مشرق وسطی

شام پر عائد امریکی پابندیوں کا مشروط خاتمہ؛ اسرائیل کے ساتھ سیاسی سودے بازی کی سازش

شیعہ نیوز: امریکہ نے شام پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے لئے دمشق سے فلسطینی تنظیموں کے انخلاء اور صہیونی حکومت کے تعلقات قائم کرنے کی شرائط پیش کی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی ڈیسک: امریکہ نے شام پر عائد پابندیوں کو بغیر شرط ختم کرنے کا دعوی تو کیا ہے، تاہم حالیہ انکشافات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دعوی حقیقت سے بعید اور اسرائیل کے مفادات کی تکمیل کی ایک سیاسی چال ہے۔

لبنانی روزنامہ الاخبار نے خبر دی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے شام پر پابندیوں کے خاتمے کا جو اعلان کیا گیا تھا، وہ درحقیقت تین مراحل پر مشتمل ایک مشروط منصوبہ ہے۔

پابندیوں کے خاتمے کے بدلے مراعات طلبی

امریکی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کی پالیسی سازی ٹیم نے جس منصوبے کو ترتیب دیا ہے، اس کا مرکزی محور اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانا اور شامی حکومت کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی پر آمادہ کرنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکہ ان پابندیوں کو پہلے عارضی ریلیف کے طور پر ختم کرے گا۔ ان کا مکمل خاتمہ سخت شرائط سے مشروط ہوگا جن میں شام سے فلسطینی مزاحمتی گروہوں کا اخراج بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شام میں موجود فلسطینی تنظیموں کی سرگرمیاں پہلے ہی محدود کی جاچکی ہیں اور جولانی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطوں کی راہیں ہموار کرنے کی کوششیں جاری ہیں ان میں ترکی اور متحدہ عرب امارات کی ثالثی بھی شامل ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنہوں نے حالیہ دنوں سعودی عرب میں جولانی سے ملاقات کی تھی، نے اپنے بیانات میں زور دیا کہ شام اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی شام میں داخلی استحکام اور سلامتی کے لیے ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں : ذلت ہرگز قبول نہیں، دشمن کو شکست دینے کے لئے پرعزم ہیں، جنرل سلامی

وائٹ ہاؤس کی میڈیا ترجمان، کیرولین لائٹ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ٹرمپ نے جولانی سے ملاقات میں پانچ اہم نکات پر گفتگو کی، جن میں اسرائیل کے ساتھ "معاہدۂ ابراہیم” جیسی طرز پر تعلقات کی بحالی سرفہرست تھی۔

شام میں فلسطینی گروہوں پر دباؤ: جولانی کی تلوار فلسطینیوں کی گردن پر

ذرائع ابلاغ کے مطابق شام میں عبوری حکومت کے دباؤ کے باعث کئی معروف فلسطینی رہنما، جن میں پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کے بانی کے فرزند خالد جبرئیل، عوامی مقاومت برائے فلسطین کے سیکریٹری جنرل خالد عبدالمجید، اور "انتفاضہ فتح” کے سیکریٹری جنرل زیاد الصغیر شامل ہیں، ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

اے ایف پی نے ایک فلسطینی رہنما کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان رہنماؤں کو باضابطہ طور پر ملک چھوڑنے کا حکم تو نہیں دیا گیا، مگر ان کی املاک ضبط کرلی گئی ہیں، ان کے بعض ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا ہے، اور انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد ان کی سرگرمیوں کو مکمل طور پر روک دینا ہے۔

ایک اور فلسطینی ذریعے نے دمشق سے اطلاع دی ہے کہ شام کی نئی حکومت اور فلسطینی تنظیموں کے درمیان کوئی مؤثر تعاون موجود نہیں اور حکومتی رویہ انتہائی سرد ہے، جس کے باعث فلسطینی قیادت کو شام چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔

صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور سفارت کار تھامس براک جنہیں حال ہی میں شام کے لیے امریکہ کا خصوصی ایلچی مقرر کیا گیا ہے، نے دعوی کیا کہ صدر ٹرمپ شام میں استحکام اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات کا واضح وژن رکھتے ہیں۔

باراک نے 13 مئی کو ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ سخت پابندیوں کے خاتمے کے ذریعے شام کو سنبھلنے کا موقع دینا چاہتا ہے تاکہ نئی حکومت عوام کے لیے امن اور امید بحال کرسکے۔ اس مقصد کے لیے امریکہ ترکی اور عرب ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ فی الحال اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے سپرد کی گئی ہے۔

حالیہ صورتحال پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ شام پر سے پابندیاں ہٹانے کے معاملے کو سودے بازی کے آلے کے طور پر استعمال کر رہا ہے تاکہ عبوری حکومت اور خاص طور پر ابومحمد الجولانی کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی پر مجبور کیا جاسکے۔

ادھر اسرائیلی جارحیت اور شام میں جاری ناجائز قبضہ بدستور جاری ہے، جبکہ الجولانی کی خاموشی اس بات کا اشارہ ہے کہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے اور خطے کو "معاہدۂ ابراہیم” جیسے منصوبوں کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button