مقالہ جات

جولانی صاحب، اسرائیلی دوستی کا مزہ لیں

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

شام کا دفاع بشار الاسد اور مقاومت سے قائم تھا۔ بشار الاسد اور حافظ الاسد کی سب سے بڑی خوبی جو ان کی تمام خامیوں کو چھپا دیتی تھی، وہ ان کا اسرائیل مخالف ہونا تھا۔ شام ہمیشہ سے فلسطین کے دفاع کی پہلے صف میں کھڑا رہا۔ اسرائیل اور مقامی مسلمان ممالک نے مل کر امریکی ایماء پر بشار الاسد کی حکومت کو گرایا۔ بشار کی حکومت نہیں گری، دراصل شام کا دفاع گرگیا۔ بشار کی فوج ایک تجربہ کار فوج تھی، جس نے دہائیوں سے اسرائیل کو گولان میں روکا ہوا تھا اور اسرائیل پر دباو بھی برقرار رکھا ہوا تھا۔ آج جولانی کی شکل میں شام پر سابق داعشی مسلط ہے، جو ہر آنے والے حکم کی اطاعت کرنا چاہتا ہے، یہاں تک کہ اگر اسے قبول کر لیا جائے تو گولان سے دستبردار ہونے کے لیے بھی تیار ہے۔ یہ پورا گروہ بنیادی طور پر فرقہ پرست ہے، کبھی علویوں پر چڑھائی ہوتی ہے اور کبھی مسیحیوں کو برباد کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور اب دروزوں کے خلاف نسل کشی کی مہم شروع کر دی گئی ہے۔

اتوار سے اب تک شام کے صوبہ سویدا میں کم از کم 350 افراد کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی جانب سے فضائی حملوں میں شامی اہداف کو نشانہ بنانے کا سلسلہ 15 جولائی سے شروع ہوا۔ جہاں منگل کو فضائی حملے سویدا میں سکیورٹی فورسز اور گاڑیوں کو نشانہ بنانے تک محدود تھے، وہیں بدھ 16 جولائی کو اسرائیل نے دمشق میں صدارتی محل کے قریبی علاقے، شامی وزارت دفاع اور شامی فوج کے ہیڈ کوارٹر پر حملے کرتے ہوئے اپنے حملوں کا دائرہ وسیع کر دیا۔ ویسے اس بمباری کو الجزیزہ نے براہ راست دکھایا، یوں لگتا ہے کہ الجزیرہ کو یہ ڈیوٹی دی گئی ہے کہ وہ عرب حکام کو خوفزدہ کرنے کے لیے بمباری والی جگہ پر پہلے سے موجود رہ کر اسرائیلی مقاصد کی تکمیل کرے۔

شام پر حملہ ہوا ہے اور جولانی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ کھلی جنگ کا آپشن موجود تھا، تاہم امریکہ، سعودی عرب اور ترکی کی ثالثی نے خطے کو بچا لیا۔ جولانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ شام کے عوام جنگ سے نہیں ڈرتے اور اس صورتحال میں ان کے پاس دو آپشنز تھے۔ یا تو ہم اقلیتی دروز فرقے کی سلامتی کی قیمت پر اسرائیل کے ساتھ کھلے تصادم کی طرف جاتے۔ یا دروز کے معززین اور شیخوں کو ہوش کے ناخن لینے کی اجازت دی جائے اور قومی مفاد کو ان لوگوں پر ترجیح دی جائے، جو دوسروں کی ساکھ کو داغدار بنانا چاہتے ہیں۔ اسرائیل نے شام پر حملہ کیا ہے، ایسے میں ہمارا موقف کیا ہونا چاہیئے؟ تو جناب ہم شامی عوام کے ساتھ ہیں اور ان پر ظلم و بربریت کرنے والے ہر گروہ کے خلاف ہیں۔ اسرائیل کے خلاف کتا بھی بھونکے تو اس کی حمایت کریں گے۔

ایک بات یاد رکھیں، جس دروز کمیونٹی کے خلاف جولانی نے لشکر کشی کی تھی، ان کی غالب اکثریت اسرائیل میں ہوتے ہوئے بھی شامی مفادات کی امین رہی ہے اور اسرائیل کو قابض اور خود کی شناخت شامی بتاتے ہیں۔ وہ اسرائیل اور جولانی کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لگ یہ رہا ہے کہ جولانی اور اسرائیل مل کر دروز علاقوں کو شام سے الگ کرکے اسرائیل کو دینا چاہتے ہیں۔ آپ دورز رہنماوں کی تقاریر سنیں، وہ اسرائیل اور جولانی دونوں کے جبر کی مذمت کر رہے ہیں۔ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دروز شیخ اسرائیل اور جولانی کو سنا رہا ہے۔ شام کے موجودہ حکمران جولانی صاحب اسرائیل سے جنگ کا اعلان کریں، ہم ان کے ساتھ ہیں۔ اسرائیل نے شام پر حملہ کیا، ہم اسرائیل کے شدید خلاف ہیں اور اس نسل پرست ریاست کی مذمت کرتے ہیں۔ جولانی صاحب کو اپنے بیانات خود دیکھنے چاہییں، جن میں یہ اسرائیل مخالف مقاومتی فورسز کو دشمن قرار دے رہے ہیں اور اسرائیل کو آفر کریں کہ آپ کے دشمنوں کے ساتھ ملکر لڑیں گے۔

