ایران کے سکیورٹی نظام سے متعلق شکوک و شبہات
تحریر: محمد سلمان مہدی
ایران کے ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ کی صوبہ تہران کے علاقے آب سرد میں شہادت کے بعد دنیا بھر میں جمہوری اسلامی ایران کے سکیورٹی نظام سے متعلق سوالات ہونے لگے۔ جب بھی ایسے ہائی پروفائل ٹارگٹ قتل ہوتے ہیں تو ایسا ہونا ایک فطری امر ہے۔ یہ الگ بات کہ اس نوعیت کی بحث میں حامی و مخالفین سبھی شامل ہوتے ہیں، گو کہ دونوں کی نیت اور مقصد متضاد ہوتے ہیں۔ اس سوال کا منطقی اور مدلل جواب موجود ہے۔ جہاں تک انقلاب اسلامی کے بعد کے ایران کی تاریخ ہے، وہ اس نوعیت کے ان گنت سانحات سے بھری پڑی ہے۔ مانا کہ ایران کے یہ ایٹمی سائنسدان ایک اہم شخصیت تھے، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ ایران میں صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس اور بڑے بڑے انقلابی علماء تک دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتیجے میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں اور یہ پہلے ایٹمی سائنسدان نہیں تھے کہ جنہیں یوں ہدف بناکر قتل کیا گیا۔ غالباً امام زادہ صالح بن موسیٰ کاظم ؑ کے حرم مطھر میں ہی دیگر شہید ایٹمی سائنسدان بھی دفن ہیں۔ ان سائنسدانوں کو محمود احمدی نژاد کی صدارت کے دور میں شہید کیا گیا تھا اور یوں ایٹمی سائنسدانوں کو ہدف بنا کر قتل کیا جانا، محض ایران تک محدود نہیں ہے یا یہ ایرانی وہ پہلے سائنسدان نہیں تھے بلکہ اس سے قبل بھی بڑے عرب مسلمان ممالک خاص طور پر مصر اور عراق ایسے سانحات سے دوچار ہوچکے ہیں۔
یہ محض سمجھانے کے لیے مثالیں دیں ہیں، ورنہ اس دنیا میں جس ایک ملک کو پوری دنیا پر اثر انداز سپرپاور کہا جاتا ہے، وہ یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا ہے اور وہاں نائن الیون 2001ء جیسے بڑے حملے ہوئے۔ تقریباً ساڑھے تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ امریکا میں صدر کینیڈی کو بھی ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔ خود اسرائیل کی مثال موجود ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن کو قتل کیا گیا۔ سال 1967ء کی جنگ کا فاتح فوجی جرنیل اسحاق رابن اپنی وزارت عظمیٰ کے عہد میں مارا گیا۔ خود ایک یہودی انتہاء پسند نے اسے فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کی سزا کے طور پر قتل کر دیا۔ عالم اسلام کی واحد ریاست جو نیوکلیئر اسلحہ سے لیس ہے، یعنی ہمارا اپنا ملک پاکستان، سکیورٹی کے حوالے سے خود پاکستان سب سے بڑی مثال ہے۔ پاکستان میں طاقت کا مرکز فوجی ہیڈکوارٹر جی ایچ کیو، پاکستان بحریہ اور فضائیہ کی اہم تنصیبات، آئی ایس آئی، سبھی کے دفاتر اور افسران پر دہشتگردانہ حملے ہوئے۔ جرنیل سطح کے افسران بھی شہید ہوئے۔ جہاں تک بات ہے ایٹمی سائنسدانوں کی تو تاریخ کے ماتھے پر یہ بدنما داغ کے طور پر محفوظ ہوگیا کہ امریکا کے اتحادی جنرل پرویز مشرف نے اپنی جرنیلی حکومت کے دور میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو کس طرح جیتے جی مار دیا۔ شہادت بہرحال اس سے لاکھ درجے بہتر تھی کہ جو دنیا کے سامنے پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ کیا۔
