
شکست دشمن کا مقدر، اسلامی جمہوریہ ایران کو فتح مبارک
اس فتح پر شہید تہرانی مقدم سمیت ان گمنام ہیروز کو ضرور یاد کیا جانا چاہیئے، جنہوں نے میزائل ٹیکنالوجی کا آغاز کرنے اور یہاں تک پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان سائنسدانوں کو ضرور یاد کرنا چاہیئے، جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کی اور اسلامی جمہوریہ ایران کیلئے عظیم کارنامے سرانجام دیئے۔ رہبر معظم دام عزہ کی قیادت میں بہترین فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ آج ایران سرخرو اور سربلند ہے۔ خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہوچکا ہے، نئی حقیقتیں سامنے آچکی ہیں۔ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، جس نے اہل ایمان کی نصرت فرمائی اور اپنے لشکروں کو کامیابیوں سے نوازا۔ اللہ ان شہدائے اسلام کی قربانیوں کو قبول فرمائے، جو اس اسرائیلی جارحیت میں شہید ہوئے۔ ان کا پاکیزہ لہو انقلاب کی جڑیں مضبوط کر گیا
شیعہ نیوز: جنگ کا آغاز ہوا اور بڑا دردناک آغاز تھا۔ تقریباً ساری اعلیٰ فوجی قیادت کو شہید کر دیا گیا۔ حملے اس قدر کامیاب تھے کہ اہل ایمان مضطرب ہوئے اور شیطان کے پیروکار خوشیاں منا رہے تھے۔ ایک نہیں ایک سو ایک طعنے دینے والے خود ساختہ تجزیہ نگار سامنے آچکے تھے۔ تہران کی فضا میں اسرائیلی طیاروں کی گھن گرج تھی۔ بین الاقوامی میڈیا حسب سابق اسرائیل کی جارحیت کی بجائے اس کی کامیابیوں کے گن گا رہا تھا۔ اس وقت ہم نے قرآن مجید کی یہ آیت شریفہ لکھی تھی: "وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ” (آل عمران ۵۴ ) "ان لوگوں نے (عیسیٰ کے قتل کی) تدابیر سوچیں اور اللہ نے (بھی جوابی) تدبیر فرمائی اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔” ہمیں اللہ کی تدبیر پر یقین تھا۔ اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی ادارے امریکہ کی لونڈی بنے ہوئے تھے۔ اسلامی ممالک کے حکمرانوں میں بعض کے دل ایران اور غالب اکثریت کی طاقت اسرائیل کے ساتھ تھی۔ زبانی جمع خرچ اس میں بھی مذمت کی بجائے اکثر نے تشویش کا لفظ استعمال کیا تھا۔
چند گھنٹوں کے وقفے کے بعد اللہ کے لشکر میدان میں تھے۔ رہبر معظم کا فرمان آگیا کہ ہم تسلیم نہیں ہوں گے۔ جنگ کا ہر گزرتا دن اسرائیل کو برباد کر رہا تھا۔ اہل ایمان کے دل سکون پا رہے تھے۔ امت جو ایک مدت سے غزہ کے درد کو محسوس کر رہی تھی، اب سکون پا رہی تھی۔ ظالموں کو تکلیف محسوس کروا کر انہیں بتایا جا رہا تھا کہ گھر گر جانے اور گھر کے کسی ممبر کے چلے جانے کا دکھ کیا ہوتا ہے۔؟ یہ بات تقریباً طے ہوچکی تھی کہ ایران لمبی جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ پاکستان میں بھی کچھ فکری احمق رجیم چینج کی باتیں کر رہے تھے اور کچھ شاہ ایران کے بھگوڑے بیٹے کو تخت تہران پر بٹھا بھی چکے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کو شکست دینا ممکن نہیں، علامہ جواد نقوی
