ڈی آئی خان سے 5 جوان داعش میں شمولیت کیلئے گھر سے فرار
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پانچ نوجوان لڑکے اچانک کہیں چلے گئے ہیں اور ان کے بارے میں ان کے والدین کو بھی کچھ معلوم نہیں ہے کہ وہ کہاں گئے ہیں۔ غریب والدین کے پانچ لڑکے اپنے اپنے گھروں میں چٹھی لکھ کر چھوڑ گئے ہیں کہ وہ جہاد پر جا رہے ہیں اور اب شاید اس زندگی میں ملاقات نہ ہو سکے اور وہ جنت میں ملیں گے۔
تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ ٹانک روڈ پر چہکان کے علاقے میں تین روز پہلے پیش آیا جب پانچ لڑکے زاہد، دلاور، جمیل، ساجد، اور کامران داعش کے جہاد میں شامل ہونے کیلیےگھر چھوڑ کر روانہ ہوگئے ہیں۔ بظاہر والدین اور پولیس کا کہنا ہے کہ علاقے کا ہی کوئی شخص ان لڑکوں کو ساتھ لے گیا ہے اور ایسی اطلاعات ہیں کہ یہ لڑکے قبائلی علاقوں میں یا افغانستان کی جانب گئے ہیں۔ گذشتہ سال بھی ڈیرہ اسماعیل خان سے 9 جوان لڑکے انہی دنوں میں اچانک کہیں چلے گئے تھے۔
شاہ نواز گاؤں میں مٹی کے کچے برتن بناتے ہیں۔ ان کے دو بیٹے دلاور اور ساجد بھی والد کے ساتھ یہی کام کرتے تھے۔ دلاور 12 جماعت پاس ہے جبکہ ساجد نے نویں جماعت کے بعد تعلیم چھوڑ دی تھی۔ شاہ نواز نے بتایا کہ وقوعہ کے دن دونوں لڑکے صبح کے وقت کام کرتے رہے، دوپہر کو اچانک کہیں چلے گئے تھے اور ایک پرچی چھوڑ گئے تھے جس پر لکھا تھا کہ وہ جہاد کیلئے جا رہے ہیں اور اب شاید اس دنیا میں ملاقات نہ ہوسکے اور اب جنت میں ملاقات ہوگی۔ ان کے ایک بیٹے کی عمر 15 سال اور دوسرے کی عمر 19 سال بتائی گئی ہے۔ شاہ نواز نے بتایا کہ انہیں ایسی کوئی اطلاع نہیں تھی کہ ان کے بچے کیا کر رہے ہیں اور نہ ہی بچوں نے گھر میں کوئی ایسا ذکر کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ چھوٹا بیٹا کچھ عرصہ ایک نجی سکول میں پڑھتا رہا ہے جبکہ بڑا بیٹا سرکاری سکول میں زیر تعلیم رہا ہے۔ ان کے بچوں نے ابتدائی طور پر قران کی تعلیم گھروں میں پڑھانے والی خواتین سے حاصل کی تھی جس کے بعد انہوں نے تصحیح کیلئے مدرسہ جانا شروع کر دیا تھا جہاں ان کی ملاقات محمد زاہد سے ہوئی تھی جو انہیں قران کی تعلیم دیتا تھا اور اب یہی ان بچوں کو جہاد کیلیے لے کر چلا گیا ہے۔
شاہ نواز نے بتایا کہ وہ خود ان پڑھ ہے، غریب ہے، کچھ نہیں جانتا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا بس یہ کچے برتن اور مٹکے بناتے ہیں جس سے دو وقت کو روٹی کا سلسلہ چل جاتا ہے۔
اسی طرح چہکان دیہات میں کریانے کی دکان پر کام کرنے والے محمد اسماعیل نے بتایا کہ ان کا ایک بیٹا محمد جمیل بھی اسی روز سے غائب ہے اور وہ بھی گھر میں چٹھی چھوڑ گیا ہے۔ اس چٹھی پر لکھا ہے کہ ’میرے پیارے والدین سب سے پہلے میں آپ سے معذرت کرتا ہوں کہ آپ کو ساری زندگی کیلئے چھوڑ کر جا رہا ہوں۔‘
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک ہی خط لکھا گیا ہے جو تمام لڑکوں نے اپنے گھروں میں چھوڑا ہے۔ اس خط میں لکھا ہے کہ ان کا ساتھی انیس الرحمٰن گذشتہ سال انہیں ساتھ نہیں لے گیا تھا لیکن اب وہ اپنے ساتھ افغانستان لے کر جا رہا ہے۔ بیٹے کے جانے کی خبر سن کر محمد جمیل کی والدہ بے ہوش ہوگئیں۔
انہوں نے بتایا کہ محمد جمیل کی عمر 16 برس تک ہے اور گذشتہ سال اس کی شادی بھی کر دی گئی تھی۔ محمد جمیل کی ایک بچی بھی چند روز پہلے پیدا ہوئی ہے۔ ان کا بیٹا قرآن پاک حفظ کر رہا تھا لیکن شادی کے بعد بیٹے نے چچا کا کاروبار سنبھال لیا تھا اب وہ سب کچھ چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے تمام معلومات حاصل کر لی ہیں اور اس بارے میں مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ گذشتہ سال چھوٹی عید کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے 9 لڑکے اسی طرح چلے گئے تھے جن میں سے 2 لڑکے واپس آ گئے تھے۔
پولیس کے مطابق ان میں سے 2 لڑکے محرم کے شروع کے دنوں میں واپس آئے تھے جنہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی جس میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا۔ پولیس نے دونوں لڑکوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ لاپتہ لڑکوں کے والدین نے بتایا کہ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے ان کے بچوں کا کچھ علم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں، جبکہ اس ایک سال کے دوران پولیس بار بار ان سے تفتیش کرتی رہی کہ لڑکے کہاں ہیں جبکہ وہ خود اپنے بچوں کیلئے پریشان ہیں۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ان علاقوں میں والدین اپنے بچوں کے حوالے سےپریشان ہیں کہ ان کے بچوں کو چند مشتبہ افراد ورغلا کر کہیں لے جاسکتے ہیں۔ اس بارے میں والدین کے مطابق اعلٰی حکام کو بھی اطلاع دی جاچکی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی سرحدیں ایک طرف ضلع ٹانک اور جنوبی وزیرستان سے ملتی ہیں تو دوسری جانب نیم قبائلی علاقے درازندہ اور کوہ سلیمان کے پہاڑ ہیں، جنوب اور جنوب مشرق میں صوبہ پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان اور بھکر شہر ہیں۔ مشرق میں دریائے سندھ ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے ایک راستہ بلوچستان کے شہر ژوب کی جانب جاتا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان چشمہ کے راستے میانوالی اور بنوں کے راستے پشاور سے بھی منسلک ہے۔ درابن روڈ اور ٹانک سے متعدد افراد کو اغواء بھی کیا جاچکا ہے جنہیں بعد میں وزیرستان سے بازیاب کرایا گیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے نوجوان لڑکوں کا اس طرح سے اچانک غائب ہونا یا شدت پسندی کی جانب چلا جانا ایک لمحہ فکریہ ہے اور اس سے ایسا لگتا ہے کہ ان لڑکوں کی ذہن سازی کی جا رہی ہے اور یہ لڑکے پرتشدد کے واقعات میں ملوث ہوسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ شام اور عراق میں بدترین شکست کے بعد داعشی دہشتگرد افغانستان میں جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں اور داعش میں نئی بھرتیوں کیلیے پاکستان، افغانستان اور دیگر قریبی ممالک سے نوجوانوں کو ورغلا کر اس دہشتگرد تنظیم میں بھرتی کیا جارہا ہے۔