیلی کاپٹر بھی پرواز کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں جبکہ دیمچوک، دولت بیگ اولڈی، دریائے گلوان اور پینگونگ سو جھیل کے اطراف میں انڈین اور چینی فوج نے اپنی تعیناتی میں اضافہ کیا ہے اور دونوں نے اپنے اپنے علاقے کی جھیلوں میں کشتیوں کی گشت میں بھی اضافہ کیا ہے۔
صورتحال کشیدہ کیوں ہوئی؟
گذشتہ ہفتے پیر کے روز بیجنگ میں چین کے سرکاری میڈیا میں کہا گیا کہ ’مغربی سیکٹر کی گلوان وادی میں بھارت کے ذریعے یکطرفہ اور غیر قانونی تعمیرات کے ذریعے موجودہ صورتحال کو بدلنے کی کوشش کے بعد پیپلزلبریشن آرمی نے اپنا کنٹرول سخت کر دیا ہے۔‘
مشرقی لداخ میں پینگونگ سو جھیل کے نزدیک پانچ اور چھ مئی کو چینی اور انڈین فوجیوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی تھی۔
انڈین میڈیا این ڈی ٹی وی نے انٹیلیجنس ماہرین کے اوپن سورسز ڈیٹریسفا کے حوالے سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ چین پینگوگ جھیل سے 200 کلو میٹر کے فاصلے پر اپنے ایئر بیس پر بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام کر رہا ہے۔
اس نے چھ اپریل کی ایک سٹیلائٹ تصویر پیش کی ہے اور اس کا مقابلہ 21 مئی کی سیٹلائٹ تصویر سے کیا ہے جس میں واضح فرق دکھایا گیا ہے۔
اس سے قبل بھارت نے کہا تھا کہ چینی فوج کے کچھ خیمے چین میں وادی گالوان کے ساتھ دیکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد انڈیا نے بھی وہاں فوج کی تعیناتی میں اضافہ کیا ہے۔اسی کے ساتھ ہی چین کا الزام ہے کہ بھارت وادی گالوان کے قریب دفاع سے متعلق غیر قانونی تعمیرات کر رہا ہے۔