وفات محسن اسلام و حامی رسول خدا (ص) حضرت ابو طالب (ع)
رسول خدا (ص) کے ذریعے سے جب دین اسلام جزیرۃ العرب میں ظاہر ہوا تو کفار اور مشرکین مکہ نے اس نئے دین کی بھرپور مخالفت کی کیونکہ انھوں نے اپنے جب اہداف کو خطرے میں دیکھا تو ہر حیلے و بہانے سے وہ دین اسلام کے چراغ کو خاموش کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ کفار مکہ نے دین اسلام کی ترقی روکنے کے لیے ہر طرح دھمکی اور لالچ دینے والے حربوں سے استفادہ کیا۔
شہر مکہ کی اس خوف و رعب جیسی صورتحال میں حضرت محمد (ص) کے ساتھ رہنا اور انکا ساتھ دینا، یہ کسی جانی خطرے سے کم نہیں تھا، لیکن ان تمام جانی اور مالی خطرات سے بالا تر ہو کررسول خدا کی حمایت کرنے والوں میں فقط حضرت خدیجہ اور حضرت ابو طالب کا نام لیا جا سکتا ہے کہ جہنوں نے تاریخ اسلام کی گواہی کے مطابق اسلام کے نو پا شجر کی آبیاری کرنے کے لیے کسی بھی قربانی اور فدا کاری سے دریغ نہیں کیا۔
ان اسکے باوجود بھی بعض شیعہ مخالف کتب میں حضرت ابو طالب کے بارے میں بعض ایسے مطالب دیکھے جاتے ہیں کہ جن سے ان مصنفین کی تاریخ اسلام کی اس عظیم شخصیت سے دشمنی اور حسد ظاہر ہوتا ہے۔ بے شک تاریخ اسلام میں حضرت ابو طالب کے مؤمن و مسلمان ہونے کے بارے میں جو بہت سے دلائل اور شواہد ذکر کیے گئے ہیں، اگر مسلمانوں کی کسی دوسری من پسند شخصیت کے بارے میں ان دلائل کا فقط ایک حصہ بھی تاریخ کی کتب میں نقل کیا گیا ہوتا تو بلا شک وہ تاریخ اسلام کی سب سے پسندیدہ شخصیت ہوتی، لیکن اس میں کیا راز ہے کہ اتنے محکم و واضح دلائل ہونے کے باوجود بھی آج تک بعض مسلمان حضرت ابو طالب کو کافر قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انکے لیے قرآن کی بعض آیات عذاب بھی نازل ہوئی ہیں ؟
ایک باریک بین اور با بصیرت انسان آسانی سے یہ بات جان سکتا ہے کہ ان لوگوں کا حضرت ابو طالب کے بارے میں ایسی باتیں کرنے سے ہدف فقط انکی اولاد اور خاص طور پر امیر المؤمنین علی (ع) سے اپنے بغض و کینے کا اظہار کرنا ہے۔
اہل سنت کے بعض مصنفین نے حضرت ابو طالب کو بغیر کسی مشکل کے کافر قرار دینے کے لیے، کفر کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے، رسول خدا (ص) کے والدین کو بھی کافر قرار دیا ہے، یعنی ان کا مقصد اس بات سے یہ ہے کہ جب رسول خدا کے والد حضرت عبد اللہ اور والدہ حضرت آمنہ کافر ہو سکتے ہیں تو پھر انکے چچا حضرت ابو طالب کے کافر ہونے میں کیا حرج ہے۔
فریقین کی روایات کی روشنی میں یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ رسول خدا کے بعد حسب و نسب کے لحاظ سے کوئی بھی علی (ع) کا ہمپلہ نہیں ہے:
أبا الحسن أحمد بن القاسم بن الريان قال: سمعت عبد الله بن أحمد بن حنبل يقول: حدث أبي بحديث سفينة فقلت: يا أبة ما تقول في التفضيل ؟ قال: في الخلافة أبو بكر وعمر وعثمان. فقلت: فعلي بن أبي طالب ؟ قال: يا بني علي بن أبي طالب من أهل بيتٍ لا يقاس بهم أحد.
احمد ابن القاسم ابن الريان کہتا ہے کہ: میں نے عبد اللّه ابن احمد ابن حنبل سے سنا ہے کہ میرے والد نے حدیث سفینہ کو ذکر کیا، جب میں نے اپنے والد احمد ابن حنبل سے صحابہ کی فضیلت کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا: ابو بکر، عمر اور عثمان، میں نے کہا: پس علی ابن ابی طالب کیا ؟ میرے والد نے کہا: علی، رسول خدا کے اہل بیت میں سے ہے اور صحابہ کو اسکے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا۔
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد بن علي (متوفي597هـ)، مناقب الإمام أحمد ج1 ص219، تحقيق: د. عبد الله بن عبد المحسن التركي، دار النشر: دار هجر، الطبعة : الثانية، 1409 هـ
اسکے علاوہ کتب تاریخی اور کتب انساب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم تک امیر المؤمنین علی (ع) کے تمام آباء و اجداد موحد اور خدا پرست تھے اور وہ کبھی بھی ناپاک صلب و رحم قرار نہیں پائے تھے۔
ہر شخص کے عقیدے کو چند طریقوں سے سمجھا جا سکتا ہے:
1- اس شخص کی لکھی گئی علمی کتب سے،
2- معاشرے میں اسکے کردار و اخلاق سے،
3- اسکے رشتہ داروں اور دوستوں کے عقیدے سے،
حضرت ابو طالب کے عقیدے اور ایمان کو انہی تین طریقوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے:
1- آثار علمی:
حضرت ابو طالب کے کہے ہوئے اشعار مکمل طور پر انکے ایمان اور اخلاص پر گواہی دیتے ہیں۔ ان حضرت کے اشعار میں توحید کے عالی مفاہیم کو ذکر کیا گیا ہے:
ليعلم خيار الناس أنّ محمّدا
وزير لموسى و المسيح بن مريم
أتانا بهدي مثل ما أتيا به
فكلّ بأمر اللّه يهدي و يعص
شریف و عقل مند افراد جان لیں کہ محمد (ص) بھی موسی و عیسی کی طرح پیغمبر ہے، وہ ہمارے لیے ہدایت کو لے کر آئے ہیں، جسطرح کہ موسی، عیسی اور تمام انبیاء خداوند کے حکم سے لوگوں کی ہدایت کرتے اور گناہوں سے منع کرتے ہیں۔
الطبرسي، أبي منصور أحمد بن علي بن أبي طالب (متوفى 548هـ)، الاحتجاج 1ص233، تحقيق: تعليق وملاحظات: السيد محمد باقر الخرسان، ناشر: دار النعمان للطباعة والنشر – النجف الأشرف، 1386 – 1966 م.
تمنّيتم ان تقتلوه و انّما
امانيّكم هذى كأحلام نائم
نبىّ اتاه الوحى من عند ربّه
و من قال: لا يقرع بها سنّ نادم
بزرگان قریش گمان کرتے ہیں کہ وہ محمد کو قابو میں لا کر قتل کر دیں گے، حالانکہ انکی یہ ساری خواہشات ایک سونے والے شخص کی پریشان خواب کی طرح ہیں، وہ پیغمبر ہے، خدا کی طرف سے اس پر وحی نازل ہوتی ہے، اور جو اس بات کو قبول نہ کرے تو اسکو پشمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
الطرائف ؛ ص454
وَ اللَّهِ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ بِجَمْعِهِمْ
حَتَّى أُوَسَّدَ فِي التُّرَابِ دَفِيناً
فَاصْدَعْ بِأَمْرِكَ مَا عَلَيْكَ غَضَاضَةٌ
وَ انْشُرْ بِذَاكَ وَ قَرَّ مِنْكَ عُيُونا
اے میرے بھائی کے بیٹے ہرگز قریش کا ہاتھ تم تک نہیں پہنچ سکتا، میں جب تک زندہ ہوں اور قبر میں جانے تک، تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا، جس کام کا خداوند نے تمہیں حکم دیا ہے، اسے ظاہر کرو اور کسی سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ابن شهر آشوب، رشيد الدين أبي عبد الله محمد بن علي السروي المازندراني (متوفى588هـ)، مناقب آل أبي طالب ج1 ص85، تحقيق: لجنة من أساتذة النجف الأشرف، ناشر: المكتبة والمطبعة الحيدرية، 1376هـ ـ 1956م.
