مضامینہفتہ کی اہم خبریں

عاشور کے دن بنی ھاشم کا پہلا شھید حضرت علی اکبر (‏ع) تھے

گیارہ شعبان سنہ 33 ھ ق کو حضرت امام حسین (ع) کے فرزند حضرت علی اکبر (ع) کی مدینے میں ولادت باسعادت ہوئی ۔

حضرت علی اکبر (ع) رسول اکرم (ص) سے بہت شباہت رکھتے تھے ۔آپ (ع) نے سنہ 61 ھ ق میں اموی حکومت کے ظلم و ستم کے خلاف اپنے والد بزرگوار حضرت امام حسین (ع) کی تحریک میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ عاشور کے دن کربلا کے میدان میں امام حسین (ع) کے مقابلے پر آنے والی یزیدی فوج سے دلیری کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ۔

تفصیل:

ولادت حضرت علی اکبر علیہ السلام
حضرت علی اکبر (ع) بن ابی عبداللہ الحسین (ع) 11 شعبان سن43 ھ (1) کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ـ
آپ امام حسین بن علی بن ابی طالب (ع) کے بڑے فرزند تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام لیلی بنت مرّہ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہے ـ لیلی کی والدہ میمونہ بنت ابی سفیان جوکہ طایفہ بنی امیہ سے تھیں ـ (2)
اس طرح علی اکبر (ع) عرب کے تین مہم طایفوں کے رشتے سے جڑے ہوے تھے ـ
والد کیطرف سے طایفہ بنی ھاشم سے کہ جس میں پیعبر اسلام (ص) حضرت فاطمہ (س) ، امیر المومنین علی بن ابیطالب (ع) اور امام حسن (ع) کے ساتھ سلسلہ نسب ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے دو طایفوں سے بنی امیہ اور بنی ثقیف یعنی عروہ بن مسعود ثقفی ، ابی سفیان ، معاویہ بن ابی سفیان اور ام حبیبہ ھمسر رسول خدا (ص) کے ساتھ رشتہ داری ملتی تھی اور اسی وجہ سے مدینہ کے طایفوں میں سب کی نظر میں آپ خاصا محترم جانے جاتے تھے ـ ابو الفرج اصفہانی نے مغیرہ سے روایت کی ہے کہ: ایک دن معاویہ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ : تم لوگوں کی نظر میں خلافت کیلۓ کون لایق اور مناسب ہے ؟ اسکے ساتھیوں نے جواب دیا : ہم تو آپ کے بغیر کسی کو خلافت کے لایق نہیں سمجھتے ! معاویہ نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے ـ بلکہ خلافت کیلۓ سب سے لایق اور شایستہ علی بن الحسین (ع) ہے کہ اسکا نانا رسول خدا (ص) ہے اور اس میں بنی ھاشم کی دلیری اور شجاعت اور بنی امیہ کی سخاوت اور ثقیف کی فخر و فخامت جمع ہے (3)
حضرت علی اکبر (ع) کی شخصیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافی خوبصورت ، شیرین زبان پر کشش تھے ، خلق و خوی ، اٹھنا بیٹھنا ، چال ڈال سب پیغمبر اکرم (ص) سے ملتا تھا ـ جس نے پیغبر اسلام (ص) کو دیکھا تھا وہ اگر دور سے حضرت علی اکبر کو دیکھ لیتا گمان کرتا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) ہیں ۔ اسی طرح شجاعت اور بہادری کو اپنے دادا امیر المومنین علی (ص) سے وراثت میں حاصل کی تھی اور جامع کمالات ، اور خصوصیات کے مالک تھے ـ (4)
ابوالفرج اصفھانی نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی اکبر (ص) عثمان بن عفان کے دور خلافت میں پیدا ہوے ہیں (5) اس قول کے مطابق شھادت کے وقت آنحضرت 25 سال کے تھے ـ
