حضرت امام حسن عسکری (ع) کی ولادت با سعادت
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام 8 ربیع الثانی سن 232 ہجری قمری بروز جمعہ مدینہ منورہ میں جناب حدیثہ خاتون کے بطن مبارک سے متولد ہوئے۔ آپ کی ولادت کے بعد آپ کے والد حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے حضرت محمد مصطفی (ص) کے رکھے ہوئے نام، حسن بن علی سے موسوم کیا۔
شواہدالنبوت ص 210
صواعق محرقہ ص 124
نور الابصار ص 110
جلاء العیون ص 295
ارشاد مفید ص 502
دمعہ ساکبہ ص 163
ینابع المودة
آپ کی کنیت ابو محمد تھی اور آپ کے بہت سے القاب تھے۔ جن میں عسکری، ہادی، زکی خالص، سراج اور ابن الرضا زیادہ مشہور ہیں۔
نور الابصار ص 150
شواہد النبوت ص 210
دمعہ ساکبہ ج 3 ص 122
مناقب ابن شہر آشوب ج 5 ص 124
آپ کا لقب عسکری اس لیے زیادہ مشہور ہوا کہ آپ جس محلے میں بمقام سرمن رائے رہتے تھے، اسے عسکر کہا جاتا تھا اور بظاہر اس کی وجہ یہ تھی کہ جب خلیفہ معتصم باللہ نے اس مقام پر لشکر جمع کیا تھا اور خود بھی قیام پذیر تھا تو اسے عسکر کہنے لگے تھے، اور خلیفہ متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ سے بلوا کر یہیں مقیم رہنے پر مجبور کیا تھا نیز یہ بھی تھا کہ ایک مرتبہ خلیفہ وقت نے امام زمانہ کو اسی مقام پر نوے ہزار لشکر کا معائنہ کرایا تھا اور امام (ع) نے اپنی دو انگلیوں کے درمیان سے اسے اپنے خدائی لشکر کا مشاہدہ کرا دیا تھا انہیں وجوہ کی بناء پر اس مقام کا نام عسکر ہو گیا تھا، جہاں امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام مدتوں مقیم رہ کر عسکری مشہور ہو گئے۔
بحار الانوار ج 12 ص 154
وفیات الاعیان ج 1 ص 135
مجمع البحرین ص 322
دمعہ ساکبہ ج 3 ص 163
تذکرة ا لمعصومین ص 222
آپ کا عہد حیات اور بادشاہان وقت:
آپ کی ولادت 232 ہجری میں اس وقت ہوئی جبکہ واثق باللہ ابن معتصم بادشاہ وقت تھا جو 227 ہجری میں خلیفہ بنا تھا ۔ پھر 233 ہجری میں متوکل خلیفہ ہوا۔ جو حضرت علی (ع) اور ان کی اولاد سے سخت بغض و عناد رکھتا تھا، اور ان کی منقت کیا کرتا تھا۔ اسی نے 236 ہجری میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت جرم قرار دی اور ان کے مزار کو ختم کرنے کی کوشش کی اور اسی نے امام علی نقی علیہ السلام کو جبرا مدینہ سے سرمن رائے میں طلب کرا لیا، ، اور آپ کو گرفتار کرا کے آپ کے مکان کی تلاشی کرائی ، پھر 247 ہجری میں مستنصر بن متوکل خلیفہ وقت ہوا پھر 248 ہجری میں مستعین خلیفہ بنا، پھر 252 ہجری میں معتز باللہ خلیفہ ہوا، اسی زمانے میں امام علیہ السلام کو زہر سے شہید کر دیا گیا پھر 255 ہجری میں مہدی باللہ خلیفہ بنا، ان تمام خلفاء نے آپ کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جو آل محمد کے ساتھ برتاؤ کیے جانے کا دستور چلا آ رہا تھا۔
امام الحسنالعسکری(ع )، آیت اللہ ، سید مہدی،
الامام الحسن العسکری(ع)، ملا عیدی، عامر،
معانی الاخبارالرضا، صدوق، ص 65.
دلائل الامامة، ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، ص 223.