وَ دَعَوْتَنِي وَ زَعَمْتَ أَنَّكَ نَاصِحِي
وَ لَقَدْ صَدَقْتَ وَ كُنْتَ قَبْلُ أَمِيناً
وَ عَرَضْتَ دِيناً لَا مَحَالَةَ أَنَّهُ
مِنْ خَيْرِ أَدْيَانِ الْبَرِيَّةِ دِينا
تم نے مجھے اپنے دین کی طرف دعوت دی ہے اور میں جانتا ہوں کہ تم میرے خیر خواہ ہو اور تم اپنی اس دعوت میں امین ہو، بے شک محمد کا دین تمام ادیان سے بہتر ہے۔
الحلي، يحي بن الحسن السدي المعروف بابن البطريق، (متوفي600هـ) عمدة عيون صحاح الاخبار في مناقب امام الأبرارص411، ناشر: مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة: جمادي الأولى 1407
حضرت ابو طالب کا معروف قصیدہ لامیہ اور میمیہ بھی ہے کہ جو انکے ایمان پر دلالت کرتا ہے:
لعمري لقد كلفت وجدا بأحمد
و أحببته حب الحبيب المواصل
وجدت بنفسي دونه و حميته
و دارأت عنه بالذرا و الكلاكل
فأيده رب العباد بنصره
و أظهر دينا حقه غير باطل
مجھے اپنی جان کی قسم ! احمد (ص) کے وجود کی وجہ سے اس قدر وجد و سرور میں ہوں کہ میں نے وجد کو بھی حیرت میں مبتلا کر دیا ہے، کیونکہ میں اس سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں، میں اسکی حمایت کرتے ہوئے، اپنی جان کو قربان کرنا چاہتا ہوں، خداوند اسکو زندہ و سلامت رکھے کہ وہ اس دنیا کی خوبصورتی اور ہر محفل کی زینت ہے۔۔۔۔۔
الكراجكي، الامام العلامة أبي الفتح محمد بن علي بن عثمان (متوفي449هـ)، كنز الفوائد ؛ ج1 ؛ ص179، ناشر: دارالذخائر، قم – ايران، سال چاپ:141
ان اشعار کے علاوہ دوسرے اشعار بھی ہیں کہ جو واضح طور پر حضرت ابو طالب کے ایمان پر دلالت کرتے ہیں کہ جنکو ابن ابی الحدید نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے:
انّي علي دين النّبيّ احمد
يا شاهد اللّه عليّ فاشهد
من ضلّ في الدّين فانّي مهتد
اے گواہو ! تم گواہ رہو کہ میں رسول خدا احمد کے دین پر ثابت قدم ہوں، اور ہرگز اس دین کو نہیں چھوڑوں گا، کیونکہ میری اس دین کی طرف راہنمائی کی گئی ہے۔
ابن ابی الحدید، وفات: 656، شرح نهج البلاغه ج2ص278، محقق: ابراهيم، محمد ابوالفضل، ناشر: مكتبة آية الله المرعشي النجفي،
یقین سے بتائیں ان اشعار کا کہنے والا کس طرح کافر اور دین اسلام سے خارج اور رسول خدا کا دشمن ہو سکتا ہے ؟
2- معاشرے میں کردار و اخلاق:
حضرت ابو طالب کا رسول خدا (ص) کے لیے فداکاری اور انکا دفاع کرنا، یہ انکے معاشرے میں عقیدے کا آئنیہ دار ہو سکتا ہے۔ ان کا اپنے بھائی کے بیٹے پر اس حد تک اعتقاد محکم تھا کہ قحط کے دور میں رسول خدا کو اپنے ساتھ صحرا میں لے جاتے اور خدا کو انکے عظیم مقام کی قسم دیتے تو آسمان سے باران رحمت نازل ہوتی تھی۔ وہ رسول خدا (ص) کے دفاع کی خاطر ساری زندگی ایک لمحہ بھی چین سے نہ بیٹھے اور تین سال تک شعب ابی طالب کی سخت اور دشوار زندگی کو آرام اور آسائش کی زندگی پر ترجیح دی۔ حتی رسول خدا کی حفاظت کے لیے یہی تین سال کی بھوک و پیاس کی زندگی، آخرکار حضرت ابو طالب کی وفات کا باعث بنی۔
انکا رسول خدا اور انکے دین پر اس قدر ایمان محکم و استوار تھا کہ وہ ہر وقت راضی اور تیار رہتے تھے کہ انکے تمام بیٹے قتل ہو جائیں، لیکن رسول خدا زندہ و سلامت رہیں۔ وہ حضرت راتوں کو علی (ع) کو رسول خدا کے بستر پر سلاتے تھے تا کہ اگر قریش انکی جان لینے کے قصد سے رات کو اچانک حملہ کریں تو رسول خدا کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔
آغاز بعثت اور حضرت ابو طالب (ع):
خداوند کے حکم کے مطابق جب رسول خدا (ص) نے اپنے تمام رشتہ داروں کو اپنے گھر میں جمع کیا اور انکے لیے دین اسلام کو بیان کیا تو جناب ابو طالب نے ان تمام لوگوں میں رسول خدا کو مخاطب ہو کر کہا: اے میرے بھائی کے بیٹے ! آپ قیام کرو ! تیرا مقام بلند ہے! تیرا گروہ سب سے بہترین گروہ ہے، تم ایک عظیم انسان کے بیٹے ہو ! جب بھی قریش اپنی زبان سے تم کو ضرر پہنچانا چاہیں تو بہت سی تیز زبانیں تیرے دفاع کے لیے کھڑی ہو جائیں گی۔ خدا کی قسم اعراب تیرے سامنے ایسے خاضع ہوں گے کہ جیسے حیوان کا بچہ اپنی ماں کے سامنے خاضع ہوتا ہے۔
فروغ ابديت، ج 1، ص 303.
کتب اہل سنت میں بھی حضرت ابو طالب کا رسول خدا (ص) کے دفاع کرنے کے بارے بہت سی روایات موجود ہیں۔
ابو يعلی نے اس بارے میں نقل کیا ہے کہ:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، حَدَّثَنَا عَقِيلُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: جَاءَتْ قُرَيْشٌ إِلَى أَبِي طَالِبٍ فَقَالُوا: إِنَّ ابْنَ أَخِيكَ يُؤْذِينَا فِي نَادِينَا، وَفِي مَسْجِدِنَا، فَانْهَهُ عَنْ أَذَانَا، فَقَالَ: يَا عَقِيلُ: ائْتِنِي بِمُحَمَّدٍ، فَذَهَبْتُ فَأَتَيْتُهُ بِهِ، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، إِنَّ بَنِي عَمِّكَ يَزْعُمُونَ أَنَّكَ تُؤْذِيهِمْ فِي نَادِيهِمْ، وَفِي مَسْجِدِهِمْ، فَانْتَهِ عَنْ ذَلِكَ قَالَ: فَحَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَصَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ: «أَتَرَوْنَ هَذِهِ الشَّمْسَ؟». قَالُوا: نَعَمْ قَالَ: «مَا أَنَا بِأَقْدَرَ عَلَى أَنْ أَدَعَ لَكُمْ ذَلِكَ عَلَى أَنْ تَسْتَشْعِلُوا لِي مِنْهَا شُعْلَةً». قَالَ: فَقَالَ أَبُو طَالِبٍ: مَا كَذَبَنَا ابْنُ أَخِي، فَارْجِعُوا
[حكم حسين سليم أسد] : إسناده قوي،عقيل ابن ابی طالب کہتا ہے کہ: قریش کے بعض لوگ حضرت ابو طالب کے پاس آئے اور کہا: تمہارے بھائی کا بیٹا مسجد اور ہمارے اجتماع کی جگہ پر ہمیں تنگ کرتا ہے، اس سے کہو کہ وہ ہمیں اذیت نہ کرے۔ جناب ابو طالب نے فرمایا: اے عقیل محمد کو میرے پاس بلاؤ، عقیل کہتا ہے کہ میں نے محمد کو وہاں بلایا تو ابو طالب نے فرمایا: اے میرے بھائی کے بیٹے ! تمہارے چچا کے بیٹے گمان کرتے ہیں کہ تم انکو اذیت کرتے ہو، پس ایسا دوبارہ نہ کرو۔ پھر رسول خدا نے آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا: کیا تم لوگ سورج کو دیکھ رہے ہو ؟ سب نے کہا: ہاں، پھر فرمایا: میں جو کچھ آپ لوگوں کے لیے لے کر آیا ہوں، اسکو ترک نہیں کر سکتا، حتی اگر اس سورج کے شعلے کو ہی میرے لیے کیوں نہ لے کر آؤ، یہ سن کر ابو طالب نے فرمایا میرے بھائی کا بیٹا جھوٹ نہیں بول رہا،، پس تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ۔
أبو يعلي الموصلي التميمي، أحمد بن علي بن المثني (متوفى307 هـ)، مسند أبي يعلي ج12ص176، تحقيق: حسين سليم أسد، ناشر: دار المأمون للتراث – دمشق، الطبعة: الأولى، 1404 هـ – 1984م.
