مضامین

مدافعان حرم۔۔ عاشقان پاک طینت

شیعہ نیوز:
اے کاش، اے کاش، اے کاش۔۔۔۔اے کاش ہم بھی کربلا میں ہوتے اور حضرت ابا عبد اللہ الحسینؑ اور ان کے خانوادہ عصمت و طہارت کی مقدس ہستیوں پر اپنی جان نچھاور کر دیتے، اپنی قیمتی ترین متاع یعنی جان کو جان آفرین کے سپرد کرتے، اس راہ میں جو فرزند رسولؑ نے دکھائی تھی۔ اے کاش ہم بھی امام عالی مقام امام حسینؑ کی صدائے ہل من پر لبیک کہتے ہوئے میدان کربلا میں پہنچ جاتے اور شہداء کی طرح تیروں، تلواروں اور نیزوں کے زخموں سے چور ہو کر اپنے خون کا غسل کرکے بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوتے۔ ہم بھی سرخرو ہوتے، ہم بھی خوش بخت ہوتے، ہم بھی خوش نصیب ہوتے، ہمارا بھی سب سے افضل شہداء کی فہرست میں نام ہوتا۔ یہ وہ خیالات ہیں جو اکثر ہم سوچتے ہیں، اپنی زبان سے دہراتے ہیں، زیارت پڑھتے ہوئے، باتیں کرتے ہوئے، ذکر کربلا کرتے ہوئے، اپنی محافل میں، اپنی مجالس میں۔

پھر یہ خیال آتا ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں، اس لئے کہ ہمیں خداوند قدوس نے اکسٹھ ہجری سے پہلے پیدا ہی نہیں کیا تھا۔ ہم تو کربلا سے بظاہر چودہ صدیوں کے فاصلے پر ہیں۔ ہم تو کوسوں، میلوں نہیں صدیوں کی مسافت پر کھڑے ہیں، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم یہ تڑپ اور یہ خواہش دل میں لیئے ہوئے ہیں۔ اس کا سیدھا سادھا سا جواب تو موجود ہے، وہ جواب جو امام حسینؑ نے ہمیں میدان کربلا سے دیا ہے۔ وہی درس جس کی وجہ سے ہم آج بھی ان کی یاد ایسے ہی مناتے ہیں، جیسے یہ آج کا واقعہ ہو، جیسے ابھی ہمارے سامنے ہمارا امامؑ شہید کیا گیا ہو، جیسے ابھی نبی زادیوں کو ننگے سر پالانوں کے بغیر اونٹوں پر ہاتھ پس پشت باندھے رسیوں میں جکڑ کر بازاروں اور درباروں کی جانب لے جایا جا رہا ہو۔ تاریخ انسانی میں کربلا بہت ہی خاص الخاص تھی، ذرا نظر تو دوڑائیں کہ اس میں کون شامل تھا اور کون رہ گیا تھا۔؟

اکسٹھ ہجری کی کربلا منتخب شدہ لوگوں کا ایسا اکٹھ تھا، جس میں امیر المومنین امام علیؑ کے سپہ سالار اور باوفا صحابی مالک اشتر کا فرزند بھی شامل ہونے سے رہ جاتا ہے اور اپنے عظیم و باوفا باپ کی شجاعت کے وارث ابراہیم اشتر کو بھی موقعہ نہیں ملتا، حالانکہ وہ زندہ و جاوید تھا، حالانکہ وہ علمدار لشکر عباس باوفا کا قریبی دوست کہا جاتا تھا، اس کے باوجود وہ لشکر امام کا حصہ نہیں ہوتا۔ ایک اور صحابی رسولؐ کے فرزند جنہیں تاریخ امیر مختار کے نام سے جانتی و پہچانتی ہے، وہ بھی اس وقت موجود ہونے کے باوجود لشکر امام حسینؑ کا حصہ نہیں بن پاتے۔ ہم یہاں ان وجوہات کی جانب نہیں جاتے کہ کیا وجوہات تھیں، بات اسی تک محدود رکھتے ہیں کہ کربلا میں لشکر امام حسینؑ میں شامل ہونے والے سب کے سب خدا کے منتخب اور اپنے وقت کے افضل ترین، عالی ترین لوگ تھے۔