بھارت کی مثال بھی موجود ہے کہ جہاں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کو دہشت گردوں نے قتل کر دیا۔ قصہ مختصر یہ کہ ہائی پروفائل شخصیات کا قتل یا تنصیبات پر حملوں سے مجموعی طور پر یہ نتیجہ نکالتے کسی کو نہیں پایا کہ وہ ہمیشہ کے لیے مذکورہ ممالک کے سکیورٹی نظام کو ناکارہ قرار دے دے۔ البتہ جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو یہ کوئی عام ملک نہیں ہے۔ انقلاب اسلامی کے بعد کا ایران آگ اور خون کے دریا عبور کرکے اس خاص مقام تک پہنچا ہے۔ امریکا نے براہ راست فوجی آپریشن کرنے کی کوشش کی تو ناکام رہا۔ اس کی پراکسی جنگ لڑنے والے منافق گروہوں نے بھی داعش سے کم دہشت گردی نہیں کی، لیکن وہ بھی تاحال ناکام و نامراد ہیں۔ امریکی زایونسٹ بلاک شروع سے اس انقلاب کے خلاف سازشوں میں مصروف رہا۔ عراق کے ڈکٹیٹر صدام کو ایران پر جنگ مسلط کرنے پر اکسانے والے اور اس کی مدد کرنے والا بھی یہی غربی عبری عربی اتحاد تھا۔ آٹھ سالہ جنگ جو پچھلی صدی کی طویل ترین کنوینشنل وار تھی، اسے بھی ایران جھیل کر اپنا وجود بچا گیا۔ امریکا اور اس کے اتحادی یورپی ممالک ایران پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ پابندیاں لگاتے رہے, جو آج بھی لاگو ہیں اور ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کو بہانہ بنا کر اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی سطح کی مفلوج کر دینے والی پابندیاں بھی لگا کر ایران کی ترقی اور خود انحصاری کو روکنے کی کوشش کرکے دیکھ لی۔
جب ہم ایران کی بات کرتے ہیں تو ہمیں بغیر کسی تعصب اور بغیر کسی جذباتی انتہاء پسندی کے ایران کا موازنہ ان سارے ممالک سے کرنا چاہیئے کہ جو ایران کو ایک شکست خوردہ ملک ظاہر کرتے ہیں۔ خاص طور پر امریکی زایونسٹ بلاک۔ حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی ایران جیسی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ فلسطین کے غاصب اسرائیل کے حوالے سے اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اس نے زیادہ مشکلات دیکھیں تو جواب یہ ہے کہ اسرائیل ایک جعلی اور ناجائز وجود ہے، جو عرب اکثریتی فلسطین کی سرزمین پر مسلط ہے۔ غیر قانونی لینڈ مافیا کے ناجائز قبضے کو کسی بھی آزاد اور خود مختار ملک سے کیا نسبت، یہ موازنہ بنتا ہی نہیں ہے۔ باوجود این، یہ بھی یاد رہے کہ پوری دنیا میں اسرائیل کو جتنی بین الاقوامی مدد حاصل رہی، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ سپر پاور امریکا اس کا پشت پناہ ہے۔ اقوام متحدہ میں اسکے خلاف قراردادوں کو ویٹو کرنے والا امریکا۔ اسکو بچانے کے لیے ایران کے خلاف سازشیں کرنے والا امریکا، اس امریکی اور یورپی مدد کے ہوتے ہوئے اسرائیل کو اپنا ناجائز وجود بچانا مشکل ہو رہا ہے۔
موازنہ کرنے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ محسن فخری زادہ کا قتل یقیناً ایک بڑا نقصان ہے، لیکن یہ ایران کے سکیورٹی نظام سے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کرنے کا معیار نہیں بن سکتا۔ اس ضمن میں ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کاؤنسل کے مسؤل علی شمخانی نے ایک منطقی دلیل پیش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دشمن تو گذشتہ بیس برسوں سے محسن فخری زادہ کے قتل کی کوششوں میں مصروف تھا۔ یعنی یہ کہ بیس برسوں تک بھی اگر ان کی حفاظت کو یقینی بنایا تو یہ ایران کے سکیورٹی نظام کی وجہ سے ہی تھا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ یہ قتل سکیورٹی سے متعلق اعلیٰ حکام اور دیگر متعلقہ حکام کے لیے ایک سبق ہے کہ ان کی ہلکی سی چوک بھی جان لیوا ہوسکتی ہے۔ آئندہ انہیں ہر زاویئے سے دشمن کے ہر ممکنہ طریقہ کار سے متعلق پیش بینی کرکے پیشگی کاؤنٹر حکمت عملی وضع کرلینی چاہیئے، تاکہ آئندہ کے سانحات سے بچا جاسکے۔ اس سے انکار نہیں کہ جمعہ 29 نومبر 2020ء کا سانحہ منافق دشمنوں کی خوشی کا باعث ہے اور اس سے ایران کے حامی رنجیدہ اور فکر مند ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ ایران پر امریکی زایونسٹ سعودی بلاک نے مختلف نوعیت کی غیر اعلانیہ جنگیں مسلط کر رکھیں ہیں۔ اس لیے ایران میں مجموعی طور پر امن و سکون کا برقرار رہنا، نظم و نسق کا مستحکم بنیادوں پر استوار رہنا بھی معجزے سے کم نہیں۔