اسی طرح کتب اہل سنت میں حضرت ابو طالب کے اشعار کو ذکر کیا گیا ہے کہ جن میں ان حضرت کے رسول خدا کے جانانہ دفاع کا ذکر کیا گیا ہے:
فلسنا و رب البيت نسلم أحمدا
لعزاء من عض الزمان و لا كرب،
بیت اللہ الحرام کے خدا کی قسم ہم رسول خدا کو تمہارے حوالے نہیں کریں گے، حتی جتنا بھی تم لوگ ہم پر دباؤ ڈالو اور مشکلات کو زیادہ کرو۔
ابن كثير الدمشقي، ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفى774هـ)، البداية والنهاية ج3ص310، ناشر:دار ابن کثير
3- دوستوں اور نزدیکیوں کا عقیدہ:
کہا جاتا ہے کہ گھر والے بہتر جانتے ہیں کہ اس گھر میں کیا ہے اور کیا کیا ہوتا ہے، اس لیے حضرت ابو طالب کے ایمان کے بارے میں اہل بیت کی نورانی روایات کو ذکر کیا جا رہا ہے:
روایت اول:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ الْمُتَوَكِّلِ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْعَطَّارُ قَالَ حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ زِيَادٍ الْآدَمِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ رَفَعَهُ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله عليه واله وسلم عَلَى عَمِّهِ أَبِي طَالِبٍ وَ هُوَ مُسَجًّى فَقَالَ يَا عَمِّ كَفَّلْتَ يَتِيماً وَ رَبَّيْتَ صَغِيراً وَ نَصَرْتَ كَبِيراً فَجَزَاكَ اللَّهُ عَنِّي خَيْراً ثُمَّ أَمَرَ عَلِيّاً عليه السلام بِغُسْلِهِ.
رسول خدا اپنے چچا ابو طالب کی وفات کے بعد انکی میت کے پاس آئے اور فرمایا: اے چچا آپ نے بچپن میں میری تربیت کی اور یتیمی میں میری سرپرستی کی اور اب آپ نے میری نصرت و مدد کی، پس خداوند آپکو بہترین جزاء عطا فرمائے، پھر آپ (ص) نے علی (ع) کو حکم دیا کہ انکو غسل دیں۔
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفى381هـ)، الأمالي ص404، تحقيق و نشر: قسم الدراسات الاسلامية – مؤسسة البعثة – قم، الطبعة: الأولى، 1417هـ.
روایت دوم:
حضرت امیر المومنین علی (ع) نے فرمایا:
عن الصادق عن آبائه عليهم السلام ان امير المؤمنين کان ذات يوم جالسا في الرحبة، والناس حوله مجتمعون، فقام اليه رجل فقال: ياامير المؤمنين انت بالمکان الذي أنزلک الله به وأبوک معذب في النار؟ فقال له علي بن أبي طالب: مه فض الله فاک، والذي بعث محمدا بالحق نبيا لو شفع أبي في کل مذنب علي وجه الارض لشفعه الله فيهم، أبي معذب في النار وابنه قسيم الجنة والنار؟ ! والذي بعث محمدا بالحق نبيا ان نور أبي يوم القيامة ليطفئ أنوار الخلايق کلهم الا خمسة أنوار: نور محمد صلي الله عليه واله، ونوري، ونور الحسن، ونور الحسين، ونور تسعة من ولد الحسين، فان نوره من نورنا خلقه الله تعالي قبل ان يخلق آدم عليه السلام بالفي عام،
امام صادق (ع) نے اپنے والد گرامی سے نقل کیا ہے کہ ایک دن امیر المؤمنین علی (ع) مسجد میں بیٹھے تھے اور لوگوں انکے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک مرد نے کھڑے ہو کر کہا:
اے امير المؤمنين یہ کیا ہے کہ خداوند نے آپکو اس مقام (خلافت و امامت) پر قرار دیا ہے، حالانکہ آپکے والد کو جہنم میں عذاب ہو رہا ہے ؟
امیر المؤمنین علی (ع) نے فرمایا: خدا تیری زبان کو قطع کرے ! اس خدا کی قسم کہ جس نے محمد (ص) کو مبعوث فرمایا ہے، اگر میرے والد تمام اہل زمین کے گناہوں کاروں کی شفاعت کریں تو خداوند اسکو قبول کر لے گا، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میرے والد آتش جہنم میں ہوں، حالانکہ انکا بیٹا جنت اور جہنم کو تقسیم کرنے والا ہے ؟ مجھے اس خدا کی قسم ہے کہ جس نے محمد (ص) کو پیغمبری کے لیے مبعوث فرمایا ہے، بے شک قیامت والے دن میرے والد کا نور سوائے پنجتن کے انوار خمسہ (نور محمد، نور علی، نور فاطمہ، نور حسن، نور حسین علیہم السلام) کے تمام انوار کو خاموش اور بے اثر کر دے گا، کیونکہ ان (ابو طالب) کا نور ہمارے نور سے ہے کہ جس نور کو خداوند نے حضرت آدم کی خلقت سے بھی دو ہزار سال پہلے خلق کیا تھا۔
الطوسي، الشيخ ابو جعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفى460هـ)، الأمالي ص305، تحقيق : قسم الدراسات الاسلامية – مؤسسة البعثة، ناشر: دار الثقافة ـ قم ، الطبعة: الأولى، 1414هـ
احتجاج شيخ طوسي ج1 ص546
روایت سوم
حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ:
وَ اللَّهِ إِنَ إِيمَانَ أَبِي طَالِبٍ لَوْ وُضِعَ فِي كِفَّةِ مِيزَانٍ وَ إِيمَانُ هَذَا الْخَلْقِ فِي كِفَّةِ مِيزَانٍ لَرَجَحَ إِيمَانُ أَبِي طَالِبٍ عَلَى إِيمَانِهِم،
اگر ابو طالب کے ایمان کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور دوسرے انسانوں کے ایمان کو دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو ابو طالب کا ایمان ان لوگوں کے ایمان سے وزنی دکھائی دے گا۔
المجلسي، محمد باقر (متوفى1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار ج35 ؛ ص112، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء – بيروت – لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ – 1983م.
روایت چہارم:
حضرت امام باقر (ع) نے فرمایا ہے کہ:
كَانَ وَ اللَّهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ يَأْمُرُ أَنْ يُحَجَّ عن أبي طالب فِي حَيَاتِهِ،
امیر المؤمنین علی حضرت ابو طالب کی زندگی میں ہی حکم دیا کرتے تھے کہ انکی طرف سے حج انجام دیا جائے۔
المجلسي، محمد باقر (متوفى1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار ج35 ؛ ص112، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء – بيروت – لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ – 1983م.
روایت پنجم:
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيه عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّه عليه السلام إِنَّ مَثَلَ أَبِي طَالِبٍ مَثَلُ أَصْحَابِ الْكَهْفِ، أَسَرُّوا الْإِيمَانَ و أَظْهَرُوا الشِّرْكَ، فَآتَاهُمُ اللَّهُ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْن،
حضرت ابو طالب، اصحاب کہف کی مانند ہیں کہ جنکے دل میں ایمان تھا لیکن ظاہری طور پر شرک کا اظہار کیا کرتے تھے، اسی وجہ سے خداوند انکو دو برابر اجر عطا فرمائے گا۔
الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الكافي ج2ص462، ناشر: دار الحديث، قم-ايران، الطبعة الاولى،1429هـ
روایت ششم:
عن ابي عبداللّه الصادق عليه السلام قال: نزل جبرئيل عليه السلام علي النبي صلي الله عليه و آله فقال: يا محمد! انّ ربّک يقرئک السلام و يقول: انّي قد حرّمت النّار علي صلب اَنزلک و بطن حملک و حجرکفلک فالصلب صلب ابيک ابيه عبداللّه بن عبدالمطلب و البطن الذي حملک آمنة بنت وهب و اما حجر کفلک فحجر ابي طالب.
امام صادق نے فرمایا ہے کہ: جبرائیل رسول خدا پر نازل ہوا اور کہا: اے محمد ! خداوند نے آپکو سلام کہا ہے اور فرمایا ہے کہ: میں خدا نے آتش جہنم کو اس صلب پر حرام قرار دیا ہے کہ جس صلب میں آپ تھے اور اس شکم پر حرام قرار دیا ہے کہ جس نے آپکو حمل کیا تھا اور اس دامن پر حرام قرار دیا ہے کہ جس نے آپکی پرورش کی تھی، پس صلب یعنی آپکے والد عبد اللہ اور شکم یعنی آپکی والدہ آمنہ اور دامن یعنی آپکے چچا ابو طالب۔
الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي ج1ص446، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
روایت ہفتم:
وَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ بِإِسْنَادِهِ إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ الطُّوسِيِّ عَنْ رِجَالِهِ عَنِ الثُّمَالِيِّ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَخْبَرَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّ أَبَا طَالِبٍ شَهِدَ عِنْدَ الْمَوْتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ الله،
عباس ابن عبد المطلب نے کہا ہے کہ: بے شک ابو طالب نے مرتے وقت شہادتین (خداوند کی توحید کی گواہی اور رسول خدا کی رسالت کی گواہی) کو اپنی زبان پر جاری کیا تھا۔
المجلسي، محمد باقر (متوفى1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار ج35 ؛ ص113، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء – بيروت – لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ – 1983م.