اب ذرا منظر بدلتے ہیں، چودہ صدیوں کی مسافت سے ہم نے کربلا کا پیغام سن لیا، پڑھ بھی لیا، ہم نے اپنے جذبات کا اظہار بھی کر لیا، اپنے محسوسات کا ادراک بھی کر لیا، ہم نے اے کاش، اے کاش کی گردان بھی یاد کر لی اور اسی دوران ہمیں پتہ چلا کہ یزید جو اکسٹھ ہجری میں امام حسینؑ کے مدمقابل تھا، آج بھی اپنی نئی شکل کیساتھ سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔ اس دور کے یزید نے اپنا نام داعش رکھا ہے اور یہ علی الاعلان کہہ رہا ہے کہ وہ اسلامی خلافت کا وارث ہے، وہ اپنی خلافت کے زور پر، اپنی طاقت و قوت اور دنیا بھر سے اسے ملنے والی مدد کے بل بوتے پر چودہ صدیوں قبل کربلا کا میدان سجانے والوں کی قبریں اکھاڑ دیگا۔ گویا ایک بار پھر خانوادہ نبوت و رسالت کی مقدس ہستیوں کو تہہ تیغ کرکے ان کے اہل بیتؑ کو اسیر کر لے گا، وہ مسجد کے محراب میں کھڑا ہوا چیختا ہے، چلاتا ہے، چنگھاڑتا ہے کہ وہ ایسا کریگا اور پھر اکسٹھ ہجری کی طرح فتوے باز قاضی شریح کی نسل والے اسے فتوے بھی دیتے ہیں، اسے کھلی چھٹی بھی دیتے ہیں اور اس کے ناپاک ہاتھوں سے بیعت کا طوق بھی اپنے اپنے گلے میں ڈالتے ہیں۔

اکسٹھ ہجری اور اب کی بار ایک فرق بڑا واضح ہے کہ تب ذرائع رسل و رسائل اور پیغام رسانی کا کوئی فوری ذریعہ نہیں تھا، ایک جنگل، ایک صحرا میں بہتر کے لشکر پر ہزاروں کی تعداد میں وقت کے حاکم نے فوجی چڑھائی کی تھی اور اپنی طرف سے ایسا انتظام کیا تھا کہ جن لوگوں نے اپنی آنکھوں سے رسول خدا کو امام حسینؑ کے ساتھ محبت کرتے دیکھا تھا اور ان کی فضیلت و بلند مقام کی احادیث سن رکھی تھیں وہ وقت کے حاکم کے پراپیگنڈہ کا شکار ہوگئے تھے اور فرزند رسولؑ کے مقابل آن کھڑے ہوئے تھے۔ یہاں تو ایسا کچھ نہیں تھا، یہاں تو سب پر واضح تھا، یہاں تو ہر ایک چیز روز روشن کی طرح عیاں تھی، یہاں تو حملہ آور دنیا بھر سے جمع کئے گئے تھے اور سب کے سامنے اپنی یزیدیت کا اظہار کر رہے تھے، ان میں سفاکیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی، ان میں درندگی کا اظہار کرنے کا جنون تھا، یہ اپنی سفاکیت، دہشت گردی، خون کی پیاس، انسانوں کو چیتھڑوں میں بدل دینے کے انداز اور طریقے ظاہر کر کے لطف لینے کا شوق کوٹ کوٹ کے بھرا تھا۔