تاریخ ابو الفداء
تاریخ ابن الوردی
حیواة الحیوان
تاریخ کامل
صواعق محرقہ
وفیات الاعیان
نور الابصار
امام حسن عسکری (ع) کا پتھر پر مہر لگانا:
ثقۃ الاسلام یعقوب کلینی اور امام اہلسنت علامہ جامی نے لکھا ہے کہ:
ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں ایک خوبصورت یمنی آیا اور اس نے ایک سنگ پارہ یعنی پتھر کا ٹکڑا پیش کر کے خواہش کی کہ آپ اس پر اپنی امامت کی تصدیق میں مہر کر دیں حضرت نے مہر نکالی اور اس پر لگا دی آپ کا اسم گرامی اس طرح کندہ ہو گیا جس طرح موم پر لگانے سے کندہ ہوتا ہے۔
اصول کافی، کلینی، یعقوب، ج 1، ص 503
پہلا دور بچپن کے وہ 13 سال ہیں جو انہوں نے مدینہ میں گزارے۔
دوسرا دور انہوں نے امامت سے قبل سامرا میں گزارا۔
تیسرا دور ان کی امامت والے 6 سال ہیں۔ ان چھ سالوں میں حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہ تھے۔ اس وقت وہاں پر خلیفہ ہارون کی تقلید کرنے والے اپنی ظاہری طاقت کا مظاہرہ کرتے مگر امام ہمیشہ باطل کے مقابلے کے لیے میدان عمل میں کار فرما رہے۔ اپنی امامت کے چھ سالوں میں سے تین سال امام علیہ السلام قید میں رہے۔ قید خانے کے انچارج نے دو ظالم غلاموں کو مقرر کر رکھا تھا کہ آنحضرت علیہ السلام کو آزار پہنچائیں لیکن جب ان دو غلاموں نے امام علیہ السلام کے حسن سلوک اور سیرت کو نزدیک سے دیکھا تو وہ امام کے گرویدہ ہو گئے۔
جب ان غلاموں سے امام حسن عسکری کا حال پوچھا جاتا تو وہ بتاتے کہ یہ قیدی دن کو روزہ رکھتا ہے اور شب بھر اپنے معبود کی عبادت کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور کسی سے بھی بات چیت نہیں کرتے، وہ (امام حسن عسکری) اس دور کے زاہد ترین انسان ہیں۔
عبید اللہ خاقان کے بیٹے نے کہا ہے کہ:
میں لوگوں سے ہمیشہ امام حسن عسکری کے بارے میں پوچھتا رہتا تھا۔ مجھے ہمیشہ اس بات کا احساس ہوتا کہ لوگوں کے دلوں میں حضرت امام حسن عسکری (ع) کے لیے احترام اور محبت پائی جاتی تھی۔ امام حسن عسکری (ع) اپنے خاص شیعوں سے ملا کرتے تھے مگر پھر بھی عباسی خلیفہ اپنی حکومت کو تحفظ دینے کے لیے زیادہ تر ان پر نظر رکھتا اور انہیں قید میں رکھ کر عام لوگوں سے ملاقات سے روکا کرتا تھا۔
الارشاد، شیخ مفید، قم، مکتبة بصیرتی، ص 335.
الاتحاف بحب الاشراف، شیخ عبد الله الشبراوی، ص 178
اہلبیت علیہم السلام محور خیر و برکت:
ابو ہاشم جعفری نے حضرت امام حسن عسکری (ع) سے آیت:
ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْکِتابَ الَّذِینَ اصْطَفَیْنا مِنْ عِبادِنا فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سابِقٌ بِالْخَیْراتِ ،
کے بارے میں پوچھا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
کلّهم من آل محمّد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ( الظالم لنفسه ) الّذی لا یقرّ بالإمام و ( المقتصد ) العارف الإمام، و ( السابق بالخیرات ) الإمام.
سب محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے خاندان میں سے ہیں۔ جس نے امام کا اعتراف نہ کیا اس نے خود پر ستم کیا ، اور جس نے امام کو کما حقہ پہچان لیا اس نے میانہ روی اختیار کی۔ خدا کے احکام اور نیکی میں پہل کرنے والی بھی امام ہی کی ذات اقدس ہے۔
تفسیر نور الثقلین، عروسی حویزی، تحقیق: سید هاشم رسولی محلاتی، ج 4، ص 364.