روایت ہشتم:
امام صادق (ع) نے فرمایا کہ:
مَا مَاتَ أَبُو طَالِبٍ حَتَّى أَعْطَى رَسُولَ اللَّهِ صلی الله عليه واله وسلم مِنْ نَفْسِهِ الرِّضَا،
ابو طالب نے مرنے سے پہلے اپنے سے رسول خدا کو راضی کیا تھا۔
المجلسي، محمد باقر (متوفى1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار ج35 ؛ ص113، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء – بيروت – لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ – 1983م.
روایت نہم:
وَ بِإِسْنَادِهِ إِلَى أَبَانِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ يُونُسَ بْنِ نُبَاتَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ «عليه السلام» أَنَّهُ قَالَ يَا يُونُسُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فِي إِيمَانِ أَبِي طَالِبٍ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ يَقُولُونَ هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ يَغْلِي مِنْهَا أُمُّ رَأْسِهِ فَقَالَ كَذَبَ أَعْدَاءُ اللَّهِ إِنَّ أَبَا طَالِبٍ مِنْ رُفَقَاءِ النَّبِيِّينَ وَ الصِّدِّيقِينَ وَ الشُّهَداءِ وَ الصَّالِحِينَ وَ حَسُنَ أُولئِكَ رَفِيقا،
محمد ابن یونس نے اپنے والد سے اور اس نے امام صادق سے نقل کیا ہے کہ امام نے مجھ سے فرمایا کہ: اے یونس لوگ ابو طالب کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ یونس نے کہا وہ کہتے ہیں کہ:«هو في ضحضاح من نار و في رجليه نعلان من نار تغلى منهما امّ رأسه» یعنی ابو طالب آتش میں شعلہ ور ہے اور اس نے آگ کے جوتے پہنے ہوئے ہیں کہ جسکی وجہ سے اسکا مغز ابل رہا ہے۔ یہ سن کر امام صادق نے فرمایا: وہ لوگ دشمنان خدا ہیں کہ جو جھوٹ کہتے ہیں، ابو طالب انبیاء، صدیقین اور شہداء کے دوستوں میں سے ہیں کہ وہ کتنے اچھے دوست ہیں۔
الكراجكي، الامام العلامة أبي الفتح محمد بن علي بن عثمان (متوفي449هـ)، كنز الفوائد ؛ ج1 ؛ ص183، ناشر: دارالذخائر، قم – ايران، سال چاپ:141
روایت دہم:
أَبَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ كَتَبْتُ إِلَى الْإِمَامِ الرِّضَا عَلِيِّ بْنِ مُوسَى جُعِلْتُ فِدَاكَ قَدْ شَكَكْتُ فِي إِيمَانِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ فَكَتَبَ
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ أَمَّا بَعْدُ فَمَنْ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلَّى إِنَّكَ إِنْ لَمْ تُقِرَّ بِإِيمَانِ أَبِي طَالِبِ كَانَ مَصِيرُكَ إِلَى النَّار،
ابان ابن محمد نے کہا کہ: میں نے امام رضا کو خط لکھا اور کہا: میری جان آپ پر قربان ہو، میں نے ابو طالب پر شک کیا ہے، پس امام رضا نے فرمایا: بسم الله الرحمن الرحیم «فمن یتبع غیر سبیل المومنین نوله ماتولی» اگر تم ابو طالب کے ایمان کا اقرار نہیں کرو گے تو تمہارا راستہ جہنم کی طرف ہو گا۔
الكراجكي، الامام العلامة أبي الفتح محمد بن علي بن عثمان (متوفي449هـ)، كنز الفوائد ؛ ج1 ؛ ص182، ناشر: دارالذخائر، قم – ايران، سال چاپ:141
روايت يازدہم:
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ومُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الأَزْدِيِّ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيه ع قَالَ قِيلَ لَه إِنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّ أَبَا طَالِبٍ كَانَ كَافِراً فَقَالَ كَذَبُوا كَيْفَ يَكُونُ كَافِراً وهُوَ يَقُولُ:
أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّا وَجَدْنَا مُحَمَّداً
نَبِيّاً كَمُوسَى خُطَّ فِي أَوَّلِ الْكُتُبِ
وفِي حَدِيثٍ آخَرَ كَيْفَ يَكُونُ أَبُو طَالِبٍ كَافِراً وهُوَ يَقُولُ:
لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّ ابْنَنَا لَا مُكَذَّبٌ
لَدَيْنَا ولَا يَعْبَأُ بِقِيلِ الأَبَاطِلِ
وأَبْيَضُ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِه
ثِمَالُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلأَرَامِلِ.
اسحاق ابن امام صادق نے نقل کیا ہے کہ: میرے والد کے پاس بیٹھے کچھ لوگوں نے کہا کہ شیعہ کے مخالفین گمان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طالب کافر تھے، میرے والد (امام صادق) نے فرمایا: وہ جھوٹ کہتے ہیں، وہ کیسے کافر ہو سکتے ہیں حالانکہ انھوں نے ان اشعار کو کہا ہے:
کیا تم نہیں جانتے کہ ہم محمد کو موسی کی طرح پیغمبر مانتے ہیں کہ گذشتہ آسمانی کتب میں انکے بارے میں بشارت دی گئی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں نقل ہوا ہے کہ: وہ کیسے کافر ہو سکتے ہیں حالانکہ انھوں نے ان اشعار کو کہا ہے:
وہ (مشرکین) جانتے ہیں کہ ہم اپنی اولاد کو جھٹلانے والے نہیں ہیں اور باطل باتوں کی کوئی تاویل و توجیہ نہیں کی جا سکتی۔
وہ نورانی چہرہ (خدا کا نیک بندہ) ہے کہ جسکی برکت سے بادل برستے ہیں، وہ یتیموں کی فریاد رسی کرنے والا اور مسکین عورتوں کو پناہ دینے والا ہے۔
الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي ج1ص448- 449، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
روايت دوازدہم:
عَلِيٌّ عَنْ أَبِيه عَنِ ابْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الأَشْعَرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّه ع قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو طَالِبٍ نَزَلَ جَبْرَئِيلُ عَلَى رَسُولِ اللَّه ص فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ اخْرُجْ مِنْ مَكَّةَ فَلَيْسَ لَكَ فِيهَا نَاصِرٌ وثَارَتْ قُرَيْشٌ بِالنَّبِيِّ ص فَخَرَجَ هَارِباً حَتَّى جَاءَ إِلَى جَبَلٍ بِمَكَّةَ يُقَالُ لَه الْحَجُونُ فَصَارَ إِلَيْه.
عبید ابن زرارہ نے امام صادق سے نقل کیا ہے کہ امام نے فرمایا کہ: جب حضرت ابو طالب دنیا سے چلے گئے تو جبرائیل رسول خدا پر نازل ہوا اور ان سے کہا: اے محمد اب آپ مکہ سے خارج ہو جائیں کیونکہ اب آپکا اس شہر میں کوئی ناصر و مدد گار نہیں رہا۔ قریش کا بھی رسول خدا پر حملہ کرنے کا ارادہ تھا، وہ حضرت خوف کی حالت میں مکہ سے خارج ہوئے اور مکہ میں حجون نامی پہاڑ کی طرف چلے گئے اور وہاں پر قیام کیا۔
الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفى328 هـ)، الأصول من الكافي ج1 ص 449، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
بالکل انہی مطالب پر مشتمل روایت کو علامہ مجلسی نے کتاب بحار میں بھی نقل کیا ہے:
المجلسي، محمد باقر (متوفى1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار ج35 ص 111- 112، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء – بيروت – لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ – 1983م.
روايت اہل سنت:
البتہ حضرت ابو طالب کے ایمان کے بارے روایات کو فقط اہل بیت (ع) سے ہی نقل نہیں کیا گیا بلکہ اسی بارے میں اہل سنت کے علماء نے بھی روایات کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے:
جیسے یہ اشعار اہل سنت کی کتب میں نقل ہوئے ہیں:
أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ من كلّ طاعن
علينا بسوء او يلوح بباطل،
لوگوں کے خداوند کی پناہ مانگتا ہوں کہ کچھ لوگ ہمارے بارے میں غلط باتیں کرتے ہیں یا باطل کی ہماری طرف نسبت دیتے ہیں۔
الصالحي الشامي، محمد بن يوسف (متوفى942هـ)، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد ج2ص506، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الأولى، 1414هـ.