حضرت علی اکبر (ع) نے اپنے دادا امام علی ابن ابی طالب (ع) کے مکتب اور اپنے والد امام حسین (ع) کے دامن شفقت میں مدینہ اور کوفہ میں تربیت حاصل کرکے رشد و کمال حاصل کرلیا ـ
امام حسین (ع) نے ان کی تربیت اور قرآن ، معارف اسلامی کی تعلیم دینے اور سیاسی اجتماعی اطلاعات سے مجہز کرنے میں نہایت کوشش کی جس سے ہر کوئی حتی دشمن بھی ان کی ثنا خوانی کرنے سے خودکو روک نہ پات تھا ـ
بہر حال ، حضرت علی اکبر (ع) نے کربلا میں نہایت مؤثر کردار نبھایا اور تمام حالات میں امام حسین (ع) کے ساتھ تھے اور دشمن کے ساتھ شدید جنگ کی ـ (6)
شایان زکر ہے کہ حضرت علی اکبر (ع) عرب کے تین معروف قبیلوں کے ساتھ قربت رکھنےکے باوجود عاشور کے دن یزید کے شپاہیوں کے ساتھ جنگ کے دوران اپنی نسب کو بنی امیہ اور ثقیف کی طرف اشارہ نہ کیا ، بلکہ صرف بنی ھاشمی ہونے اور اھل بیت (ع) کے ساتھ نسبت رکھنے پر افتخار کرتے ہوے یوں رجز خوانی کرتے تھے :
أنا عَلی بن الحسین بن عَلی نحن و بیت الله اَولی بِالنبیّ
أضرِبكُم بِالسّیف حتّی یَنثنی ضَربَ غُلامٍ هاشمیّ عَلَویّ
وَلا یَزالُ الْیَومَ اَحْمی عَن أبی تَاللهِ لا یَحكُمُ فینا ابنُ الدّعی
عاشور کے دن بنی ھاشم کا پہلا شھید حضرت علی اکبر (‏ع) تھے اور زیارت معروفہ شھدا میں بھی آیا ہے : السَّلامُ علیكَ یا اوّل قتیلٍ مِن نَسل خَیْر سلیل.(7)
حضرت علی اکبر (ع) نے عاشور کے دن دو مرحلوں میں عمر سعد کے دو سو سپاہیوں کو ھلاک کیا اور آخر کار مرّہ بن منقذ عبدی نے سرمبارک پر ضرب لگا کر آنحضرت کو شدید زخمی کیا اور اسکے بعد دشمن کی فوج میں حوصلہ آیا اور حضرت پر ہر طرف سے حملہ شروع کرکے شھید کیا ـ
امام حسین (ع) انکی شھادت پر بہت متاثر ہوے اور انکے سرہانے پہنچ کر بہت روے اور جب خون سے لت پت سر کو گود میں لیا ، فرمایا: عَلَی الدّنیا بعدك العفا.(8)
شھادت کے وقت حضرت علی اکبر (ع) کی عمر کے بارے میں اختلاف ہے ـ بعض نے 18 سال ، بعض نے 19 سال اور بعض نے 25 سال کہا ہے (9)
مگر یہ کہ امام زین العابدین (ع) سے بڑے تھے یا چھوٹے اس پر بھی مورخوں اور سیرہ نویسوں کا اتفاق نہیں ہے ـ البتہ امام زین العابدین (ع) سے روایت نقل کی گی ہے کہ جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ سن کے اعتبار سے علی اکبر (ع) سے چھوٹے تھے ـ امام زین العابدین (ع) نے فریایا ہے : کان لی اخ یقال لہ علی ، اکبر منّی قتلہ الناس ـ ـ ـ (10)
حوالہ جات:
1- مستدرك سفینه البحار (علی نمازی)، ج 5، ص 388
2- أعلام النّساء المؤمنات (محمد حسون و امّ علی مشكور)، ص 126؛ مقاتل الطالبیین (ابوالفرج اصفہانی)، ص 52
3- مقاتل الطالبیین، ص 52؛ منتہی الآمال (شیخ عباس قمی)، ج1، ص 373 و ص 464
4- منتہی الآمال، ج1، ص 373
5- مقاتل الطالبیین، ص 53
6- منتہی الآمال، ج1، ص 373؛ الارشاد (شیخ مفید)، ص 459
7- منتہی الآمال، ج1، ص 375
8- ایضاً
9- ایضاً اور الارشاد شیخ مفید (رح) ص 458.
10- نسب قریش (مصعب بن عبدالله زبیری)، ص 85، الطبقات الكبری (محمد بن سعد زہری)، ج5، ص 211

