یمن کے خلاف تشکیل پانے والے کسی فوجی اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے، مصر
شیعہ نیوز: فارس نیوز ایجنسی کے مطابق مصر کے ایک باخبر ذریعے نے العربی الجدید سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصر یمن کی مسلح افواج کے خلاف تشکیل پانے والے کسی بھی سکیورٹی یا فوجی اتحاد کا حصہ نہیں بے گا۔ یاد رہے امریکہ اور اسرائیل بحیرہ احمر میں انصاراللہ یمن کی جانب سے ان کی کشتیوں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد ایک سمندری فوجی اتحاد تشکیل دینے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ مصر کے اس باخبر ذریعے نے کہا کہ قاہرہ بدستور اپنے اس موقف پر استوار ہے کہ ہر قسم کے تناو اور بحران کا صحیح راہ حل گفتگو اور مذاکرات ہیں اور وہ بحیرہ احمر میں اپنی فوجی سرگرمیاں صرف "مشترکہ فورسز 153” کے دائرے تک محدود رکھے گا۔ یہ اتحاد 2021ء میں تشکیل پایا تھا اور اس میں 34 ممالک شریک ہیں۔ اس فوجی اتحاد کا مقصد سمندر میں امن و امان کا قیام اور بحیرہ احمر، باب المندب اور خلیج عدن میں نیوی فورسز کو مضبوط کرنا تھا۔ اس باخبر ذریعے نے مزید بتایا کہ مصر نے کینال سویز سے متعلق اپنے تحفظات دور کرنے کیلئے واض اور اصولی پالیسیوں کو ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے۔
مصر کے باخبر ذریعے نے کہا: "مصر نے ایک طرف ایران اور دوسری طرف حوثیوں سے مسلسل رابطہ برقرار کر رکھا ہے۔ گذشتہ ایک عرصے سے مصر اور حوثیوں کے درمیان مختلف سکیورٹی چینلز کے ذریعے رابطہ قائم ہے اور ان چینلز کا بنیادی مقصد بحیرہ احمر میں کشتیوں کی آمدورفت کیلئے سکیورٹی یقینی بنانا ہے تاکہ کینال سویز کی فعالیت متاثر نہ ہو۔” باخبر ذریعے نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ اب تک کینال سویز میں کشتیوں کی آمدورفت کو ایسا کوئی نقصان نہیں پہنچا جو مصر کیلئے پریشان کن ثابت ہو، کہا: "قاہرہ نے اسلامی مزاحمت سے مربوط عناصر کی جانب سے یہ پیغام وصول کیا ہے کہ یمن کے حوثی صرف ایسی کشتیوں کو نشانہ بنائیں گے جن کی منزل اسرائیل کی ایلات بندرگاہ ہو گی۔” اس باخبر ذریعے کے بقول وہ راستہ جو کینال سویز سے مخصوص ہے یمن فوج کے اہداف میں شامل نہیں ہے۔ اس بارے میں یمن کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ محمد عبدالسلام نے کہا: "یمن کی مسلح افواج جو اقدامات بھی انجام دے رہی ہیں ان کا تعلق غزہ پر جارحیت اور اس کا گھیراو ختم کرنے سے ہے اور ہماری فعالیت کا مقصد اسرائیلی کشتیوں اور صرف ان کشتیوں کو نشانہ بنانا ہے جو اسرائیل کی بندرگاہوں کی جانب جا رہی ہوں۔ پس میں تاکید کرتا ہوں کہ بحیرہ احمر خطے کی تمام کشتیوں کیلئے محفوظ ہے سوائے ان کشتیوں کے جو کسی نہ کسی طرح اسرائیلی دشمن سے مربوط ہیں۔”
گذشتہ چند ہفتوں کے دوران غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی شدت میں اضافہ ہو جانے کے بعد یمن فوج نے بھی آبنائے باب المندب سے عبور کرنے والی اسرائیلی کشتیوں کے خلاف کاروائیاں تیز کر دی ہیں۔ اب تک حوثی مجاہدین کئی اسرائیلی کشتیوں کو میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ یاد رہے دنیا بھر کی بین الاقوامی سمندری تجارت کا 40 فیصد حصہ آبنائے باب المندب کے ذریعے انجام پاتا ہے جو یمن اور براعظم افریقہ کے درمیان واقع ہے۔ اس بارے میں اخبار پولیٹیکو نے گذشتہ روز ایک رپورٹ شائع کی اور اس میں دعوی کیا تھا کہ امریکہ اور اسرائیل یمن فوج کے خلاف جوابی کاروائی کیلئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد بحیرہ احمر میں کشتیوں کی آمدورفت کی حمایت کرنا ہے۔ اس اخبار نے ایک اعلی سطحی امریکی عہدیدار کے بقول لکھا: "پینٹاگون نے گذشتہ چند دنوں میں یو ایس ایس آئزنہاور بحری بیڑے کو خلیج فارس سے یمن کے ساحل کے قریب خلیج عدن منتقل کر دیا ہے۔ اس کا مقصد بحیرہ احمر اور باب المندب میں کشتیوں پر حوثیوں کے حملوں کی ممکنہ جوابی کاروائی میں مدد فراہم کرنا ہے۔