اہل سنت کے ہمعصر عالم شیخ مجد مکی نے اپنی کتاب عقائد اہل سنت میں ایسے لکھا ہے کہ:
اسلام اور ایمان قطعا مترادف نہیں ہیں، بلکہ معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، کیونکہ یہ دونوں (اسلام و ایمان) مانند ابو بکر میں جمع ہو جاتے ہیں اور ابی ابن ابی سلول میں اسلام ، ایمان سے جدا ہو جاتا ہے اور ابو طالب جیسے شخص میں ایمان، اسلام سے جدا ہو جاتا ہے۔
مجد مکی، عقائد اهل سنت ج 1ص 79، ترجمه: فيض محمد بلوچ
ابو طالب (ع) حجاج کی رفادت اور سقایت (میزبانی کرنے اور سیراب کرنے) کے منصب کے عہدیدار تھے اور گندم اور عطریات کی تجارت سے منسلک تھے۔ انھوں نے اپنے والد عبد المطلب علیہ السلام کی وفات کے بعد رسول خدا (ص) کی سرپرستی کا بیڑا اٹھایا اور آپ (ص) کی رسالت کے دوران آپ کی ہمہ جہت حفاظت و حمایت کی۔
ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ:
ولولا ابوطالب وابنه لما مثل الدین شخصاً فقاما فذاك بمكة آوی وحامی وهذا بیثرب جس الحماما تكفل عبدُ منافٍ بأمر وأودی فكان عليٌ تماماً۔
اگر ابو طالب اور ان کے فرزند علی نہ ہوتے تو دین کا ستون بپا نہ ہوتا، ابو طالب (ع) نے مکہ میں دین کو پناہ دی اور اس کی حمایت کی اور علی (ع) نے مدینہ میں دین کے کبوتر کو اڑنے کے قابل بنایا، ابو طالب (ع) نے ایک کام کا آغاز کیا اور جب رخصت ہوئے تو علی نے اس کو سر انجام تک پہنچایا۔
ابن ابی الحدید، ج14، ص84
حتی کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا:
جب تک ابو طالب بقید حیات تھے، قریش مجھ سے خائف رہتے تھے۔
معتزلي، إبن أبي الحديد، شرح نهج البلاغة ج14 ص65 تا 84
قمی، شیخ عباس، سفينة البحارج2 ص87 تا 90
شیخ مفید لکھتے ہیں کہ:
ابو طالب (ع) کی وفات کے وقت جبرائیل رسول اکرم (ص) پر نازل ہوئے اور اللہ کا حکم پہنچایا کہ مکہ کو چھوڑ کر چلے جائیں کیونکہ اب اس شہر میں آپ کا کوئی یار و مددگار نہيں رہا۔
شیخ مفید، ایمان ابی طالب، ص 24
رسول اللہ (ص) ابو طالب (ع) کی وفات کے دن شدت سے مغموم و محزون تھے اور رو رہے تھے۔ آپ (ص) نے امام علی (ع) کو ہدایت کی کہ انہیں غسل و کفن دیں اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی اور جب ان کے مدفن میں پہنچے تو ان سے مخاطب ہو کر اپنے ساتھ ان کے حسن سلوک اور مدد و حمایت کا ذکر کیا اور کہا:
چچا جان ! میں اس طرح سے آپ کے لیے استغفار اور آپ کی شفاعت کروں گا کہ جن و انس حیرت زدہ ہو جائیں گے۔
ابو طالب (ع) کو قبرستان حجون یا قبرستان ابی طالب یا جنت المعلی (المعلاة) میں اپنے والد عبد المطلب (ع) کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔
ولادت اور نسب:
عبد مناف بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف المعروف ابو طالب زعماء و اکابرین مکہ و قبیلۂ بنی ہاشم میں سے نیز خاندان بنی ہاشم کے سربراہ ہیں۔ انہیں سقایت و رفادت کے عہدے اپنے والد سے ورثے میں ملے ہیں۔ وہ امام علی علیہ السلام کے والد ماجد اور محمد ابن عبد اللہ (ص) کے چچا اور جان نثار حامی ہیں۔ وہ اپنی کنیت ابو طالب سے مشہور ہیں اور ان کا مشہور نام عبد مناف ہے۔
انساب الاشراف، ج 2، ص 288
طبقات ابن سعد، ج1، ص 121
رسول خدا (ص) کے اعلان نبوت کے بعد پورے وجود سے آپ (ص) کی حمایت کا اہتمام کیا اور جب مشرکین قریش نے بنو ہاشم کا سماجی اور معاشی محاصرہ کر کے انہیں شعب ابی طالب تک محدود کیا، تو ابو طالب (ع) بھی شعب میں چلے گئے اور محاصرہ و ناکہ بندی کے خاتمے کے کچھ عرصہ بعد شعب ابی طالب میں جھیلے مصائب اور رنج و تکلیف کی وجہ سے بعثت کے دسویں سال میں وفات پا گئے۔
ابن هشام، سیرة ابن هشام، ج1، ص189
بلاذری، انساب الاشراف، ج1 ص85
ابو طالب (ع) رسول خدا (ص) کی ولادت سے 35 سال قبل پیدا ہوئے، ان کا سال پیدائش سن 535 عیسوی ہے اور یوں وہ 75 سال قبل از بعثت پیدا ہوئے ہیں۔
عمده الطالب، ص 20
ان کے والد ماجد رسول خدا (ص) کے دادا جناب عبد المطلب ہیں۔ تمام عرب قبائل ابو طالب کے والد اور رسول اللہ کے دادا کو بزرگی اور تعظيم کے ساتھ یاد کرتے تھے اور انہیں توحید و یکتا پرستی اور دین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مبلغ کے طور پر جانتے تھے۔ ابو طالب (ع) اور رسول خدا (ص) کے والد عبد اللہ ابن عبد المطلب کی والدہ ماجدہ عمرو ابن عائذ مخزومی کی بیٹی فاطمہ بنت عمرو مخزومی ہیں۔
عمده الطالب، ص 20
بیهقی، احمد بن حسین، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشریعة، ج1، ص 75
زوجہ اور اولاد:
حضرت ابو طالب (ع) کی زوجہ جناب فاطمہ بنت اسد ابن ہاشم ابن عبد مناف تھیں اور پہلی ہاشمی خاتون تھیں جو ایک ہاشمی مرد کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور صاحب اولاد ہوئیں۔
تاریخ طبری، ج 2، ص 2. تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 111
خوارزمی، موفق بن احمد، المناقب، ص46
حضرت علی (ع) سمیت، ابو طالب (ع) کے تمام فرزندوں کی والدہ گرامی فاطمہ بنت اسد ہیں۔
ابن المغازلی، على بن محمد، مناقب الإمام على بن أبى طالب علیهما السلام، ص57
چنانچہ حضرت علی (ع) پہلے ہاشمی ہیں کہ جن کے والدین دونوں ہاشمی ہیں۔
امین عاملى، سید محسن، أعیان الشیعة، ج1، ص325
ابن الجوزى، تذکرة الخواص، ص 22
طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الهدى، ج1، ص306
ابن سعد نے لکھا ہے کہ : ابو طالب (ع) کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں، جن کے نام عمر کی ترتیب کے لحاظ سے یہ ہیں: بیٹے : طالب ، عقیل ، جعفر ، علی (ع)
بیٹیاں: ام ہانی بنت ابی طالب ، جمانہ بنت ابی طالب ،ربطہ بنت ابی طالب
ابو طالب (ع) کے تمام بیٹوں اور بیٹیوں کی والدہ فاطمہ بنت اسد علیہا السلام ہیں۔
سماجی منزلت، پیشے اور مناصب:
ابو طالب (ع) شہر مکہ میں حجاج کی رفادت (میزبانی) اور سقایت (آب رسانی) کے مناصب پر فائز تھے۔ وہ تجارت سے بھی منسلک تھے اور عطریات اور گندم کی خرید و فروخت کرتے تھے۔
العاملى، جعفر مرتضى، الصحیح من السیرة النبی الأعظم، ج1 ص234 و 235
ابن الجوزى، تذکرة الخواص، ص21 و 22
امیر المؤمنین علی (ع) سے ایک روایت ہے نیز مؤرخین کے اقوال کے مطابق: حضرت ابو طالب (ع) تہی دست ہونے کے باوجود قریش کے عزیز اور بزرگ تھے اور ہیبت و وقار اور حکمت کے مالک تھے۔
ابن سعد، طبقات الکبری، ج1، ص121 و 122
تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 13
كان أبو طالب رضي الله عنه سيد البطحاء وشيخ قريش ورئيس مكة، وكان رحمه الله شيخا جسيما وسيما ، عليه بهاء الملوك ووقار الحكماء، قيل لاكثم بن صيفي حكيم العرب، ممن تعلمت الحكمة والرياسة والحلم والسيادة ؟ قال: من حليف الحلم والادب سيد العجم والعرب ابى طالب بن عبد المطلب،
ابو طالب (ع) بطحاء کے سردار، قریش کے زعیم اور مکہ کے رئیس و سربراہ تھے، اور وہ جن پر اللہ کی رحمت ہو، تناور اور صاحب جمال بزرگ تھے، بادشاہوں کے جلال کے مالک تھے اور حکماء کا وقار رکھتے تھے۔ کہا گیا ہے کہ وہ بادشاہوں کے جلال کے مالک تھے اور حکماء کا وقار رکھتے تھے،
حکیم العرب اکثم ابن صیفی سے پوچھا گیا: آپ نے حکمت و ریاست اور بردباری و سیادت کس سے سیکھی؟ تو انھوں نے جواب دیا: میں نے یہ سب حلم و ادب کے حلیف، سید عرب و عجم حضرت ابو طالب ابن عبد المطلب (ع) سے سیکھا۔
القمي، الشيخ عباس، الكنى والألقاب ج1 ص109
مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج5 ص431
ابو طالب (ع) کی فیاضی اور جود و سخا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جس دن وہ لوگوں کو کھانے پر بلاتے قریش میں سے کوئی بھی کسی کو کھانے پر نہیں بلاتا تھا۔
انساب الاشراف، ج2، ص288
ابو طالب (ع) نے سب سے پہلے عصر جاہلیت میں حلف اور قسم کو، مقتول کے وارثوں کی شہادت میں، لازمی قرار دیا اور اسلام نے اس کی تائید و تصدیق کی۔
سنن نسایی، ج 8، ص 2 – 4
تاریخ دان حلبی نے لکھا ہے کہ: ابو طالب (ع) نے اپنے والد ماجد حضرت عبد المطلب ابن ہاشم (ع) کی مانند شراب نوشی کو اپنے اوپر حرام کیا ہوا تھا۔
سیره حلبی، ج 1، ص 184
رسول اکرم (ص) کی کفالت اور سرپرستی:
ابو طالب (ع) نے اپنے والد کی ہدایت پر اپنے آٹھ سالہ بھتیجے حضرت محمد (ص) کی سرپرستی کا بیڑا اٹھایا۔
سیره ابنهشام، ج 1، ص 116
دلائل النبوه، ج 2، ص 22
ابن شہر آشوب نے لکھا ہے کہ: جناب عبد المطلب نے وقت وصال ابو طالب (ع) کو بلوایا اور کہا:
بیٹا تم رسول خدا (ص) کی نسبت میری محبت کی شدت سے آگاہ ہو، اب دیکھو کہ ان کے حق میں میری وصیت پر کس طرح عمل کرتے ہو۔ ابو طالب (ع) نے جواب میں کہا:
ابا جان ! مجھے رسول خدا (ص) کی سفارش کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ میرا بیٹا اور میرا بھتیجا ہے۔
ابن شہر آشوب نے مزید لکھا ہے کہ: عبد المطلب کا انتقال ہوا تو ابو طالب (ع) نے رسول خدا (ص) کو کھانے پینے اور لباس و پوشاک میں اپنے اہل خانہ پر مقدم رکھا۔
مناقب، ج 1، ص 36
ابن ہشام نے لکھا ہے کہ: ابو طالب (ع) رسول خدا (ص) کو خاص توجہ دیتے تھے اور آپ (ص) پر اپنے بیٹوں سے زیادہ احسان کرتے تھے، بہترین غذا آپ کے لیے فراہم کرتے تھے اور آپ کا بستر اپنے بستر کے ساتھ بچھاتے تھے اور ان کو ہمیشہ ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔
طبقات ابنسعد، ج 1، ص 119
ابو طالب (ع) جب بھی اپنے بیٹوں بیٹیوں کو کھانا کھلانے کے لیے دسترخوان بچھا کر کہا کرتے تھے کہ: رک جاؤ کہ میرا بیٹا رسول خدا آ جائے۔
ابن شہر آشوب، مناقب، ج 1، ص 37
رسول اللہ (ص) کے حامی و پشت پناہ:
تاریخی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو طالب (ع) نے قریش کے دباؤ، سازشوں دھونس دھمکیوں اور ان کی طرف لاحق خطرات کے مقابلے میں رسول اکرم (ص) کی بے شائبہ اور بے دریغ حمایت جاری رکھی۔ گو کہ ابو طالب (ع) کی عمر رسول اللہ (ص) کی بعثت کے وقت 75 برس ہو چکی تھی، تاہم انھوں نے ابتداء ہی سے آپ (ص) کی حمایت و ہمراہی کو ثابت کر کے دکھایا۔ انھوں نے قریش کے عمائدین سے باضابطہ ملاقاتوں کے دوران رسول اللہ (ص) کی غیر مشروط اور ہمہ جہت حمایت کا اعلان کیا۔
سیره ابن هشام، ج1، ص172 و 173
قریشیوں نے کہا: رسول خدا کو ہمارے حوالے کریں تا کہ ہم انہیں قتل کریں۔ ہم ان کے بدلے مکہ کا انتہائی خوبصورت نوجوان عماره ابن ولید مخزومی آپ کے سپرد کریں گے، تو مؤمن قریش نے جواب دیا: اچھا تو تم میرا بیٹا مجھ سے لے کر قتل کرو گے اور میں تمہارے بیٹے کو پالوں گا اور کھلاؤنگا اور پلاؤنگا ؟ ابو طالب (ع) نے قریشیوں پر لعنت ملامت کی اور انہيں دھمکی دی کہ اگر رسول اللہ (ص) کے خلاف اپنی سازشوں سے باز نہ آئے تو انہيں ہلاک کر دیں گے۔
سیره ابن هشام، ج1، ص173
انساب الاشراف، ج 1، ص 31
یہ حمایت اور محبت اس حد تک تھی کہ جناب ابو طالب (ع) اور ان کی زوجہ مکرمہ حضرت فاطمہ بنت اسد (س) رسول اللہ (ص) کے لیے ماں باپ کی صورت اختیار کر چکے تھے۔
تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 14۔
رسول اکرم (ص) نے حضرت ابو طالب (ع) کے روز وفات غم و اندوہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
مَا زَالَتْ قُرَیْشٌ كَاعَّةً (اَو قَاعِدَةً) عَنِّی حَتَّی تُوُفِّیَ اَبُو طَالِبٍ۔
جب تک ابو طالب بقید حیات تھے قریش مجھ سے خائف رہتے تھے۔
معتزلي، إبن أبي الحديد، شرح نهج البلاغة ج14 ص65 تا 84
قمی، شیخ عباس، سفينة البحارج2 ص87 تا 90
تاریخ مدینه دمشق، ج 66، ص 339
ابن کثیر، البدایة و النهایة، ج3، ص164
عبد الرحمن ابن کثیر کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا کہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ ابو طالب آگ کے تالاب میں ہیں، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: جھوٹ بول رہے ہیں، جبرائیل یہ بات لے کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ پر نازل نہیں ہوئے۔
میں نے عرض کیا کہ پھر جبرائیل کیا لے کر نازل ہوئے ؟
امام (ع) نے فرمایا: جبرائیل نازل ہوئے اور رسول اللہ (ص) سے عرض کیا : اے رسول خدا (ص)! آپ کا پروردگار آپ پر سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ بتحقیق اصحاب کہف نے ایمان کو خفیہ رکھا اور شرک کا اظہار کیا پس اللہ نے انہیں دو گنا اجر عطا فرمایا اور بتحقیق ابو طالب نے ایمان کو خفیہ رکھا اور شرک ظاہر کیا اور اللہ نے انہیں دوگنا اجر عطا فرمایا اور وہ دنیا سے نہیں اٹھے حتی کہ اللہ تعالی کی جانب سے انہیں جنت کی بشارت ملی۔
امام صادق (ع) نے مزید فرمایا : یہ ملعون لوگ کیونکر ابو طالب کے بارے میں ایسی بات کر سکتے ہیں جبکہ جبرائیل اللہ کا پیغام لے کر ابو طالب کے انتقال کی رات رسول اللہ (ص) پر نازل ہوئے اور عرض کیا: اے رسول خدا (ص) ! مکہ سے نکل جائیں کیونکہ ابو طالب (ع) کے بعد اب آپ کا کوئی مددگار نہیں ہے!۔
فخار بن معد اپنی، الحجة على الذاهب إلى تكفير ابي طالب، ص17
شیخ مفید لکھتے ہیں کہ: ابو طالب (ع) کی وفات کے وقت جبرائیل رسول اکرم (ص) پر نازل ہوئے اور اللہ کا حکم پہنچایا کہ مکہ کو چھوڑ کر چلے جائیں کیونکہ اب اس شہر میں آپ کا کوئی یار و مددگار نہيں رہا۔
شیخ مفید، ایمان ابی طالب، ص 24
دیوان ابو طالب (ع):
