فرانس کو ہزیمت کا سامنا، نائیجر سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے نائیجر سے اپنے فوجیوں کی واپسی کا اعلان کرتے ہوئے اس سلسلے میں کہا ہے کہ ہم نے نائیجر سے اپنے سفیر کو واپس بلانے اور اس ملک سے فوجی تعلقات ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیامی میں موجود ہمارے سفیر آئندہ چند گھنٹوں میں پیرس واپس آجائیں گے۔
صدر میکرون کے مطابق اگلے چند ہفتوں میں فرانس کے 1500 فوجی بھی نائیجر سے نکل جائیں گے۔
میکرون نے اس بات پر زور دیا کہ ہماری افواج سال کے آخر تک نائیجر سے نکل جائیں گی۔
دوسری طرف نائیجر میں ملٹری کونسل سے منسلک شہری ہوا بازی کی تنظیم نے چند گھنٹے قبل ملک کی فضائی حدود سے فرانسیسی طیاروں کے گزرنے پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔
افریقن ایئر نیوی گیشن سیفٹی ایجنسی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک بیان کے مطابق نائیجر کی ملٹری کونسل نے ملک کی فضائی حدود میں فرانسیسی طیاروں کی پرواز پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا۔ بیان کے مطابق، نائیجر کی فضائی حدود سوائے فرانسیسی طیاروں یا فرانس کی طرف سے لیز پر لیے گئے ہوائی جہازوں بشمول ایئر فرانس کے، باقی تمام ملکی اور بین الاقوامی تجارتی پروازوں کے لیے کھلی ہیں۔
یہ صورت حال ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب نائیجر کی حکمران فوجی کونسل کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے فرانس کے تعاون سے نائیجر کے نمائندوں کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت سے روک دیا۔
آمادو عبدالرحمن نے "RTN” ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے فرانس اور مغربی افریقی ریاستوں کی اقتصادی تنظیم (ECOWAS) کے ممالک کے سربراہان کے ساتھ ملی بھگت کرکے نائیجر کے نمائندے کو اجلاس میں شرکت سے روک دیا جس کے سبب نائیجر کے نمائندے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس میں سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے اپنا مشن پورا نہیں کر پائے۔
اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ نائیجر کے فوجی حکمران اراکین اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسے نائیجر کے اندرونی معاملات میں مداخلت تصور کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ نائیجر میں بغاوت کے بعد فرانس مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ فرانس مخالف جذبات میں شدت اس وقت دوچند ہوگئی جب پیرس کی جانب سے نائیجر کی فوجی کونسل کے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے حکم کو نظر انداز کیا جانے لگا۔
اس دوران فرانسیسی فوجی اڈے کے باہر مظاہرے ہوئے جہاں مظاہرین نے فرانسیسی رنگوں میں ملبوس بکرے کا گلا کاٹ دیا اور فرانسیسی جھنڈے سے ڈھکے تابوت اٹھائے ہوئے تھے جب کہ بائیجر فوج اس احتجاج کو دیکھتی رہی۔
بعض مظاہرین نے فرانس سے نائیجر چھوڑنے کا مطالبہ کرتے ہوئے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔
رائٹرز کے نامہ نگاروں نے کہا کہ یہ بغاوت کے بعد سب سے بڑی فرانس مخالف ریلی تھی، جس میں عوام کی طرف سے فرانس کا مذاق اڑاتے ہوئے فوجی حکومت کی حمایت کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ 26 جولائی کو نائیجر کے صدارتی محافظ دستوں نے اس ملک کے صدر محمد بازوم کو صدارتی محل کے اندر سے حراست میں لے کر انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
28 جولائی کو نائیجر کی بغاوت کے منصوبہ سازوں نے جنرل عبدالرحمن چیانی کو ملک کی عبوری کونسل کا سربراہ مقرر کیا۔
نائیجر 1.3 ملین مربع کلومیٹر کے رقبے کے ساتھ مغربی افریقی خطے کا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کی 24 ملین آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
اگرچہ نائیجر دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے لیکن اس کے پاس یورینیم کے سب سے بڑے ذخائر بھی ہیں۔
یہ ملک 1960 تک فرانس کی کالونی تھا اور اسی سال اپنی آزادی کا اعلان کیا۔