پاکستانی شیعہ خبریںہفتہ کی اہم خبریں

ڈیرہ اسماعیل خان میں "فکر شہید حسینی کانفرنس” کا انعقاد

شیعیت نیوز: شیعہ علماء کونسل اور جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زیراہتمام شہید قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ عارف حسین الحسینی رح کی برسی کی مناسبت سے ڈیرہ اسماعیل خان میں گذشتہ روز ’’فکر حسینی کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ کوٹلی امام حسینؑ میں منعقدہ کانفرنس میں شہید قائد کے فرزند سید حسین الحسینی نے بھی خصوصی شرکت کی، علاوہ ازیں شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری علامہ شبیر حسن میثمی، مرکزی نائب صدر علامہ عارف حسین واحدی، علامہ محمد محمد رمضان توقیر، علامہ سید سبطین سبزواری سمیت مختلف علمائے کرام اور اہم شخصیات نے خطابات کئے۔ کانفرنس کے شرکاء نے متفقہ طور پر ناموس صحابہ و اہلبیتؑ بل مسترد کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ اہلبیتؑ، امہات المومینین اور اصحاب رسول کی توہین کو حرام سمجھتے ہیں اور بے ادبی نہیں کر سکتے۔ قانون سازی کے مخالف نہیں، بل پر مشاورت اور توہین کی تعریف کی جائے، علاوہ ازیں یکم ربیع الاول کو اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا گیا۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی رح کے صاحبزادے سید حسین الحسینی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہدائے ڈیرہ اسماعیل خان اور ان کے ورثا کو میں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، شہادت سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں اور شہداء کو یاد کرنے سے بہتر کوئی خدمت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے بابا شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے اتحاد کا درس دیا لہذا منبر حسینی سے اخوت و وحدت کا اظہار ہونا چاہیے، مومینین و مسلمین کے احساسات مجروح کرنا دشمن کی سازش ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کو ساتھ لیکر چلنا چاہئے، متحد ہوکر دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہوگا، میرے بابا کی بھی یہی خواہش اور یہی تمنا تھی۔ شیعہ علماء کونسل کے مرکزی نائب صدر اور کانفرنس کے میزبان علامہ محمد رمضان توقیر نے کہا کہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہماری ذمہ داری ہے، شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی نے اتحاد بین المسلمین کی تحریک کا آغاز کیا، قائد اعظم پر کفر کے فتوے لگانے اور پاکستان کی مخالفت کرنے والوں کی اولادیں اور پیروکار ہی انتشار پھیلا رہے اور ملک کے حقیقی ورثا کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا چاہتے ہیں جو ہمیں قطعا” برداشت نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم دشمنوں کے ان حملوں کو ناکام بنائیں گے، اگر شیعہ اپنی بقا چاہتے ہیں تو ہمارا اور مدارس کا ساتھ دیں۔ ہمیں یقین ہے کہ بل یکم ربیع الاول سے قبل واپس ہو جائے گا، اصحاب رسول اور امہات المومینین کا احترام ہم پر واجب ہے، لیکن کسی متنازعہ بل کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ صوبائی صدر ایس یو سی علامہ سید زاہد علی بخاری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بعض شر پسند لوگ ناموس صحابہ کی آڑ میں فساد پھیلا رہے ہیں، جیسے خوارج نے حکم صرف اللہ کا نعرہ لگا کر فساد پھیلایا تھا۔ رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ میں تمہارے درمیان قرآن اور اہلبیتؑ چھوڑ کر جا رہا ہوں، ہمیں صحابہ سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن بل نافذ نہیں ہونے دیں گے۔ مولانا ترس علی نجفی نے کہا کہ ناموس صحابہ و اہلبیتؑ بل شیعہ، سنی کا مسئلہ نہیں بل کہ اصلاً دینی بنیاد کا معاملہ ہے، مندر اور گرجا گھر بن سکتا ہے مگر مسجد و مدرسہ بنانے کے لیے اداروں سے اجازت لینا ضروری ہے۔ پاکستان اور ہمارا معاشرہ مسلمانوں کا ہے، مگر اسلامی نہیں، غور کریں کہ کیا شیعہ ولایت کے تقاضے پورے کر رہے ہیں، درحقیقت ہم علیؑ کی عدالت پر قائم نہیں رہے۔