ابو طالب (ع) کے قصائد اور منظوم کلام اور حکیمانہ اور ادیبانہ منظوم اقوال تقریبا ایک ہزار ابیات (اشعار) پر مشتمل ہیں اور یہ مجموعہ دیوان ابو طالب کے نام سے مشہور ہے۔ جو کچھ ان اشعار اور اقوال میں آیا ہے سب رسول خدا (ص) کی رسالت و نبوت کی تصدیق و تائید پر مبنی ہے۔ ان کا مشہور ترین قصیدہ، قصیدہ لامیہ کے عنوان سے مشہور ہے۔
شیخ مفید، ایمان ابی طالب، ص 18
ایمان حضرت ابی طالب (ع):
شک نہیں کہ ابو طالب (ع) رسول خدا (ص) کے سرپرست اور دشوار ترین ایام میں آپ (ص) کے حامی تھے لیکن امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی شان گھٹانے کے لیے ان کے ایمان کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی اور ایمان ابو طالب پر کافی بحث ہوئی ہے۔ شیعیان اثنا عشری ابو طالب (ع) کے ایمان اور اسلام پر یقین کامل رکھتے ہیں اور علمائے شیعہ ائمۂ اہل بیت (ع) کی روایات کی روشنی میں ان کے ایمان پر اجماع رکھتے ہیں اور بہت سے علمائے اہل سنت ابو طالب (ع) کے اشعار و اقوال نیز رسول اللہ (ص) کی حمایت کے حوالے سے ان کے اقدامات اور اس راہ میں ان کی جھیلی ہوئی صعوبتوں کی روشنی میں ان کے صاحب ایمان ہونے پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے مقابلے میں بعض اہل سنت اور وہابی علماء کا خیال ہے کہ ابو طالب (ع) شریعت اسلام پر ایمان نہیں لائے اور حالت شرک میں دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔
امام صادق (ع) فرماتے ہیں:
إن مثل ابي اطالب مثل اصحاب الكهف اسروا الإيمان و اظهروا الشرك فاتاهم الله اجرهم مرتين،
بے شک ابو طالب (ع) کی مثال اصحاب کہف کی مثال ہے کہ جنہوں نے اپنا ایمان صیغہ راز میں رکھا اور شرک کا اظہار کیا پس خداوند متعال نے انہیں دوگنا اجر عطا کیا۔
شیخ مفید لکھتے ہیں کہ:
پس انھوں نے ایمان کو خفیہ رکھا اور ظاہر کیا ایمان میں سے صرف اتنا، جس کا اظہار ممکن تھا، اس مصلحت کی بناء پر حتی کہ اسلام کی بنیادوں کو استوار کرنے اور دعوت کے استحکام اور رسول اللہ (ص) کی رسالت کی استقامت و استحکام جیسے مقاصد تک پہنچ سکیں اور وہ اس سلسلے میں کہف والے مؤمنوں کی طرح تھے کہ جنہوں نے ایمان تقیہ مصلحت خواہی کی بناء پر خفیہ رکھا اور ایمان کی مخالفت کو ظاہر کیا پس اللہ نے انہیں دوگنا اجرت و پاداش عطا کی۔
وفات جناب ابو طالب (ع) اور عام الحزن:
ابو طالب (ع) کی تاریخ وفات کے بارے میں بھی مختلف اقوال پائے جاتے ہیں لیکن بعض شیعہ منابع میں ان کی تاریخ وفات 26 رجب ہے۔ جب کہ اس سے صرف تین روز قبل حضرت خدیجہ (س) وفات پا چکی تھیں۔ ابو طالب (ع) 85 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔
جنات الخلود، ص 16۔
تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 35.
بعض منابع میں ذکر ہوا ہے کہ ابو طالب (ع) پندرہ شوال یا یکم ذوالقعدہ کو دنیا سے رخصت ہوئے ہیں اور رسول خدا (ص) نے حضرت خدیجہ (س) اور حضرت ابو طالب (ع) کے سال وفات کو عام الحزن (دکھوں کا سال) قرار دیا۔
متاع الاسماع، ج 1، ص 45۔
حضرت ابو طالب (ع) حامی رسالت:
حضرت ابو طالب علیہ السلام، رسول اکرم کے چچا اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے والد بزرگوار تھے۔ آپ جناب عبد المطلب(ع) کے وصی و جانشین اور رسول اکرم کے سب سے بڑے حامی و مددگار تھے۔ آپ(ع) کی حیات طیبہ آپ کے بے نظیر کارناموں سے بھری ہے۔ ایک ایسی شخصیت جو درد مندوں اور محروموں کی پناہ گاہ تھی۔ اخلاق و اخلاص آپ کے بابرکت وجود میں مجسم ہوگئے تھے۔ ایک ایسا باقدرت انسان کہ تاریخ نے اس کے ثبات قدم، استقامت اور فدا کاری کو اس کے فرزند ارجمند حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور میں نہ دیکھا۔
سنی عالم جناب ابن ابی الحدید کہتے ہیں: ابو طالب علیہ السلام اور آپ کے پدر بزرگوار جناب عبد المطلب(ع) قریش کے سردار اور مکۂ معظمہ کے سرور و امیر تھے اور آپ اس شہر کے باشندے، مہاجرین، مسافرین اور بیت اللہ کے زائرین سب کی مہمان نوازی اور رہنمائی فرماتے تھے۔
شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج 1، ص 4 ، ﴿مقدمہ﴾
آپ ایک لمحہ بھی خدائے وحدہ لاشریک لہ سے غافل نہ تھے، بلکہ جناب ابراہیم علیہ السلام کے جانشین تھے اور آپ انبیائے کرام کی پیشین گوئیوں کے مطابق خاتم الانبیاء حضرت محمد (ص) مصطفیٰ کی نبوت و رسالت کے منتظر تھے۔ اسی لیے آپ رسول خدا کی ولادت باسعادت سے پہلے آپ کی رسالت پر ایمان رکھتے تھے اور نبی کریم کی ولادت باسعادت کے وقت جب آپ (ع) کی زوجہ جناب فاطمہ (ع) بنت اسد نے آپ (ع) کو آنحضرت (ص) کی ولادت باسعادت اور اس وقت ظاہر ہونے والے عجیب و غریب واقعات کی اطلاع دی تو آپ (ع) نے فرمایا:
تم ان واقعات اور اس بابرکت مولود کے بارے میں تعجب کر رہی ہو، صبر کرو، تیس سال بعد تمہارے شکم سے بھی ایک ایسا ہی بچہ پیدا ہو گا جو اس مولود کا وزیر، وصی اور جانشین ہو گا !!
اصول کافی، ج 1، ص 254
جناب ابو طالب ایک مومن اور موحد انسان تھے جنہوں نے زندگی کے آخری لمحات تک نبی خدا کو کفار قریش کے شر سے محفوظ رکھا اور اسلام کی ترقی اور پیشرفت میں سب سے زیادہ تعاون کیا۔
لیکن افسوس تو یہ ہے کہ آپ کی اتنی فدا کاریوں اور قربانیوں کے باوجود بعض کینہ پرور اور متعصب وہابی و اہل سنت افراد آپ کی شان میں گستاخی اور سوء ادب کرتے ہیں اور آپ کے ایمان و اعتقاد کے بارے میں شک و تردید کی بیماری میں مبتلا ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: میرے والد نے ناداری و غربت کے باوجود آپ (ص) کی سروری و سرپرستی کی۔ آپ سے پہلے کسی بھی یتیم نے ایسی سروری و سرپرستی نہیں پائی۔
تاریخ یعقوبی، ج 1، ص 863
جناب ابو طالب، رسول خدا سے اتنی زیادہ محبت و مودت کا اظہار فرماتے کہ اپنی اولاد سے بھی اتنی محبت نہیں کرتے تھے۔ آنحضرت (ص) کو اپنے پاس سلاتے اور جب کہیں باہر جاتے تو انھیں بھی ساتھ لے جاتے اور آپ (ص) سے اس درجہ محبت کرتے کہ کسی اور سے اتنی محبت نہ کرتے اور آپ (ص) کے لیے بہترین غذا کا انتظام کرتے تھے۔
طبقات ابن سعد، ج 1، ص 101
ابن عباس اور دیگر اصحاب کا بیان ہے کہ جناب ابو طالب رسول خدا سے بے حد محبت کرتے تھے اور آنحضرت (ص) کو اپنے بچوں سے زیادہ دوست رکھتے اور آپ کو ان پر مقدم کرتے تھے۔ اسی لیے آنحضرت سے دور نہ سوتے اور جہاں بھی جاتے تو آپ (ص) کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔
الغدیر، ج 7، ص 673
علامہ مجلسی نقل کرتے ہیں: جب رسول خدا اپنے بستر پر سو جاتے اور گھر کے سارے افراد بھی سو جاتے تھے تو جناب ابو طالب آپ (ص) کو آہستہ سے جگاتے اور آنحضرت کو حضرت علی کے بستر پر لٹاتے اور آپ (ع) کو نبی کریم کے بستر پر سلاتے۔ جناب ابو طالب اپنے فرزند اور بھائیوں کو رسول خدا کی حفاظت پر لگاتے تھے۔
