ڈیرہ اسماعیل خان شیعہ کاروباری افراد کی قتل گاہ
شیعہ نیوز:ڈیرہ شہر کے بازاروں میں شیعہ کاروباری افراد کا اثر و رسوخ اور کاروبار وسیع ہوا کرتا تھا۔ انجمن تاجران کے کلیدی عہدوں پر بھی رہتے تھے۔ پھر تکفیری کتے کاروبار اور انجمن تاجران میں شامل ہوۓ پہلے مرحلہ میں انجمن تاجران کے عہدیداروں کو چن چن کر قتل کیا گیا پھر عام دکانداروں کا نمبر آیا۔ اب انجمن تاجران پر تکفیری کتوں کی اجارہ داری ہے اور شیعہ کاروباری افراد بازاروں میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتے ہیں۔
زیدی سادات شہر کے قریب سیاسی و سماجی طور پر مضبوط اور اعلٰی سرکاری عہدوں پر ہوا کرتے تھے۔ ان کا بھی قتل عام کیا گیا اور یوں شہر کی اس قریبی آبادی سے نا صرف شیعہ اثر و رسوخ ختم ہوا بلکہ زندگیاں بچانے کے لیے انہیں اپنی جاٸیدادیں اونے پونے بیچنی پڑی اور پسندیدہ لوگوں کو یہاں آباد کیا گیا۔
نیو ڈیرہ ٹاٶن شپ، میڈیکل کالج، مفتی محمود ہسپتال اور باٸی پاس کی وجہ سے اس علاقہ کی زمینیں کمرشل اور قیمتی ہونی شروع ہوٸی تو کوٹلہ سیدان کے کاظمی خاندان کا قتل شروع ہوا۔ یہ خاندان اس علاقہ سمیت دریاۓ سندھ تک کے رقبوں کی ملکیت رکھتا تھا۔ انہیں قتل کیا گیا، اپنے ایریا تک محدود کیا گیا، کاروبار تباہ کیے گۓ تو انہوں نے بھی معاشی اور جانی مجبوریوں کے تحت رقبے بیچنا شروع کر دٸیے۔ اب اس علاقہ میں خال خال ہی کمرشل زمین ان سادات کی ملکیت بچی ہے۔
ڈیرہ کے جنوبی طرف انڈسٹریل زون سالوں بے کار پڑا رہا۔ یہاں کے شیعہ زمین دار امن میں سانس لیتے رہے ہیں۔ انڈسٹریل ایریا میں ڈویلیپمنٹ کا عمل شروع ہوتے ہی ان شیعہ بلوچ زمین داروں کا قتل عام شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ زمینیں بھی مہنگی ہونے جا رہی ہیں۔ ان کے مالکوں کو قتل کر کے خوفزدہ کیا جا رہا ہے یہ بیچ رہے ہیں اور پسندیدہ لوگ خرید رہے ہیں۔
شمالی ڈیرہ کے شیعہ ابھی تماشا دیکھ رہے ہیں ذرا کلورکوٹ سے ڈھکی اور پھر سی پیک کا روٹ بننے دو پھر تمہاری بھی خیر نہیں ہے۔
عمار یاسر کاظمی