قالَ الإمامُ الْحَسَنِ الْعَسْکَری (علیہ السلام): « مَنْ لَمْ یَتَّقِ وُجُوهَ النّاسِ لَمْ یَتَّقِ اللهَ. »
امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں: جو لوگوں سے بیباکی سے پیش آئے، اخلاقی مسائل اور لوگوں کے حقوق کی رعایت نہ کرے ، وہ خدا کے تقویٰ کی بھی رعایت نہیں کرتا۔
بحار الأنوار، مجلسی، محمد تقی، ج 68، ص 336
امام زمان (عج) کی امامت اور ان کی غیبت کے وسائل کی فراہمی:
احمد ابن اسحاق اس سوچ میں تھا کہ حضرت امام حسن عسکری (ع) کے بعد آپ کا جانشین کون ہو گا، اسی اثناء میں امام نے شفقت سے اس کی طرف رخ کیا اور فرمایا : اے احمد بن اسحاق ! خدا نے جس دن آدم کو خلق کیا، اس دن سے آج تک دنیا کو اپنی حجت سے خالی نہیں چھوڑا اور نہ قیامت تک خالی چھوڑے گا، خدا اپنی حجت کی موجودگی کی برکت سے زمین سے بلاؤں کو دور ، اس پر باران رحمت کا نزول اور اس میں پوشیدہ رازوں کو عیاں کرتا ہے۔
احمد ابن اسحاق نے سوال کیا، آپ کے بعد امام کون ہے ؟ امام علیہ السلام اٹھ کر اندر تشریف لے گئے اور اندر سے ایک تین سالہ بچے کو کہ جس کا چہرہ مبارک چودہویں کے چاند کی طرح روشن تھا ، اپنی گود میں لے آئے اور فرمایا:” اگر تم خدا اور اماموں کے نزدیک محبوب نہ ہوتے تو ہرگز تمہاری اس سے ملاقات نہ کرواتا۔ یہ رسول خدا، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ہم نام اور ہم کنیت ہے ، یہ اس وقت زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جب زمین ظلم و جور سے پر ہو چکی ہو گی…..
یہ مصلحت خدا سے غیبت میں چلا جائے گا ، جب یہ غیبت میں ہو گا، تو غیبت کے طولانی ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس کے بارے میں شک اور تردید کا شکار ہو جائیں گے، سوائے ان لوگوں کے کہ جنکے اعتقاد امامت کو خداوند سالم اور ثابت رہنے کی توفیق دے گا اور انکو گمراہیوں سے نجات دے گا۔
کمال الدین و النعمه، شیخ صدوق،ج 2، صص 118 و 119.
امام حسن عسکری (ع) کی زندگی کا مختصر جائزہ:
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا مقابلہ بھی اپنے اجداد طاہرین کی طرح اس وقت کے ظالم ، جابر ، غاصب ، عیار اور مکار عباسی خلفا سے تھا۔ آپ کی مثال اس دور میں ایسی ہی تھی جس طرح ظلم و استبداد کی سیاہ آندھیوں میں ایک روشن چراغ کی ہوتی ہے۔
آپ مہتدیوں اور معتمدوں کی دروغگوئی ، فریب ، سرکشی کے دور میں گم گشتہ افراد کی ہدایت کرتے رہے۔ آپ کی امامت کے دور میں عباسی خلفاء کے ظلم و استبداد کے محلوں کو گرانے کے بہت سے اہم اور تاریخی واقعات رونما ہوئے جو براہ راست امام (ع) کی ہدایات پر مبنی تھے۔ ان میں سے مصر میں احمد ابن طولون کی حکومت کا قیام ، بنی عباس کے ظلم و ستم کے خلاف حسن ابن زید علوی کی درخشاں خونچکان تحریک اور آخر کار حسن ابن زید کے ہاتھوں طبرستان کی فتح اور صاحب الزنج کا عظیم جشن اس دور کے اہم واقعات میں شامل ہے۔
اس کے علاوہ مخفیانہ طور پر جو ارتباط امام علیہ السلام سے برقرار کیے جاتے تھے، اس کی وجہ سے حکومت نے اس باب ہدایت کو بند کرنے کے لیے چند پروگرام بنائے۔ پہلے تو امام کو عسکر چھاؤنی میں فوجیوں کی حراست میں دے دیا۔ دوسرے مہتدی عباسی نے اپنے استبدادی اور ظالمانہ نظام حکومت پر نظر ثانی کی اور گھٹن کے ماحول کو بہ نسبت آزاد فضا میں تبدیل کیا اور نام نہاد ، مقدس مآب ، زرخرید ملّا عبد العزیز اموی کی دیوان مظالم کے نام سے ریا کاری پر مبنی ایک ایسی عدالت تشکیل دی جہاں ہفتے میں ایک دن عوام آ کر حکومت کے کارندوں کے ظلم و ستم کی شکایت کرتے تھے۔