اہل ایران اور بالخصوص اہل تہران نے عزیمت کی بے مثال تاریخ رقم کی۔ دنیا کے گھنڈوں نے کہا کہ تہران چھوڑ دیں مگر اہل تہران پوری قوت کے ساتھ میدان میں موجود رہے۔ ہر طرح کی قربانی دیتے رہے، مگر نظام کے ساتھ کھڑے رہے۔ دشمن کو توقع تھی کہ ایران کی عوام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوگی، مگر اللہ کی تدبیر کامیاب ہوئی اور لوگ اپنی ریاست کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ حیران کن طور پر ایران میں کوئی ایک مظاہرہ تک نہیں ہوا۔ ایران ٹی وی کی لائیو ٹرانسمیشن میں جس طرح شیر دل ایرانی خاتون نے نیوز روم کو سنبھالا، وہ حیران کن تھا۔ اس سے دنیا کو ایرانی خواتین کی جرات و بہادری کا پتہ چلا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ایران کے مرد ہی نہیں، خواتین بھی کردار زینبی کی حامل ہیں۔
جنگ کے آخری حصے میں جب امریکہ نے براہ راست حملہ کر دیا تو دشمن خوش ہوئے کہ اب قصہ پار سمجھو، اب تو امریکہ براہ راست کود پڑا ہے۔ کچھ نام نہاد صلح پسند جو دنیا کی ہر دانش کے اکیلے علمبردار ہونے کے دعویدار ہیں، انہوں نے مولویوں کو گالیاں نکالنے کی ذمہ داری سنبھال لی۔ وہ علماء کو عقل و شعور سے عاری اور سفارتکاری سے نا آشنا قرار دے رہے تھے۔ کچھ نے یہ تک لکھ دیا کہ اب کہانی ختم ہوگئی۔ کل رات جب اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکی اہداف پر حملے شروع کیے تو انہوں نے کہا یہ تو عرب، امریکہ اور اسرائیل مل کر ایران پر حملے کریں گے۔ مولویوں کو جانے کی جلدی ہے، کچھ خونی لبرلز نے مذہبی حکومت خدا حافظ کی پوسٹیں لگانا شروع کر دیں۔
انہیں بتایا گیا ذرا ٹھنڈا کرکے کھائیں۔ امریکہ نے عقل مندی کی اور جنگ کو نہ بڑھانے کا اعلان کر دیا۔ اسرائیل کو جتنی سزا دی جا چکی ہے، یہی کافی ہے۔ اب اسرائیل کے اندر کا شور ہی نیتن یاہو کو لے ڈوبے گا۔ امریکہ اور اسرائیل بالکل قابل اعتبار نہیں ہیں اور یہ جنگ بندی اگلی جنگ کے شروع ہونے تک کے درمیان کا وقفہ ہے۔ یہ جنگ کون جیتا، یہ بڑا ہی اہم سوال ہے۔؟ پروفیسر تاج محمد بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد میں ہوتے ہیں، بہت ہی دلچسپ لکھتے ہیں، ان کی تحریر پوری صورتحال کی عکاسی کرتے معلوم ہوتی ہے: ایران، اسرائیل+امریکہ حالیہ کشیدگی کو شیعہ سنی اینگل سے دیکھنے سے ایران کو کوئی نقصان اور اسرائیل کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ اس سے آپ کی چھوٹی سوچ اور محدود ویژن آشکار ہو جاتا ہے۔ جنگ میں نفع نقصان کے تخمینے بعد میں لگائے جائیں گے، اس جنگ میں جو ٹارگٹ دونوں طرف رکھے گئے تھے، ان کو سامنے رکھیں تو ایران اس جنگ کا فاتح ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شیعہ سنی آپس میں مل کر رہتے، مسئلہ تکفیریوں کا ہے، علامہ مقصود ڈومکی
اسرائیل اور امریکہ نے دو بڑے اہداف رکھے تھے۔ (1) ایران کی جوہری صلاحیت ختم کر دینا (2) ایران میں رجیم چینج۔ اول الذکر ہدف میں مکمل کامیابی نہیں ملی، البتہ اتنا ہوا ہے کہ ایران کی جوہری صلاحیت حاصل کرنے کا سفر سست ہوگیا ہے اور ثانی الذکر ہدف کے حصول میں ان دونوں طاقتوں کو مکمل ناکامی ملی ہے۔ ایران کا بنیادی ہدف اپنا دفاع اور اسرائیل کو سزا دینا تھا۔ ایران نے، مادی لحاظ سے اسرائیل اور امریکہ دونوں سے کمزور ہونے کے باوجود، بہت موثر انداز میں اسرائیل کو سبق سکھایا ہے۔ غزہ کے جو مناظر ہمیں تکلیف دیتے تھے، تقریباً اس طرح کے مناظر تل ابیب میں دکھا کر ایران نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل ناقابلِ تسخیر نہیں ہے۔ وہ تو آس پاس کے عرب "وھن” کا شکار ہیں، ورنہ القدس اور اس کے مضافات سے عربوں کے کزنز کو نکال باہر کرنا اتنا بھی مشکل نہیں ہے۔