علامہ عامر عباس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زندگی چلنے پھرنے کا نام نہیں، کردار کا نام ہے۔ دنیائے کفر و یزید اہل تشیع کو نہیں خرید سکی۔ ولایت علیؑ زندہ تھی اور ہے۔ پروفیسر عابد حسین نے کہا کہ شہداء کا خون قوموں کی نئی زندگی کا سبب ہوتے ہیں۔ انہیں یاد کرنے سے نوجوانوں میں نیا جذبہ و ولولہ پیدا ہوتا ہے۔ شہداء کے ورثا قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں، وقت کے زمانے کے یزید کی شناخت کے لیے معرفت کربلا لازم ہے۔ مردہ یزید کو برا کہنا آسان ہے لیکن زندہ یزید کے خلاف گلمہ حق بلند کرنا دشوار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جڑانوالہ سمیت ہر قسم کی دہشتگردی کی مذمت کرتے ہیں، ہم ہر پاکستانی کے حقوق کے حامی ہیں اور پاکستانی ہونے کی نسبت سے اپنے حقوق مانگتے ہیں۔ ایس یو سی بھکر ڈویژن کے صدر مولانا قلب عباس شاہانی نے کہا کہ علیؑ کی ولایت وہ نعمت ہے جس نے شیعہ کو ایک تسبیح میں پرو رکھا ہے اور دشمن کی سازش ہے کہ شیعہ متحد نہ ہوں، مگر متنازعہ بل نے سب کو یکجا کر دیا ہے، یہ قوم ایک ہے اور ایک رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم اصحاب رسول کے احترام کے قائل ہیں، توہیں صحابہ کو حرام سمجھتے ہیں، کسی بھی مذہب کے مقدسات کی اہانت جائز نہیں، تکفیری صحابہ کرام سے مخلص نہیں، بل پر اپنی دکان چمکا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ قوم دفعہ ایک سو چوالیس سے ڈرنے والی نہیں۔ مولانا غلام باقر نے کہا کہ جہالت کے ہوتے ہوئے کسی قوم کو توپوں سے مارنے کی ضرورت نہیں، وہی اقوام بلند ہوتی ہیں جو علم کی دولت سے مالا مال ہوتی ہیں، قوموں کا وقار علم و عمل سے ہوتا ہے۔ علامہ طاہر عباس نقوی نے کہا کہ توہین صحابہ بل کا مقصد مظلوم کربلا کی عزاداری کو روکنا ہے، اس بل کا نفاذ کیا گیا تو اسلام آباد کا گھیراو کر کے اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کریں گے۔ عزاداری کو جتنا دبایا گیا اسی قدر بڑھ گئی ہے۔ شیعہ، سنی کو آپس میں الجھانے کی سازش کی جا رہی ہے، وہ کل بھی بھائی تھے اور آج بھی بھائی ہیں، مظلوم کربلا کا نام گھر گھر پہنچ رہا ہے، اس بل کو ہرگز منظور نہیں ہونے دیں گے۔

