مضامینہفتہ کی اہم خبریں

سابقین آئی ایس او کے نام

"خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے”، امامیہ برادران کو کامیاب کنونشن کے انعقاد کی مبارک۔ آئی ایس او نے ہم جیسے سینکڑوں افراد کو آگے بڑھنے کا حوصلہ، اعتماد اور اپنے حق کیلئے بات کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ حق و باطل کی تمیز کیلئے حسینی پیمانہ سے روشناس کروایا تو وہیں باوفا دوستوں نے تن من دھن اور وقت کی قربانیاں دیکر اس الہیٰ کارواں کے عظیم مقاصد کو آگے بڑھایا۔ سب لائق تحسین اور قابل ستائش ہیں۔ شیعہ قومیات کے حوالے سے کچھ اور بھی طلبہ تنظیمیں آئیں، مگر جو قومی پذیرائی آئی ایس او کے حصہ میں آئی، وہ کسی اور کا مقدر نہ بن سکی۔ اب آتے ہیں اصل مدعا کی طرف۔ آئی ایس او نے سینکڑوں نوجوانوں کو اپنی آغوش میں لیا، ان کی فکری و نظریاتی تربیت کی اور پھر پروفیشنل زندگی میں دھکیل کر لاتعلق سی ہوگئی۔ جو قدرے متمول لوگ تھے، ان سے سالانہ یا ورکشاپ ٹو ورکشاپ چندے کے عنوان سے ایک ٹوٹا پھوٹا واجبی سا تعلق باقی رکھا۔ سالانہ بنیادوں پر سابقین کے نمبر نکال کر جھاڑ پونچھ کر ان سے مالی معاونت کا ایک میسج کا تعلق باقی رہا۔۔۔۔

میں ایسے گنج ہائے گراں مایہ کو جانتا ہوں، جو تنظیم اور قوم کیلئے یے حد مفید اور ترقی کیلئے ممد و معاون ہوسکتے تھے، مگر افسوس کہ ہماری تنظیم کے پاس ایسا کوئی میکانزم، پروگرام یا ایجنڈہ ہی نہ تھا۔ میں یہاں درجنوں ایسے لوگوں سے مربوط ہوں، جو اپنی ذات میں ایک تنظیم ہیں اور لوکل سطح پر خدمات میں بھی مشغول ہیں۔ مگر تنظیم اپنے ارتقاء اور مقاصد کو آگے بڑھانے کیلئے ان سپوتوں سے فائدہ نہ اٹھا سکی۔ اس کی کئی ایک مثالیں میری نظر میں گھوم جاتی ہیں، مگر اختصار اور اپنی بات کی وضاحت کیلئے ایک مثال پیش کئے دیتا ہوں۔ توفیق خداوندی سے میں یہاں لندن میں ایک ادارہ مسلم کمیونٹی آف ایسکس کے صدر کے طور پر جب ادارہ کی ممبرشپ کو دیکھ رہا تھا تو ایک ممبر کو دیکھ کر نظر جم سی گئی۔ نام بہت جانا پہچانا سا لگا "ڈاکٹر ماجد نوروز عابدی۔” اپنی نوجوانی میں تنظیمی ورکشاپس میں ان کا نام بڑے طمطراق سے لیا جاتا تھا۔

آئی ایس او کے پہلے مرکزی صدر، constitution لکھنے والوں میں سے۔ بانیان آئی ایس او کی فہرست میں سرفہرست۔۔۔۔۔ بے توجہی میں ہاتھ فون کی طرف بڑھا۔ دوسری طرف سے سلام کی آواز سے چونکا۔ عرض کیا ماجد نوروز عابدی صاحب بات کر رہے ہیں؟ سلام دعا اور اپنے ادارے اور اس کی مسئولیت کے حوالے بات چیت کے بعد ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا، جس کو انہوں نے بخوشی قبول کر لیا۔ اگلے ہی دن ماجد نوروز عابدی صاحب اپنی بیگم کے ہمراہ ہمارے ادارے کے آفس تشریف لائے۔ بہت سی باتیں ہوئیں، مگر جو ہمارے آج کے اس موضوع سے متعلق ہیں، وہ یہ کہ انہوں نے بتایا کی کیسے آئی ایس او کی بنیاد رکھی گئی، کیسے لوگوں/دیگر تنظیموں کو ضم کیا گیا اور کیسے دستور لکھا گیا۔ گویا ایک تاریخ سینے میں لئے پھرتے تھے۔

