مشرق وسطیہفتہ کی اہم خبریں

حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی کوششیں تیز، امریکہ کی نئی حکمت عملی

شیعہ نیوز: جنگ بندی کے آٹھ ماہ بعد صہیونی جارحیت میں شدت، امریکہ و اسرائیل حزب اللہ کی عسکری طاقت کی بحالی کو روکنے کے لیے نئی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

جنوبی لبنان میں جنگ بندی کو آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود اسرائیلی حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور اب امریکہ نے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی اپنا لی ہے، جس میں واشنگٹن اور تل ابیب کی مشترکہ کوششوں سے عسکری دباؤ کے ذریعے حزب اللہ کی دفاعی طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اسرائیلی زمینی افواج جنوبی لبنان کے پانچ اسٹریٹجک علاقوں میں اب بھی تعینات ہیں اور لبنانی سرزمین کو مکمل طور پر نہیں چھوڑا گیا۔ اس دوران اسرائیل حزب اللہ کے ٹھکانوں اور عسکری ساز و سامان کو مسلسل نشانہ بنا رہا ہے تاکہ مزاحمتی قوت کی بحالی اور دوبارہ طاقت حاصل کرنے کے عمل کو روکا جاسکے۔

اطلاعات کے مطابق، لبنانی فوج کے سربراہ جوزف عون نے امریکی عہدیدار ٹام باراک کو پیغام دیا ہے کہ موجودہ حالات میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا کوئی آسان آپشن نہیں۔ یہ معاملہ صرف اسرائیل کی جانب سے اپنے وعدے پورے کرنے کے بعد ہی تدریجا ممکن ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : صیہونی جرائم پر انسانی حقوق کے دعویداروں کی بے عملی شرمناک ہے، صدر پزشکیان

ادھر جنوبی شام میں اسرائیل نواز گروہوں کی عسکری سرگرمیوں میں اضافہ، جولانی کے حمایت یافتہ گروپوں کی نقل و حرکت اور ساحلی علاقوں میں دروزی و علوی برادری کے خلاف ممکنہ کارروائیاں، حزب اللہ کے لیے ایک واضح اشارہ ہیں کہ اگر اس نے غیر مسلح کا مطالبہ تسلیم کیا تو اس کا نتیجہ ایک نئی جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے اور اس بار محاذ شام کی طرف سے کھولا جاسکتا ہے۔

ان بدلتے حالات میں صہیونی حکام نے ایک بار پھر کھلے عام دھمکی دی ہے کہ اگر حزب اللہ کو مکمل طور پر غیر مسلح نہ کیا گیا تو اسرائیل ایک نئی اور وسیع تر جنگی مہم کا آغاز کرنے کے لیے تیار ہے۔

مبصرین کا ماننا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی یہ نئی حکمت عملی نہ صرف لبنان بلکہ پورے خطے میں استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

امریکہ کے شام کے لیے خصوصی نمائندے ٹام باراک نے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے ایک نئی حکمتِ عملی اختیار کی ہے، جس کا مقصد بظاہر مزاحمت کو دھوکے میں رکھ کر اسرائیل کے مطالبات کو پورا کرنا ہے۔ باراک حزب اللہ سے براہ راست رابطے کی کوشش میں بھی ناکام رہے ہیں۔

لبنانی حکومت نے واضح انداز میں امریکی فریق کو یہ پیغام دیا ہے کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہ صرف ملک میں تنازعے کو ہوا دے سکتی ہے بلکہ لبنان کو دوبارہ خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتی ہے۔

ادھر حزب اللہ نے اس نازک مسئلے پر حکومت لبنان سے مکالمے پر آمادگی ظاہر کی ہے، لیکن صرف اس دائرے میں کہ ایک مشترکہ دفاعی حکمت عملی تشکیل دی جاسکے۔ اس سے پہلے امریکہ کی سابق خصوصی ایلچی مورگان اورٹاگس نے حکومت لبنان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے ایک باقاعدہ ٹائم ٹیبل پیش کرے، تاکہ اس کے مالی ذرائع بند کیے جاسکیں اور فلسطینی پناہ گزینوں کے 12 کیمپوں کو بھی غیر مسلح کیا جاسکے۔ تاہم ان اہداف میں ناکامی کے بعد ٹام باراک نے اب ایک نئی تجویز دی ہے جس کے تحت حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری ونگز میں فرق کرتے ہوئے، صرف فوجی دھڑے کو غیر مسلح کرنے کی پیش کش کی گئی ہے۔

حزب اللہ کے قریبی تجزیہ نگار خلیل نصر اللہ نے ایک ٹویٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ٹام باراک نے ابتدا میں حزب اللہ سے براہ راست رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن مزاحمتی گروہ نے امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت کو صاف طور پر مسترد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حزب اللہ حکومت لبنان کا حصہ ہے اور وہ لبنانی دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہی بات چیت کرے گا۔

حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ مقاومت کا اسلحہ کوئی خارجی ایجنڈا نہیں بلکہ ایک قومی معاملہ ہے، جس پر لبنانیوں کو باہمی گفت و شنید سے خود فیصلہ کرنا ہے اور امریکی مداخلت اس عمل میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

لبنان کے مالیاتی اور بینکاری نظام کا حزب اللہ کے ادارہ قرض الحسن سے رابطہ منقطع کیا جانا دراصل امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے، جس کا مقصد لبنان میں حزب اللہ کی سیاسی اور سماجی حیثیت کو مرحلہ وار کمزور کرنا ہے۔ واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو لبنان میں تعمیر نو کے کسی بھی منصوبے کی کامیابی کے خلاف ہیں۔

اسرائیل سے تعلق رکھنے والے تحقیقی ادارے آلما نے اپنی ایک رپورٹ میں بیروت کے جنوبی علاقے ضاحیہ میں ہونے والی تعمیر نو پر سوالات اٹھائے ہیں۔ رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ حزب اللہ اب ایک ریاست جیسا کردار ادا کر رہی ہے اور بظاہر شہری ڈھانچے کی بحالی کے ساتھ ساتھ اپنی عسکری انفراسٹرکچر کو بھی دوبارہ فعال کر رہی ہے۔

عبرانی میڈیا، خاص طور پر روزنامہ معاریو نے دعوی کیا ہے کہ حزب اللہ تعمیر نو کی آڑ میں آئندہ جنگ کی تیاری کررہی ہے۔ اخبار کے مطابق، لبنان میں ریاستی اداروں کی ناکامی اور کمزوری کے سبب حزب اللہ نہ صرف ضاحیہ میں خالی جگہوں کو پر کررہی ہے بلکہ اس دوران اپنی عسکری قوت کو بھی منظم کررہی ہے۔ یہ الزام ایسے وقت میں سامنے آرہا ہے جب حالیہ مہینوں کے واقعات سے واضح ہوچکا ہے کہ نتن یاہو کی حکومت نہ تو بین الاقوامی سرحدوں کی پرواہ کرتی ہے اور نہ ہی کسی قانونی یا سکیورٹی لائن کو مانتی ہے۔ ان کا ہدف صرف مشرق وسطی کے نقشے کو بدلنا ہے۔

اسی تناظر میں حزب اللہ نے لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری کو ایک تازہ پیغام میں واضح کر دیا ہے کہ اگر اسرائیل جنوبی لبنان سے پیچھے ہٹ بھی جائے، تب بھی وہ اپنے ہتھیاروں سے دستبردار نہیں ہوگی۔ اگرچہ حزب اللہ کا یہ مؤقف لبنانی حکومت کے لیے سخت تشویش کا باعث بنا ہے، مگر اس کی بنیاد ایک حقیقی اور بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظرنامے پر ہے۔

امریکی خصوصی نمائندے نے دمشق اور بیروت کا موازنہ کرتے ہوئے اشارہ دیا ہے کہ شام ممکنہ طور پر لبنان پر مکمل قبضہ کر سکتا ہے اور اسے اپنے علاقے میں شامل کرسکتا ہے۔

اس غیریقینی، خطرناک اور بیرونی دباؤ سے بھرپور ماحول میں دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ لبنان کسی طور بیرونی قوتوں کے ناجائز مطالبات کے آگے نہ جھکے، اور حزب اللہ کی مزاحمتی طاقت کو محفوظ رکھے کیونکہ یہی اس وقت لبنان کے دفاع کا واحد موثر ذریعہ ہے۔ ایسے میں یہ تجویز کہ حزب اللہ اپنے بھاری ہتھیار حوالے کردے جبکہ ہلکی ہتھیار اپنے پاس رکھے، محض ایک فریب ہے۔ اس فریب کا شکار ہونے سے نہ صرف لبنان مزید کمزور ہوگا بلکہ عوامی قتل عام کا راستہ ہموار ہوگا۔

لہذا حزب اللہ کے عسکری ڈھانچے کی فوری اور منظم بحالی اس بات کی ضامن بن سکتی ہے کہ آئندہ کسی بھی ممکنہ جنگ کی صورت میں یہ گروہ میدان میں موثر انداز میں اترے اور قابض اسرائیلیوں پر دباؤ بڑھائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button