مضامین

غزہ سے تل ابیب تک انسانی حقوق کے دوغلے معیار

غزہ خاک و خون میں غلطاں ہے۔ مظلوم اور بے سہارا بچے غاصب صیہونی رژیم کی قاتل رژیم کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہو رہے ہیں جبکہ ان کے گھرانے طاقت کے زور پر اپنا گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور کئے جا رہے ہیں تاکہ غاصب صیہونی رژیم اپنے مقاصد حاصل کر سکے۔ کئی عالمی اداروں نے غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر خبردار کیا ہے اور بہت سے نیوز رپورٹرز نے بھی غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے اپنی جان کو درپیش خطرات کے باوجود لمحہ بہ لمحہ غزہ میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی کی تصاویر دنیا والوں تک پہنچائی ہیں۔ وہ اس امید پر اپنی جان پر کھیل کر غزہ سے رپورٹنگ کرنے میں مصروف ہیں کہ شاید پتھر بنے دلوں میں کہیں انسانیت اور رحم کے جذبات پیدا ہو جائیں۔

صیہونی ذرائع ابلاغ گذشتہ ایک عرصے سے سیاسی اور میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے ظالم اور مظلوم کی جگہ تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں تاکہ یوں انسانی حقوق کے مغربی معیاروں کی بنیاد پر فلسطینیوں کی دوبارہ نسل کشی انجام دے سکیں۔ آج مقبوضہ فلسطین میں غزہ کی پٹی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ میڈیا ذرائع پر ایک عظیم انسانی سانحے کو چھوٹا کر کے پیش کرنا ہے جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بے سہارا خواتین اور بچوں کے قتل عام میں مصروف غاصب صیہونی رژیم پر انجام پانے والے حملوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف صیہونی رژیم کے فضائی حملوں کے نتیجے میں کمسن بچوں کے بے سر لاشوں کو اپنے دفاع کیلئے مشروع انتقام ظاہر کیا جا رہا ہے۔

اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اور اس کے مغربی حامی غزہ میں بسنے والے 20 لاکھ عام شہریوں کو انسان تک نہیں سمجھتے جو پانی، بجلی، ایندھن اور دوائیوں کے فقدان میں صیہونی رژیم کے وسیع فضائی حملوں تلے نسل کشی کا شکار ہیں لیکن دوسری طرف نیند کی حالت میں اسیر ہونے والا غاصب صیہونی فوجی بہت زیادہ قیمت رکھتا ہے۔ مغربی انسانی حقوق کے دوغلے معیار زندہ فلسطینی بچوں کو نذر آتش کر دینے کو محض فلسطینی ہونے کے جرم میں جائز قرار دیتے ہیں جبکہ فلسطینی عوام کے قتل عام میں مصروف جارح صیہونی فوجی کے خلاف کم ترین اقدام پر انسانی حقوق کی وارننگز جاری کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ پر صیہونی فوج کا زمینی حملہ ایسا انسانی سانحہ رونما ہونے کا باعث بنے گا جس کی مثال فلسطین کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔

ایسی صورت میں فلسطینی شہری ایک بار پھر اپنا گھر بار کھو دیں گے۔ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم غزہ پر حملوں کے دوران کسی بین الاقوامی قانون کا خیال نہیں رکھتی۔ وہ بچوں، خواتین اور حتی صحافیوں کو بھی اپنے حملوں کا بے دریغ نشانہ بنا رہی ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے انسانی حقوق کے تمام ادارے اور قوانین غزہ کی سرحد سے باہر تک ہی ہیں اور غزہ میں انجام پانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کسی کو دکھائی نہیں دیتیں۔ غزہ پر صیہونی ظلم و ستم اور جرائم ایسے وقت انجام پا رہے ہیں جب امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کے وزرائے خارجہ مقبوضہ فلسطین کے دوروں میں مصروف ہیں اور غاصب صیہونی رژیم سے بھرپور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی حمایت کا اعلان کر رہے ہیں۔

فرانسیسی حکومت نے ملک میں فلسطینیوں کے حق میں ہر قسم کے مظاہروں پر پابندی لگا رکھی ہے تاکہ کہیں انسانی حقوق کے اصول اور اقدار کو کوئی دھچکہ نہ پہنچ جائے۔ مغربی حکومتیں خانہ پری کیلئے بعض اوقات ایسے بیان دے دیتی ہیں جن سے ظاہر ہو کہ وہ اعتدال پسند ہیں۔ مثال کے طور پر غاصب صیہونی رژیم پر زور دیں گی کہ عام شہریوں کو حملوں کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ اسی طرح انسانی حقوق کے بعض عالمی ادارے بھی وارننگز جاری کرتے رہتے ہیں لیکن عملی طور پر غاصب صیہونی رژیم کے ظالمانہ اور غیر انسانی رویوں کو روکنے کیلئے کوئی موثر اقدام انجام نہیں دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صیہونی حکمران کھل کر فلسطینی شہریوں کے خلاف بربریت اور ظلم و ستم انجام دینے میں مصروف ہیں۔ انسانی حقوق کو سب سے زیادہ نقصان اس وقت پہنچتا ہے جب مغربی حکومتیں انسانی حقوق کو اپنی سیاست میں ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔

مقبوضہ فلسطین میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق خصوصی ایلچی الجزیرہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ عام شہریوں کے خلاف شدت پسندی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے غزہ میں ہونے والی تباہی کو تاریخ میں بے مثال قرار دیا اور عالمی برادری سے جلد از جلد انسانی امداد غزہ پہنچانے کا مطالبہ کیا۔ مغربی طاقتیں انسانی حقوق کے مفہوم کا غلط استعمال کر رہی ہیں اور اس کی تعریف بھی اپنی مرضی سے کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چند عشروں میں انسانی حقوق بے معنی ہو چکا ہے۔ مغربی ممالک انسانی حقوق کے بارے میں پیش کی گئی اپنی تعریف کو ہی صحیح اور واحد تعریف سمجھتے ہیں۔ مزید برآں، تمام تر تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور قومی اختلافات کا بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی اس تعریف کو دنیا کے دیگر تمام ممالک پر تھونپنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تحریر: علی احمدی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button