ایران میں امریکی کارروائی اور جواب میں قطر میں امریکی اڈے پر ایرانی کارروائی کو کچھ لوگ فکس میچ کہتے ہیں۔ میں فکس میچ کے نظریئے کو مانتے ہوئے اس کو بھی ایران کی کامیابی سمجھتا ہوں۔ امریکہ جیسے متکبر شیطان کو فکس میچ پر راضی کرنا اپنی ذات میں ایک کامیابی ہے۔ باقی آپ لوگ شیعہ سنی کھیلتے رہو! حقیقت اور سچ کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ایران اسرائیل جنگ کے دوران پاکستانی معاشرے میں بے مثال یکجہتی دیکھنے کو ملی ہے۔ شیعہ سنی باہم شیر و شکر ہوگئے، سب نے اپنی اپنی بساط کے مطابق ایران کی حمایت میں آواز اٹھائی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست پاکستان ہر مقام پر اپنی عوام کی آواز بنی اور ایران کو بھی محسوس ہوا کہ کوئی ہمارے ساتھ ہے۔ اسی لیے ایرانی پارلیمنٹ میں تشکر تشکر پاکستان کے نعروں کی گونج رہی۔ ہمیں اس اتحاد و وحدت کو قائم رکھنا ہے اور اسے فرقہ پرستی سے بچائے رکھنا ہے۔
فرقہ پرستوں کی دال روٹی امت کو لڑانے میں ہے، اسی لیے وہ کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیتے ہیں۔ اب قطر میں امریکی بیس پر حملے کو لے کر یہ پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں کہ ایک سنی عرب ریاست پر جان بوجھ کر حملہ کیا گیا ہے۔ جناب یہ قطر پر نہیں، امریکی بیس پر حملہ تھا اور ایران نے بین الاقوامی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے قطر کو پہلے آگاہ کر دیا تھا۔ معروف قانون دان پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق نے خوب لکھا ہے: چونکہ جنگ بندی کے آثار نظر آنے لگے ہیں، اس لیے وہ تجزیہ کار جو ابھی کل تک ایران پر اسرائیلی و امریکی جارحیت کے خلاف بول رہے تھے، اب واپس فرقہ وارانہ تعصب کا اظہار کرنے لگے ہیں اور اب آپ کو جا بجا ان کی والز پر ایسے تجزیئے نظر آئیں گے کہ یہ سب ٹوپی ڈراما تھا، فکسڈ میچ تھا، وغیرہ لیکن سچ پوچھیں، تو ان کا مسئلہ فرقہ وارانہ نہیں، بلکہ انھوں نے اپنے فرقے کے ملک کے ساتھ اپنی وفاداری کے حلف کی تجدید کرنی ہے، کیونکہ پیٹ پاپی ہے، اس لیے یہ تجزیئے نہیں، بلکہ اصل میں پرانی تنخواہ پر بحالی کی درخواستیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ دوبارہ جھوٹا ثابت ہوا، امریکہ نے ایران سے رابطہ کرنے کی درخواست کی، قطر
اس فتح پر شہید تہرانی مقدم سمیت ان گمنام ہیروز کو ضرور یاد کیا جانا چاہیئے، جنہوں نے میزائل ٹیکنالوجی کا آغاز کرنے اور یہاں تک پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان سائنسدانوں کو ضرور یاد کرنا چاہیئے، جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے عظیم کارنامے سرانجام دیئے۔ رہبر معظم دام عزہ کی قیادت میں بہترین فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ آج ایران سرخرو اور سربلند ہے۔ خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہوچکا ہے، نئی حقیقتیں سامنے آچکی ہیں۔ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، جس نے اہل ایمان کی نصرت فرمائی اور اپنے لشکروں کو کامیابیوں سے نوازا۔ اللہ ان شہدائے اسلام کی قربانیوں کو قبول فرمائے، جو اس اسرائیلی جارحیت میں شہید ہوئے۔ ان کا پاکیزہ لہو انقلاب کی جڑیں مضبوط کر گیا، ان شاء اللہ۔
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس