ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، آہ پچیس سال بیت گئے!
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) تحریر: ارشاد حسین ناصر
وقت کا پہیہ کتنا تیز چلتا ہے، یہ احساس آج پھر ہو رہا ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کو ہم سے جدا ہوئے پچیس سال بیت گئے، یہ پچیس سال بہت ہی ناگوار اور غمناک گزرے ہیں۔ بلا شبہ یہ پچیس سال ایسے گزر جائیں گے، مجھے بالکل نہیں لگتا تھا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ہم عید گزار کر پہلے سرکاری دن کام کاج میں مصروف تھے کہ ایک ذریعے سے ڈاکٹر محمد علی نقوی کی یتیم خانہ چوک میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت کی دل دہلا دینے والی خبر سنی تھی اور ہم سب ملتان روڑ پہ بھلا سٹاپ پہ ان کی صف ماتم بچھائے ہوئے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ اس ملک کو کالی سیاہ آندھی نے اپنی سیاہی میں ڈھانپ لیا ہے، غم کا موسم آن پہنچا ہے اور خزاں کے زرد پتے گلستان میں ویرانے اور اجاڑ کا پتہ دے رہے ہیں۔ آہیں، سسکیاں، بین، آنسو نا تھمنے والے، درد کلیجہ پھاڑ دینے والا، غم نا مٹنے والا، امید اور آرزوئوں کا مقتل سجا تھا۔ کون کس کے گلے لگ کے روتا، کون کسے دلاسہ دیتا، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
ایسا منظر ہم نے اس سے قبل فقط ایک بار دیکھا تھا اور وہ 5 اگست جمعہ کا دن تھا، جب پشاور کی سرزمین کو کربلا بنایا گیا تھا، جس پر ایک سچے فرزند حسین کا دم فجر لہو بہایا گیا تھا۔ اب 7 مارچ کا دن تھا اور وقت کیساتھ ساتھ جگہ بھی تبدیل تھی۔ قائد شہید ہوئے تو ڈاکٹر شہید اسیر مکہ تھے، واپس آئے تو ہمیں بہت امید ملی، انکا آسرا تھا، ان کا حوصلہ تھا، وہ ایسے طوفانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتے تھے، مگر ان کی شہادت کے وقت ہم جانتے تھے کہ امیدیں ختم ہوگئی ہیں، آرزوئوں کا جنازہ نکل گیا ہے اور یہی سوچ ہمیں مزید رلاتی تھی، تڑپاتی تھی۔ یہ 7 مارچ 1995ء کی دم صبح تھی اور آج اس کو پچیس برس بھی بیت گئے۔ ہم نے نا جانے اور کتنے زخم سہنے ہیں، ہمارے یہ زخم نا جانے کب کب تازہ ہوتے رہیں گے، امریکہ پوری دنیا میں اسلام کے حقیقی پیروکاران اور اس کی سازشوں کے خلاف قیام کرنے والوں کو ہر قسم کے قانون اور روایات کو پائمال کرتے ہوئے دہشت گردانہ حملوں اور ٹارگٹ کرکے شہید کرتا آیا ہے۔
ایران، لبنان، عراق، شام، یمن، پاکستان اور دنیا بھر میں امریکہ نے ایسی شخصیات کو نشانہ بنایا ہے، جن سے اسے کوئی بھی خطرہ محسوس ہوا یا اسے ایسا لگا کہ یہ شخصیت اس کے منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ بن جائے گی اور اس کی سازش عمل پیرا نہیں ہو پائے گی، اس نے اس شخصیت کو کسی بھی طرح راستے سے ہٹا دیا۔ اس عالمی استعمار نے کبھی تو کھلے عام اور بزور طاقت و زعم ایسا کیا اور کبھی ایسا ہوا کہ خفیہ طور پہ اپنے ایجنٹوں یا پھر سنائپرز کے ذریعے یا بم دھماکوں میں شخصیات کو اڑا دیا۔ ہم اہل پاکستان اس کے شاہد ہیں، اس لئے کہ ہم اس کے اس حربے کا شکار ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں شہید قائد علامہ سید عارف الحسینی کو سرزمین پشاور پر 5 اگست 1988ء کی دم فجر اور سفیر انقلاب ڈاکٹر سید محمد علی نقوی کو 7 مارچ 1995ء کی صبح لاہور کے معروف یتیم خانہ چوک میں امریکی ایجنٹوں کے ہاتھوں نشانہ بنایا گیا۔