بحار الانوار، ج 53، ص 39
یعقوبی کا بیان ہے: رسول خدا (ص) سے روایت نقل ہوئی ہے کہ جناب ابو طالب (ع) کی زوجہ محترمہ، جناب فاطمہ بنت اسد، جو ایک مسلمان اور عظیم المرتبت خاتون تھیں ان کی وفات پر آپ (ص) نے فرمایا:
الیوم ماتت امی،
آج میری ماں نے وفات پائی ہے۔
اور آپ نے انہیں اپنے پیراہن کا کفن دیا اور قبر میں اترے۔ کچھ دیر لحد میں سوئے۔ جب وہاں موجود لوگوں نے آپ سے اس کا سبب دریافت کیا کہ آپ (ص) جناب فاطمہ بنت اسد کی وفات پر کیوں اتنے مغموم و محزون ہیں ؟ تو آپ (ص) نے فرمایا: وہ واقعاً میری ماں تھیں اس لیے کہ وہ اپنے بچوں کو بھوکا رکھ کر مجھے سیر کرتی تھیں۔ انہیں غبار آلود رہنے دیتی اور مجھے صاف ستھرا اور پاکیزہ رکھتی تھیں وہ واقعاً میری ماں تھیں۔
تاریخ یعقوبی، ج 1، ص 863
جناب ابو طالب، رسول خدا کو آٹھ سال کی عمر میں اپنے گھر لے گئے اور پچاس سال تک ہر لمحہ آپ کی نصرت و حمایت کرتے رہے اور ہر احتمالی خطروں سے رسول خدا کی حفاظت میں اپنے فرزندوں کی جان کی بازی لگا دی اور اتنی فدا کاری و قربانی دی کہ ملائکہ اور جبرائیل بھی اس پر فخر و مباہات کرتے تھے۔
تاریخ میں آیا ہے کہ کفار قریش بارہا جناب ابو طالب علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور آپ سے کہا کہ رسول خدا کو تبلیغ دین اسلام سے روک دیں اس لیے کہ اس میں ان کے دین و آئین اور بت پرستی کی توہین ہے۔ کئی بار رجوع کے بعد کفار قریش نے آخر کار سخت دھمکی دی، یہاں تک کہ انہوں نے رسول خدا اور جناب ابو طالب کو قتل کی دھمکی دے دی۔ ایسی حالت میں بھی جناب ابو طالب نے اپنے پورے ایمان و اقتدار کے ساتھ رسول خدا کی حمایت کی اور آپ (ص) سے فرمایا:
اذھب یابن اخی فقل ما احببت فو اللہ لا اسئلک لشیئ ابدا،
اے جان برادر ! آپ جو چاہتے ہیں کہیے خدا کی قسم میں آپ سے کبھی کسی چیز کے لیے باز پرس نہ کروں گا۔
تاریخ طبری، ج 1، ص 76
ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:
ابو طالب وہ شخصیت تھے کہ جنہوں نے رسول خدا کی دوران طفولت کفالت و سرپرستی کی اور جب بڑے ہو گئے تو آپ کی حمایت و نصرت کی اور کفار قریش کے شر سے محفوظ رکھا، انہوں نے اس راہ میں ہر طرح کی سختیاں اور مصیبتیں برداشت کیں اور ہر بلا و مصیبت کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا اور رسول خدا کی نصرت و حمایت اور دین اسلام کی تبلیغ و ترویج میں اپنے پورے وجود کے ساتھ قیام کیا اور اس شان سے ایثار و فدا کاری کی کہ جناب ابو طالب کی وفات کے وقت جبرائیل امین نازل ہوئے اور رسول خدا سے کہا: اب آپ (ص) مکہ سے نکل جائیں اس لیے کہ آپ کا یاور و مددگار دنیا سے رخصت ہو گیا ہے۔
شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج 1، ص 92
قابل ذکر بات یہ ہے کہ شیعہ سنی محدثین و مؤرخین نے اسلام کی اس عظیم الشان اور عالی مرتبت شخص کی فدا کاریوں و قربانیوں کو لکھا ہے اور اس سلسلہ میں احادیث و روایات کو نقل کیا ہے۔ منجملہ یہ کہ:
کفار قریش جناب ابو طالب سے ڈرتے تھے اور آپ کا احترام و اکرام کرتے تھے۔ جب تک آپ (ع) باحیات تھے رسول خدا کو کوئی خاص خطرہ نہ تھا لیکن آپ (ع) کی وفات کے بعد کفار قریش کی جسارت و گستاخی اس حد تک بڑھ گئی کہ وہ آپ (ع) کے سر پر کوڑا کرکٹ ڈالتے اور جانوروں کی اوجھڑیاں آپ کے سر و شانہ پر ڈالتے تھے! اور حالت نماز میں آپ اور آپ کے پیرو کاروں کو آزار و اذیت دیتے تھے۔ یہاں تک کہ رسول خدا کو یہ کہنا پڑا کہ:
ما نالت قریش منی شیئ اکرھہ حتی مات ابو طالب،
جب تک میرے چچا ابو طالب زندہ تھے قریش میرے ساتھ کوئی ناپسند برتاؤ نہ کر سکے۔
جناب ابو طالب کی وفات کے بعد کفار قریش نے رسول خدا کو اتنی اذیت پہنچائی کہ آپ (ص) نے جناب ابو طالب (ع) اور جناب خدیجہ (س) کی رحلت کے سال کو عام الحزن کا نام دیا۔
الغدیر، ج 7، ص 373 و ص 673
دلائل ايمان ابو طالب (ع):
الاصبغ بن نباته قال: سمعت أمير المؤمنين صلوات الله عليه يقول: والله ما عبد أبي ولاجدي عبدالمطلب ولاهاشم ولا عبد مناف صنما قط، قيل له: فما کانوا يعبدون؟ قال: کانوا يصلون إلي البيت علي دين إبراهيم عليه السلام متمسکين به.
اصبغ ابن نباتہ کہتا ہے کہ امير المؤمنين (ع) نے فرمایا کہ: خدا کی قسم ہرگز میرے والد، میرے داد عبد المطلب، ہاشم اور عبد مناف نے بتوں کی عبادت نہیں کی، پس ان سے کہا گیا کہ : پس پھر وہ کس کی عبادت کرتے تھے ؟ علی (ع) نے فرمایا: وہ کعبے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے اور وہ دین ابراہیم پر تھے اور اسی دین کی پیروی کرتے تھے۔
کمال الدين ج1 ص174-175 باب 12 –ح32
علامہ امينی نے حضرت ابو طالب کے اس دنیا میں آخری الفاظ کو ایسے ذکر کیا ہے:
يا معشر بني هاشم اطيعوا محمدا و صدّقوه تفلحوا و ترشدوا،
اے بنی ہاشم محمد کی اطاعت کرو اور اسکی تصدیق کرو تا کہ تم کامیاب اور ہدایت پا سکو۔
الغدير، ج 7، ص 367
اور یہ بھی کہا: محمد قریش کا امین ہے، عرب کا سچا انسان ہے، اسکی ذات میں تمام کمالات پائے جاتے ہیں۔ دل اس پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن زبانیں ڈر و خوف سے سوچ میں پڑی ہیں، اور آخر میں کہا: اس (محمد) سے محبت کرو اور محمد کی حمایت کرنے والے گروہ میں سے ہو جاؤ۔
الغدير، ج 7، ص 366
سيره حلبي، ج 1، ص 291
حضرت ابو طالب تقریبا 50 سال کی انتھک محنت و زحمت کے بعد بستر موت پر پڑ گئے اور 80 سال کی عمر میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔
تاریخ طبري، ج 2، ص 277.
زیارت نامہ حضرت ابو طالب (ع):
الـسـلام عـلـیـک یا سید البطحاء وابن رئیسها, السلام علیک یاوارث الکعبة بعد تاسیسها, السلام عـلیک یا کافل الرسول وناصره , السلام علیک یا عم المصطفی واءبا المرتضی , السلام علیک یا بیضة الـبـلد, السلام علیک اءیها الذاب عن الدین ,والباذل نفسه فی نصرة سید المرسلین , السلام علیک وعلی ولدک اءمیرالمؤمنین ورحمة اللّه وبرکاته .
اے بطحا (مکہ) کے سردار اور اس کے سردار کے بیٹے، آپ پر سلام۔ اے کعبہ بننے کے بعد اس کے وارث آپ پر سلام۔ اے رسول کی نصرت و کفالت کرنے والے آپ پر سلام۔ اے محمد مصطفی کے چچا اور علی مرتضیٰ (ع) کے والد آپ پر سلام۔ سلام ہو آپ پر اے بیضۃ اللہ (شہر مکہ کے سب سے بڑے آدمی) سلام ہو آپ پر اے دین حنیف کا دفاع کرنے والے اور سید المرسلین (ص)کی نصرت میں اپنے نفس کی قربانی دینے والے۔ سلام ہو آپ پر اور آپ کے فرزند امیر المومنین پر اور (آپ سب پر) خدا کی رحمت و برکتیں ہوں۔
آداب حرمین، ص 274