اہم پاکستانی خبریں

لاپتا افراد کی تصاویر سوشل میڈیا پر نشر کرنے کا عدالتی حکم

شیعہ نیوز: سندھ ہائیکورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر شہریوں کو بازیاب کرانے کیلئے تصاویر سوشل میڈیا پر نشر کرنے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا حکم دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کیلئے کیا اقدامات ہوئے؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ 21 جے آئی ٹیز اور 16 صوبائی ٹاسک فورس کے اجلاس ہو چکے ہیں۔ اہلخانہ نے کہا کہ محمد زبیر 2014ء بغدادی سے لاپتا ہوا تھا، اب تک کہیں سے اس کا سراغ نہیں ملا، 2014ء سے پولیس اسٹیشن اور عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں، کہیں سے انصاف نہیں ملا۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگ پریشان نہ ہوں ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں آپ کو انصاف ملے گا۔ دوسرے لاپتا شہری کے اہلخانہ نے کہا کہ حسن دلاور 2015ء لانڈھی سے لاپتا ہوا تھا، اب تک کوئی پتہ نہیں کہاں ہے کس حال میں ہے۔

عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ کتنی جے آئی ٹیز ہو چکی ہیں؟ تفتیشی افسر نے بتایا کہ 30 جے آئی ٹیز اور 12 صوبائی ٹاسک فورس اجلاس ہو چکے ہیں۔ لاپتا شہری کے اہلخانہ نے کہا کہ ثاقب آفریدی بھی 2015ء سچل سے لاپتا ہوا تھا۔ عدالت نے انوسٹیگیشن افسر سے استفسار کیا کہ لاپتا شہری کی بازیابی کیلئے کیا اقدامات کئے ہیں۔ ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے کہا کہ 22 جے آئی ٹیز اور 15 صوبائی ٹاسک فورس کے اجلاس ہو چکے ہیں، تلاش جاری ہے۔ عدالت نے تفتیشی افسران پر اظہار برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ 22، 22 جے آئی ٹیز کے باوجود بھی لاپتا شہریوں کا سراغ نہیں لگایا گیا۔

تین لاپتا شہریوں کے اہلخانہ نے عدالت کو بتایا کہ سید نوید علی ساحل پولیس اسٹیشن سے، ظفر اقبال سائٹ سپر ہائی وے سے اور اعزاز حسن ناظم آباد سے لاپتا ہوئے ہیں۔ ہائیکورٹ نے تفتیشی افسران کو لاپتا شہریوں کی تلاش جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے لاپتا شہریوں کی بازیابی کیلئے ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر نشر کرنے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے تمام لاپتا شہریوں کی بازیابی کیلئے جدید ٹیکنالوجی اور ماڈرن ڈیواسسز کے استعمال کا حکم دے دیا۔ عدالت نے ایس پی انویسٹی گیشن سے آئندہ سماعت پر پیشرفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 8 فروری تک ملتوی کر دی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button