ابھی دنیا نے دیکھا کہ سفاک، دہشت گرد گروہ داعش کو صفحہ ہستی سے مٹانے والے جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کو 3 جنوری کی فجر سے پہلے ایک ڈرون حملے میں بغداد ایئر پورٹ کے باہر شہید کیا گیا۔ ان شہداء کے پاک خون کے صدقے اسے عراق میں بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اس کے سب سے بڑے ایئر بیس پر ایران کے بیلسٹک میزائل سے حملہ کیا گیا، جس میں اس کا بھاری جانی و مالی و فوجی نقصان ہوا۔ اس نقصان کو اس نے چھپانے کی پوری کوشش کی، مگر یہ ابھی تک خبروں کی زینت بنتا آرہا ہے، جبکہ ایران نے انتقام سخت کا سلوگن بھی لگایا ہے، جس کا مطلب ہے اسے کہیں بھی کسی بھی جگہ نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ شہید قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی المہندس، ان سے قبل شہید راغب حرب، شہید عباس موسوی، شہید عماد مغنیہ، شہید باقر الصدر، شہید باقر الحکیم، شہید عبدالعلی مزاری، شہدائے انقلاب اسلامی بالاخص شہید مطہری، شہید بہشتی، شہید رجائی، شہید باہنر جیسی شخصیات کو راستے سے ہٹایا گیا تو اس کا مقصد کیا تھا اور ان کا قصور کیا تھا۔
ان سب کا قصور ایک ہی تھا، فقط یہ لوگ اس کے منصوبوں اور سازشوں کی راہ میں رکاوٹ تھے، یہی کہ یہ لوگ اپنے ہدف اور مقصد میں واضح اور متعہد تھے، یہی کہ ان لوگوں کو کسی بھی طرح خریدنا یا اپنے دام میں لانا ممکن نہیں تھا، یہی کہ یہ لوگ الہٰی انسان تھے، باتقویٰ تھے، خدا خوفی سے ان کے دل و قلوب بھرے ہوئے تھے اور خدمت خلق یعنی انسانوں کی انسانوں کے ہاتھوں جبری قید کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے تھے، یہی کہ یہ لوگ اپنی اپنی ملت، اپنے اپنے وطن اور اپنی اپنی سرزمین کیساتھ عہد وفا نبھانے والے تھے۔ ہم نے شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت کا زخم برداشت کیا اور ان کے بعد ہماری امید ڈاکٹر محمد علی نقوی تھے، پاکستان کے انقلابی و پاکباز نوجوانوں کی امیدوں کا مرکز و محور شہید ڈاکٹر کی ذات تھی۔ جس دشمن نے ہم سے عارف الحسینی چھینا، اسی نے ہم سے ہماری یہ امید بھی چھین لی۔ کون نہیں جانتا کہ ڈاکٹر شہید کی زندگی امریکہ اور اس کے بنائے ہوئے دہشت گردوں کے منصوبوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھی۔ انہوں نے امریکہ کو پاک سرزمین پر للکارا تھا۔
اسے پاکستان کے گوش و کنار میں اس وقت مردہ باد کا نعرہ سننا پڑا تھا، جب ہمارے ادارے اور ہمارے مذہبی رہنماء اس کے ساتھ مل کر روس کے خلاف نام نہاد جہاد کرنے میں مصروف تھے۔ وہ جہاد جو ہمارے دیس کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ گیا، جس نے ہمارے ملک کی بنیادوں میں دہشت گردی، منشیات فروشی، کلاشنکوف کلچر اور تعصبات کو زہر کی طرح گھول دیا تھا۔ شہید ڈاکٹر کی ذات والا صفات تھی اور ان کی بصیرت افروز آنکھیں تھیں، جنہوں نے امریکی استعمار اور اس کی شیطانیت کو بھانپ لیا تھا اور اس کے خلاف علم جہاد بلند کیا تھا۔ وہ استعمار دشمنی میں خود کو فرنٹ لائن میں کھڑا کرچکے تھے۔ شہید ان الہیٰ انسانوں میں سے تھے، جن کو کسی کا خوف نہیں ہوتا، کسی کا ڈر انہیں نہیں ہوتا، کچھ چھن جانے کا ڈر، کچھ کھو جانے کا ڈر، کچھ گم جانے کا ڈر، موت کا ڈر، بچوں کے یتیم ہو جانے کا ڈر، بزنس کے ختم ہو جانے اور فاقوں کا ڈر، رشتے ناتے اور دوست احباب کے طعنوں کا ڈر، اپنوں کے کھو جانے اور غیروں کے مسلط ہو جانے کا ڈر۔