…..

زندگي نامہ علي اكبر (ع)

حضرت علي اكبر (ع) ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کے فرزند ایک روایت کے مطابق 11 شعبان سنہ 33 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ دوسری روایت میں ان کی ولادت کی تاریخ 11 شعبان المعظم سنہ 43 بجری بتا‏ئی گئی ہے۔

والد ریحانة الرسول (ص) امام حسین بن علی بن ابیطالب بن عبدالمطلب بن ہاشم اور والدہ لیلی بنت ابی مرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہیں۔
بنوہاشم کے قابل احترام خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، رسول اللہ اور امیرالمؤمنین اور حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ (ص) سے نسبت رکھتے ہیں، نانا سید المرسلین، دادا امام والد امام چچا امام بھائی امام اور بھتیجا امام.
روایت ہے کہ حضرت علی اکبر(ع) ایک روز اپنے والد گرامی حضرت حسین بن علی (ع) کا پیغام پہنچانے مدینہ کے اموی گورنر کے پاس گئے۔
والی نے پوچھا: آپ کا نام کیا ہے؟
فرمایا: علی
پوچھا: آپ کے بھائی کا نام کیا ہے؟
فرمایا: علی
علی کا دشمن اور علی کے نام کا دشمن گورنر غضبناک ہوا اور کہا: علی علی علی، ما یرید ابوک آپ کے والد چاہتے کیا ہیں کہ اپنے تمام بیٹوں پر علی کا نام رکھتے ہیں؟
علی اکبر (ع) والد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ماجرا کہہ سنایا تو اباعبداللہ الحسین (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم اگر اللہ تعالی مجھے دسیوں بیٹے بھی عطا فرمائے سب کے نام علی رکھوں گا اور اگر دسیوں بیٹیاں عطا فرمائے تو سب کے نام فاطمہ رکھوں گا۔
علی اکبر (ع) خوش چہرہ، خوبصورت، خوش زبان اور نہایت دلیر نوجوان تھے اور سیرت و خُلق اور صباحت رخسار کے لحاظ سے رسول اللہ (ص) کے شبیہ تمام قد تھے۔ شجاعت اور پہلوان افگنی میں اپنے جد امیرالمؤمنین (ع) کا آئینہ تھے اور کمالات و محاسن و محامد کا مجموعہ تھے۔
شیخ جعفر شوشتری کتاب "خطائص الحسینیہ” میں لکہتی ہین: اباعبداللہ الحسین (ع) جب علی اکبر کو لشکر اعداء کی طرف روانہ کررہے تھے تو فرمایا: « يا قوم، ہولاءِ قد برز عليہم غلام، اَشبہ الناس خَلقاً و خُلقاً و منطقاً برسول اللہ (ص)۔ میں ایسا نوجوان میدان جنگ اور موت کے منہ میں بھیج رہاہوں جو چہرے، اخلاق اور منطق اور طرز کلام کے لحاظ سے تمام لوگوں سے زیادہ تیرے رسول سے مشابہت رکھتا ہے۔
خاندان بنوہاشم کو جب رسول اللہ (ص) کی یاد ستاتے تو علی اکبر (ص) کا دیدار کیا کرتے تھے۔
ابوالفرج اصفہانی مقاتل الطالبیین میں لکھتے ہیں: علی اکبر (ع) تیسرے خلیفہ کے دور میں پیدا ہوئے ان کا یہ قول اس روایت پر مبنی ہے کہ علی اکبر (ع) کربلا میں پچیس سالہ نوجوان تھے۔ اور ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ (ع) کی عمر اٹھائیس برس تھی۔ مدینہ اور کوفہ میں اپنے والد امام حسین (ع) اور دادا امیرالمؤمنین (ع) نیز پھوپھی سیدہ زینب (ع) کی آغوش میں پروان چڑھے۔
امام حسین علیہ السلام نے قرآن و اسلامی معارف و تعلیمات سمیت اپنے فرزند کو اس روز کے علوم و فنون اور عالم اسلام کے سیاسی مسائل و معلومات کی تعلیم دی تھی اور انہیں ایک انسان کامل بنارکھا تھا یہاں تک کہ دشمنوں نے بھی ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے اور حتی اسی ابوالفرج اصفہانی نے ہی انہیں خلافت مسلمین کا سب سے زیادہ حقدار قرار دیا ہے جبکہ علی اکبر اس وقت بالکل نوجوان تھے گو کہ معاویہ نے امام علی علیہ السلام کے خلاف بغاوت کی تھی امام حسن (ع) کو شہید کردیا تھا اور امام حسین (ع) اس کو نظر ہی نہیں آرہے تھے۔
بہرصورت علی اکبر (ع) کربلا میں انقلاب عاشورا میں فعال کردار ادا کیا اور دین کے دشمنوں کے دانت کھٹے کردیئے۔
شیخ جعفر شوشتری خصائص الحسینیہ میں لکھتے ہیں: امام حسین (ع) اپنی خاندان اور انصار و اعوان کے ہمراہ کربلا کی طرف جارہے تھے تو راستے میں آپ (ع) پر نیند کی سی کیفیت طاری ہوئی اور حالت مکاشفہ حاصل ہوئی۔ جب اس کیفیت سے نکلے تو یہ آیت تلاوت فرمائی: انا للہ و انا الیہ راجعون.
علی اکبر (ع) دامن امامت میں تربیت پاچکے تھے اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ امام وقت کا کوئی کلام بے مقصد نہیں ہوتا چنانچہ انھوں نے والد بزرگوار سے دریافت کیا: اس آیت کی تلاوت کا سبب کیا تھا؟
امام (ع) نے فرمایا: اسی وقت میں دیکھا کہ یہ قافلہ آگے آگے جارہا ہے اور موت اس کے پیچھے پیچھے آرہی ہے۔ یا یہ کہ یہ قافلہ اپنی قتلگاہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔
علی اکبر (ع) نے عرض کیا: پدر جان! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟
امام (ع) نے فرمایا: اس خدا کی قسم جس کی طرف ہم سب لوٹنے والے ہیں ہم حق پر ہیں۔
علی اکبر (ع) نے کہا: پس جب ہم برحق ہیں تو ہمیں موت کی کوئی پروا نہیں ہے۔
امام اپنے فرزند دلبند کے اس رد عمل سے بہت خوش ہوئے اورفرمایا: خداوند متعال تمہیں جزائے خیر عطا فرمائے اتنی ہی بڑی جزا جو ایک بیٹا اپنے باپ سے لیتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button