جو شائد بہت چھبتا ہوا تیکھا سوال میں نے پوچھا کہ آپ سے آئی ایس او رابطے میں ہے تو جواب دیا نہیں۔ بہت عرصے سے قطعاً کوئی رابطہ نہیں۔ میں ورطہ حیرت میں ڈوب گیا کہ یہ وہی شخص ہے کہ جس کا نام ورکشاپس میں ہمیں پڑھایا جاتا رہا اور تعلق کی ڈور ایسی کمزور کہ کوئی ان سے مربوط ہی نہیں۔ کچھ دیر تنظیمی بے توجہی اور بے نظمی پر ماتم کیا اور پھر کچھ اور موضوعات کا احاطہ کیا۔ یہ فقط ایک مثال ہے۔ ایسی درجنوں اور سیکڑوں مثالیں موجود۔ کیسے کیسے پروفیشنل، قابل، شفیق اور مہربان لوگوں سے استفادہ کرنے میں بطور تنظیم ہم ناکام رہے۔ پچھلے دنوں کچھ سینئرز نے ایک عالم کی حمایت میں تحریر لکھی (جو یقیناً درست عمل نہ تھا) تو ایک اور گروہ نے مرکزی سابقین کمیٹی کے عنوان سے آئی ایس او کے سابقین کی "اصلی تے وڈی جماعت” ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے فوری Rebuttal جاری کیا۔

آج پھر مرکزی سابقین کمیٹی کے عنوان سے ایک پوسٹر دیکھا۔ اسوقت بھی عرض کیا تھا اور اب بھی عرض گزار ہوں۔
1۔ میں نے متعدد سینیئرز سے پوچھا تو وہ ایسی کسی کمیٹی کے وجود سے آگاہ ہی نہیں۔ یعنی انتہائی کمزور رابطے کیساتھ چنیدہ افراد کی کوئی کمیٹی ہے، جو یقیناً ہم سب کی نمائندہ نہیں۔
2۔ اس کمیٹی یا گروہ کے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔ جو چند لوگ اس کمیٹی کے حق میں ہیں، وہ بھی نہیں جانتے شائد۔۔ کیا اس پر کوئی وسیع پیمانے پر Brainstorm کرنے کی کوشش کی گئی۔؟
3۔ اگر مالی تعاون ہی بطور سینیئر ہمارا مصرف ہے تو وہ کام تو کسی نہ کسی انداز میں پہلے بھی ہو رہا ہے۔ مرکز کی مالی مجبوریاں اور ہماری دل کی مجبوریاں ہمیں کہیں نہ کہیں اکٹھا کئے رکھتی ہیں۔

4۔ ابھی جو مشتہر پوسٹر کے مطابق ایک نشست ہو رہی۔ جن لوگوں نے حتی سوشل میڈیا پر اسے مشتہر کیا ہے، وہ خود بھی اس نشست کے ایجنڈا یا مقاصد سے آگاہ نہیں۔ اس سے اندازہ کیجئے کہ یہ نشست اور گزرا وقت کتنا مفید ہوسکتا ہے۔؟
5۔ ایسی نشستوں میں چند دوستان کو سٹیج پر بٹھا کر ماضی کے دریچوں سے روشنی لینا بھی اچھی بات، مگر حال اور مستقبل پر کون بات کرے گا، کیونکہ زمانہ تو چال قیامت کی چل گیا اور ہم ابھی وہیں کھڑے ہیں، جہاں پچاس برس قبل سفر شروع کیا تھا۔ ہمارے پاس ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے مستقبل کا کیا لائحہ عمل ہے۔

ہمیں بطور سینیئر نیٹ ورکنگ کے فیز سے نکل کر قوم اور سوسائٹی کے بہترین مفاد میں عملی کاموں اور پراجیکٹس کے مرحلے میں قدم رکھنا چاہیئے تھا، مگر ہم پچاس سال میں نیٹ ورکنگ ہی نہیں کر پائے۔ تحریر طویل ہوتی جا رہی ہے۔ فی الحال یہیں چھوڑتا ہوں، باقی پھر سہی۔ مگر دست بستہ گزارش ہے کہ اسے تنقید نہ سمجھا جائے بلکہ اصلاح احوال کیلئے درد دل کہا جائے تو زیادہ موزوں ہوگا۔ ہزاروں میل دور ہوں (اگرچے دل آپ لوگوں کیساتھ دھڑکتا ہے)، لہذا شریک محفل نہیں ہوں گا، بس یہ گزارشات اہل حل و عقد تک پہنچا دیجئے گا۔ اللہ آپ سب کا حامی و ناصر اور مددگار ہو۔ جناب زہراء کی چادر کا سایہ میسر رہے۔
تحریر: تبرید حسین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button