شیعہ علماء کونسل کے مرکزی نائب صدر علامہ عارف حسین واحدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہادت کا ورثہ ہمیں رسول سے ملا ہے، شہادتیں دینے والی قومیں ہی کامیاب ہوتی ہیں۔ امام خمینی نے شہید حسینی کے افکار کو زندہ رکھنے کی نصیحت کی تھی، جنہوں نے قوم میں نئی روح پھونکی، ہمیں تڑپ دی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنا خون عطیہ کر کے زندہ رہے ہیں۔ آج وہ وقت آچکا ہے کہ کربلا اور عاشور کی یاد تازہ کی جائے۔ صرف ماتم کرلینا اور مجلس میں شرکت کرنا کافی نہیں۔ سیدہ زینبؑ نے دربار یزید میں کلمہ حق بلند کر کے ہمیں ڈٹ جانے کا سبق دیا۔ انہوں نے کہا کہ متنازعہ بل نافذ کرنے والو شیعہ کو یزید اور حجاج نہیں روک سکا تھا تو تم کیسے روک سکتے ہو۔؟ ہمیں پاکستان عزیز ہے مگر عزاداری اور اپنے عقیدے سے زیادہ نہیں تاہم ہم پاکستان کو خطرے میں نہیں ڈالنے دیں گے۔ ہم نے 1980ء میں بھی آرڈیننس تسلیم نہیں کیا تھا، ہم بارود والے نہیں دلیل والے ہیں۔ ہتھیار وہ استعمال کرتے ہیں جن کے پاس دلیل نہیں ہوتی، ہم ایسے قانون کو جوتے کی نوک پر رکھ کر اڑائیں گے، نافذ ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اہلبیتؑ، اصحاب رسول اور امہات المومینین ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک اور تارے ہیں، ہم قانون سازی کے مخالف نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مشاورت کریں، توہین کی تعریف کی جائے۔ تکفیری ہمیں علیؑ کو بلافصل کہنے سے نہیں روک سکتے۔ اہل سنت کے مقدسات کی توہین کی ہے نہ کریں گے، ان کی بے ادبی کبھی نہیں کریں گے البتہ ہمارا عقیدہ نہ چھیڑا جائے ورنہ کچھ نہیں بچے گا۔ مرکزی رہنماء علامہ سید سبطین سبزواری نے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے اہل تشیع نے دین کی خاطر جان و مال کی قربانی دی اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ شہید قائد نے سب سے بڑا کام یہ کیا کہ قوم تشیع کے لیے سیاسی باب کو کھولا۔ مفتی جعفر نے جنرل ضیاء ایسے آمر کو بتایا کہ ہم جھکنے، بکنے اور ڈرنے والے نہیں، نہ ہم دہشتگردی اور فرقہ واریت پھیلانے والے ہیں۔ پھر اللہ نے علامہ حسینی دیا، جنہوں نے سیاسی شعور دیا لہذا علماء اور مدارس سے وابستہ ہو جائیں اور اپنی اولاد کو دینی علمی آگاہی دیں۔ یہ جنگ اسلحے و قوت سے نہیں علم سے جیتی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ قوم متحد ہے، ریاست، حکمران، ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتیں آگاہ ہو جائیں ہمیں حق نہ دیا گیا تو ہم اپنا حق چھیننا بھی جانتے ہیں۔ خوارج کا ساتھ نہ دیں۔

شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر علامہ شبیر میثمی نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ہم اب تک امام حسنؑ کا کردار ادا کرتے رہے لیکن اب امام حسینؑ کا کردار ادا کریں گے، ایک گروہ اتحاد بین المسلمین کو پارہ پارہ کرنا چاہتا ہے جو قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے قائم کیا تھا۔ متنازعہ بل کے ذریعے حقائق نہیں چھپائے جا سکتے، اس سے شیعہ کو نہیں پاکستان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کی بے حرمتی برداشت نہیں۔ تاہم گرجا گھر اور مکانات جلانا شریعت میں نہیں۔ صدر مملکت یاد رکھیں کہ بل کے نفاذ کے نتائج خطرناک ہوں گے، شیعہ اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو پہچانیں، بل کی واپسی پاکستان کی سالمیت کا سوال ہے۔ اس کے قانون بننے سے روزانہ جڑانوالا ایسے ہزاروں واقعات رونما ہوں گے۔ یہ سازش ہے، پاکستان اس قانون کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آخر میں علامہ پیاس حسین مطہری نے کربلا میں آل رسول کو پیش آنے والے مصائب بیان کیے۔ تحصیل پہاڑپور کے میئر مخدوم ذادہ سید الطاف حسین بھی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر علامہ سید محمد اکبر کو دستار و عبا زیب تن کروائی گئی۔ ضلعی صدر ایس یو سی علامہ کاظم حسین نے مہمانوں سمیت تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا، علامہ طاہر عباس نجفی نے دعا کروائی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button