وہ بہت ہی کھلے دل سے، بلا کسی رکاوٹ اور جھجھک کے کر رہے تھے، انہیں کسی نے روکا نہ ٹوکا، اس لئے کہ جو مہذب کہلاتے ہیں، وہی تو سب کچھ کروا رہے تھے، ایسے میں ہی کچھ درد دل رکھنے والے آگے بڑھے، کچھ دیوانے چراغ ہدایت پر نچھاور ہونے کیلئے منڈلاتے، خوشبو کو پاتے اپنے محبوب اور مقدس مقام پہ پہنچ گئے، یہی لوگ تھے، جنہوں نے عہد کیا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنے مقدس اور ارفع مقام کا دفاع کریں گے، کسی بھی قیمت پر، حتیٰ اپنی جانوں کو قربان کرکے، اپنے خون سے عہد وفا نبھا کر، اپنی لاشوں کو کربلا والوں کی طرح نیزوں کی انیوں سے، تلواروں کی چمک سے اور تیروں و تفنگ سے اپنے امامؑ کی سنت ادا کرتے ہوئے اپنے وطنوں سے دور اپنے روحانی و معنوی وطن میں جا کر نئے دور کی کربلا کی تاریخ کا حصہ بننے کا فیصلہ اور حوصلہ کرنے والے یہ قافلہ عشاق کے مردان ِحر نئی مثال پیش کرنے کو پہنچے تھے۔

وہ لوگ جو یزیدیت کا علم بلند کرکے سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کو ایک بار پھر اسیر کرنا چاہتے تھے، ان کے ہاتھوں کو توڑ دینے کا عزم لئے، ہجرت کا درد سینے میں سجائے، اپنی امتحان گاہ پہنچے تھے، لوگوں نے ان کو کئی نام دیئے، ان کو طعنے اور الزام دیئے، ان پر فتوے اور تہمتیں باندھیں، مگر یہ منتخب شدہ لوگ تھے، یہ اپنے راستہ اور منزل سے آگاہ تھے، یہ شہادت کے متمنی تھے، یہ کربلائی تھے، یہ زینبی تھے، یہ حسینی تھے، یہ خیمہ حسینؑ کے محافظین تھے، یہ مدافعان حرم تھے، یہ اہل دل تھے، اہل معرفت تھے، اہل شعور تھے، اہل درد تھے، اس مادی اور چکا چوند دنیا میں یہ مہمان کی طرح آئے تھے اور اگلی منزل پر پہنچنے کیلئے ان کی بے قراری انہیں ایک دیس سے دوسرے دیس تک لے آئی تھی، ان کا جینا اور مرنا کربلائی اور زینبی تھا۔

ان کی تعداد بھی اس بھری دنیا میں کچھ زیادہ نہ تھی، بلکہ یہ گنے چنے سے لوگ تھے، بائیس کروڑ کے اس ملک سے کتنے لوگ تھے؟ شائد انگشت شمار، اس کے باوجود یزیدیوں کو ان کا کردار قبول نہ تھا، ہجرت کے درد سینے میں سجائے یہ مہمان کے طور پر اپنے خون کا ہدیہ پیش کرتے رہے اور مہمان کے طور پر ہی اپنے آبائی وطن سے دور سپرد لحد ہوئے، مدافعان حرم ہم ہی میں سے تھے، ہمارے جیسے جسم و جان رکھتے تھے، ہماری ہی زبان بولتے تھے، ہماری ہی روایات و ثقافت کے امین تھے، ہمارے ہی گرد و پیش میں ہوتے تھے، مگر یہ بات طے ہے کہ یہ لوگ سبک رفتار تھے، ہم سے تیز چلنے والے تھے، ہم سے آگے بڑھنے والے تھے، ہم سے آگے بڑھ گئے، ہم ایک بار پھر پیچھے رہ گئے، ہم ایک بار پھر عزت، غیرت، حمیت، شجاعت و سربلندی میں ان سے مات کھا گئے، ہم سوچتے رہ گئے اور فیصلہ کرنے سے قاصر رہ گئے، مدافعان حرم کا اعزاز ان کے حصہ میں آیا، جو اس کے اصل حقدار تھے۔
خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را
تحریر: ارشاد حسین ناصر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button