وہ ہر قسم کے خوف اور ڈر سے مبرا تھے، ان کی دوستیاں اور رشتہ داریاں خالص خدا کیلئے تھیں، جب کسی انسان کو کسی بھی طرح کا خوف یا ڈر نہ ہو تو یہ سمجھ جانا چاہیئے کہ اس کا تکیہ وہ ذات ہے، جس کے قبضہ قدرت میں ساری کائنات کا نظام ہے اور جو اپنے خاصان کو کسی بھی جگہ تنہا نہیں چھوڑتا۔ جو سب مدد کرنے والوں کا مددگار ہے، جو ارحم الراحمین ہے، جو مالک و خالق ہے، جس کے قبضہ قدرت میں کائنات کا ذرہ ذرہ ہے، اسی ذات کریم پر یقین اور توکل کسی انسان کو اس قدر طاقتور اور پختہ بنا سکتا ہے، شہید ڈاکٹر واقعی توکل بر خدا رکھتے تھے، انہیں جس نے بھی قریب سے دیکھا، جس نے بھی ان کے ساتھ سفر کیا، جس نے بھی ان کی قربت کا لطف اٹھایا، جس نے بھی ان کے ساتھ کچھ لحظات گزارے ہیں، جس نے بھی ان کی تنہائی دیکھی ہے، جس نے بھی ان کیساتھ میدان عمل میں کچھ وقت گزارا ہے، وہ جانتا اور بڑی اچھی طرح پہچانتا ہے اور اسے آج پچھیس سال گزر جانے کے باوجود بھولا نہیں ہوگا کہ شہید ڈاکٹر ایسے مرد میدان تھے، جن کے ہوتے ہوئے سب کو حوصلے رہتے تھے۔
جن کی موجودگی امیدوں کی تسبیح کو بکھرنے نہیں دیتی تھی، جن کا وجود سراپا اخلاص و شجاعت تھا، جن کا کہنا ایسا ہی تھا، جیسا انہوں نے امام خمینی کے فرمان کو سمجھا تھا اور ایران کے محاذ پر جا پہنچے تھے۔ پاکستان کے انقلابی نوجوانوں کیلئے وہ ایسی ہی حیثیت رکھتے تھے، نوجوان اس آس میں رہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب انہیں کوئی کام دیں اور وہ اسے فخر سے بلا خوف و تردد کر گزریں۔ یہ ان کے وجود مقدس اور ان کی نورانی و باتقویٰ شخصیت کا اثر تھا کہ ہم بہت تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود انقلاب کے سپنے آنکھوں میں سجائے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھے اور ہمیں ہر میدان میں کامیابی بھی مل رہی تھی۔ ہم اپنے دشمن پر بھاری تھے، ہم اپنے دشمن کو پاکستان کے گلی کوچوں اور شاہراہوں پر ایسے ہی للکارتے تھے، جیسے اس ملک میں فقط ہم ہی ہیں۔ یہ اعتماد جو نوجوانوں کو حاصل تھا، اس کو شہید ڈاکٹر نے ہی راسخ کیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ استعمار نے ہم سے انہیں چھین کر بہت بڑی کامیابی حاصل کی اور اس نے اپنے منصوبوں کو اس دھرتی پہ نافذ کیا۔ جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ کس طرح یہ مملکت دہشت گردوں کے ہاتھوں میں یرغمال بنی رہی ہے۔
ستر ہزار لوگوں کا خون بہہ گیا، کوئی شہر نہ بچا، کوئی ادارہ محفوظ نا رہا اور دہشت گردوں نے کیسے کیسے خواب دیکھے ہیں، یہ تو ہماری افواج اور مکتب کا اثر ہے کہ جس کے باعث دہشت گرد آج ناکامی سے دوچار ہو کر اپنی بلوں میں گھس گئے ہیں اور انہیں جائے پناہ نہیں مل رہی، وگرنہ تو حالت یہ ہوچکی تھی کہ اچھے خاصے معتبر سمجھے جانے والے لوگ بھی یہی کہتے سنائی دیتے تھے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرکے کچھ لے اور کچھ دو کی پالیسی کے تحت معاہدے کر لیں، شکر ہے کہ آج ہمارا دیس ان دہشت گردوں کے منصوبوں کو خاک میں ملانے والوں میں صف اول میں کھڑا ہے اور ہمیں اس پہ فخر ہے کہ ہم نے اس ملک کی سلامتی کیلئے اپنے قیمتی ترین اور بے حد پیاروں کی قربانیاں دی ہیں، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی انہی میں سے ایک عظیم قربانی تھی۔
خدا کے فضل سے شہید کی راہ کو اپناتے ہوئے ہم عالمی اسلامی نہضت کے ایک فعال کردار کے طور پہ سامنے آتے رہینگے، شہید ڈاکٹر نقوی کے افکار جو دراصل شہید عارف الحسینی، بلکہ حضرت امام خمینی (رہ) کے افکار ہیں، آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ اگرچہ ڈاکٹر سید محمد علی نقوی کو استعمار کے نمک خواروں نے 7 مارچ 1995ء کی دم صبح یتیم خانہ چوک میں شہید کر دیا، مگر ان کی راہ، جو استقامت، جرات، شجاعت، شہامت، علم و عمل، فلاح و رفاہ اور حضرت حجت آخر (عج) کے ظہور کی راہ ہے، ہمارے لیئے نمونہ عمل اور اسوہ کی حیثیت رکھتی ہے، ہم اس کو جاری رکھیں گے اور استعمار سے ٹکراتے رہینگے۔
یہ درس کربلا کا ہے
کہ خوف بس خدا کا ہے