ہم ایسے حکمران کی کسی طور پر حمایت نہیں کرسکتے۔ ہماری حمایت صرف شام کی عوام کے لیے ہوگی۔ قارئین کو تل ابیت میں لگے اس پینا فلیکس کو ضرور یاد رکھنا چاہیئے، جس میں محترم جولانی صاحب کی تصویر شامل تھی اور ابراہیم اکارڈ کی کامیابی کے گن گائے گئے تھے۔ کاشف رضا صاحب جہاندیدہ صحافی ہیں، لکھتے ہیں کہ "اسرائیل گولان کے علاقے سے عراقی کردستان تک ایک کاریڈور بنانے کا خواہاں ہیں، جسے "ڈیوڈ کاریڈور” کہا جا رہا ہے، جس کے لیے اسرائیل شام کے جنوب میں عراقی کردستان طرز پر خود مختار اسرائیل نواز دروز حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔” یہ بہت ہی خوفناک منصوبہ ہے، جس میں اسرائیل کی عراق تک براہ راست رسائی ہو جائے گی اور عراقی کردستان پہلے سے ان کی دسترس میں ہے۔ شام اور عراق کے درمیان اسرائیل کے دفاع کی پوری ریاست موجود ہوگی۔

بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ اب جولانی سے جو کام لینا تھا، وہ لے لیا ہے، اب شائد اس سے بھی جان چھڑا لی جائے۔ پاکستانی صحافی ہرمیت سنگھ نے لکھا ہے: "اسرائیلی وزیر اتمار بن گویر کا نیا اعلان: شامی صدر احمد الشرع کو ہٹانا واحد حل ہے۔” گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی راہ ہموار کرنے کیلئے جولان کو ہتھیار بنایا گیا۔ اب جولانی کو بھی راستے سے ہٹانے کا منصوبہ تیار۔: اسرائیل کی نہ دوستی محفوظ، نہ دشمنی! جو سانپ کو دوست سمجھے، زہر اُس کا مقدر بنے گا۔ حرب اللہ نے اس اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے اور بیان میں کہا ہے "یہ بزدلانہ جارحیت دراصل صیہونی دشمن کی سازشوں کا نیا باب ہے، جس کا مقصد ملکوں پر حملہ آور ہونا اور ایک ہی قوم کے لوگوں کے درمیان اختلاف اور تفرقہ پیدا کرنا ہے۔ دشمن خود کو لوگوں کی سلامتی کا ضامن اور نجات دہندہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے، جبکہ حقیقت میں وہ ان کے لیے سب سے بڑا خطرہ اور پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔

حزب اللہ نے نشاندہی کی کہ تجربہ ثابت کرتا ہے کہ یہ دشمن نہ تو کسی معاہدے یا عہد کا احترام کرتا ہے، نہ ہی کسی معاہدے کی پاسداری کرتا ہے، بلکہ صرف طاقت کی زبان کو سمجھتا ہے۔ مزید یہ کہ اسرائیلی دشمن مختلف اقوام اور ملکوں کو اپنے نوآبادیاتی منصوبے کے لیے صرف اوزار سمجھتا ہے اور ان سے صرف کمزور اور مطیع رہنے کی توقع رکھتا ہے۔” اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی اس کی شدید مذمت کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے ایکس پر لکھا کہ یہ سب کچھ افسوسناک ضرور ہے، لیکن حیران کن نہیں تھا، یہ پہلے ہی سے اندازہ لگایا جا رہا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگلا حملہ کس ملک کے دارالحکومت پر ہوگا؟ اسرائیلی حکومت حدیں پار کرچکی ہے اور صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے۔ خطے کے تمام ممالک اور پوری دنیا کو مل کر اس کی جارحیت روکنے کے لیے متحد ہونا چاہیئے۔ وہ شام کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا حامی ہے اور ہمیشہ شامی عوام کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

جولانی صاحب اسرائیل کے ساتھ دوستی بڑھانا چاہ رہے ہیں اور باکو میں بھی براہ راست مذاکرات کر رہے ہیں۔ انہیں چاہیئے کہ اسرائیل کی تاریخ پڑھیں اور دیکھیں اسرائیل نے کس ملک کے ساتھ اپنے معاہدوں کی پاسداری کی ہے۔؟ اسرائیل کے پھیلاو سے جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوگا، وہ شام ہی ہے، جس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں گے۔ خطے کو جیسا ہے، ویسا دیکھنے کی کوشش کریں، شام کے دوست وہ ہیں، جو اسرائیل کے دشمن ہیں۔ جو اسرائیل کے دوست ہیں، وہ شام کے دوست ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ بات وقت ثابت کرے گا کہ جنہیں آج جولانی صاحب دوست سمجھ رہے ہیں، انہوں نے شام کو فروخت کرنے کی کتنی قیمت وصول کی ہے۔؟ صرف اندازہ لگانے کے لیے اپنے قریبی چند ممالک کے غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد کی تجارت کی مقدار ہی دیکھ لیں، آپ کو معلوم پڑ جائے گا کہ یہ لوگ فلسطینیوں کے خون کی کتنی بھاری قیمت وصول کر رہے ہیں۔ ہاں آپ بھی اسرائیلی دوستی کا مزہ لے لیں، اس کے دن تھوڑے ہی ہوتے ہیں، لگتا ہے آپ کے لیے تو کچھ زیادہ ہی کم ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button