لیکن اس ظاہری اور نام نہاد عدالت کا در حقیقت مسلمانوں پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ روز بروز امام حسن عسکری علیہ السلام کی طرف مسلمانوں کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا اور چاروں طرف سے حریت پسند مسلمانوں کی تحریک سے بنی عباس کی حکومت کی بنیادیں ہلنے لگیں اور عوام کی سیل آسا تحریک سے بنی عباس کی حکومت کے زوال کے خوف سے بنی عباس نے عوام میں اپنی مقبولیت پیدا کرنے کے لیے پروگرام بنایا کہ پہلے تو مال و دولت کو عوام کے درمیان تقسیم کیا جائے تا کہ لوگوں کی سرکشی کم ہو اور عوام کو خرید کر ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ جس امام میں حسن عسکری علیہ السلام کو شہید کرنے میں آسانی ہو ۔
تاریخ شاہد ہے کہ تمام دنیا کے جابر و ظالم حکمرانوں کا یہ دستور رہا ہے کہ جب بھی ان کے استبداد کے خلاف کسی نے آواز اٹھائی تو انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ جلد سے جلد اس آواز کو دولت سے خاموش کر دیں اگرچہ شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ آنے والی نسل میں ان کے لیے سوائے رسوائی اور ذلت کے کچھ نہیں ہو گا اور ان کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی دنیا نہ صرف یہ کہ حمایت کرے گی بلکہ ان بزرگوں کو عظمت کی نگاہ سے دیکھی گی اور ان مظلوموں کی زندگی کے نقش قدم پر چل کر فخر کرے گی۔ امام حسن عسکری (ع) نے بھی ہمیشہ اپنے اجداد کی طرح دین اسلام کی حفاظت اور پاسداری میں اپنی زندگی کے گرانقدر لمحات کو صرف کیا اور دین کی حمایت کرتے رہے اگرچہ دین کی حمایت اور عوام کی خدمت عباسی حکمرانوں کے لیے کبھی بھی خوش آئند نہیں رہی، لیکن خداوند متعال نے اپنی آخری حجت اور دین اسلام کے ناصر حضرت امام مہدی (ع) کو امام حسن عسکری کے گھر میں بھیج کر واضح کر دیا ہے کہ دین اسلام کے اصلی مالک و وارث اہل بیت رسول (ع) ہی ہیں۔
چار ماہ کی عمر اور منصب امامت:
حضرت امام حسن عسکری (ع) کی عمر جب چار ماہ کے قریب ہوئی تو آپ کے والد امام علی نقی (ع) نے اپنے بعد کے لیے منصب امامت کی وصیت کی اور فرمایا کہ میرے بعد یہی میرے جانشین ہوں گے اور اس پر بہت سے لوگوں کو گواہ کر دیا۔
ارشاد مفید 502
دمعہ ساکبہ ج 3 ص 163 بحوالہ اصول کافی
علامہ ابن حجر مکی کا کہنا ہے کہ امام حسن عسکری ، امام علی نقی کی اولاد میں سب سے زیادہ اجل و ارفع اعلی و افضل تھے۔
چار سال کی عمر میں آپ کا سفر عراق:
متوکل عباسی ناصبی کہ جو آل محمد کا ہمیشہ سے دشمن تھا، اس نے امام حسن عسکری کے والد بزرگوار امام علی نقی علیہ السلام کو جبرا 236 ہجری میں مدینہ سے سرمن رائے بلا لیا، آپ ہی کے ہمراہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو بھی جانا پڑا، اس وقت آپ کی عمر صرف چار سال اور چند ماہ کی تھی۔
دمعہ ساکبہ ج 3 ص 162
یوسف آل محمد (ع) کنوئیں میں:
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نہ جانے کس طرح اپنے گھر کے کنوئیں میں گر گئے، آپ کے گرنے سے عورتوں میں کہرام عظیم برپا ہو گیا۔ سب چیخنے اور چلّانے لگیں ، مگر امام علی نقی علیہ السلام جو محو نماز تھے، بالکل متاثر نہ ہوئے اور اطمینان سے نماز کا اختتام کیا، اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ گھبراؤ نہیں حجت خدا کو کوئی گزند نہ پہنچے گا۔ اسی دوران میں دیکھا گیا کہ پانی بلند ہو رہا ہے اور امام حسن عسکری پانی میں کھیل رہے ہیں۔
دمعہ ساکبہ ج 3 ص 179
امام حسن عسکری (ع) اور کمسنی میں عروج فکر:
آل محمد جو تدبر قرآنی اور عروج فکر میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک بلند مقام بزرگ حضرت امام حسن عسکری ہیں۔ علمائے فریقین نے لکھا ہے کہ:
ایک دن آپ ایک ایسی جگہ کھڑے تھے کہ جہاں کچھ بچے کھیل میں مصروف تھے۔ اتفاقا ادھر سے عارف آل محمد جناب بہلول دانا گزرے، انہوں نے یہ دیکھ کر کہ سب بچے کھیل رہے ہیں اور ایک خوبصورت سرخ و سفید بچہ کھڑا رو رہا ہے، ادھر متوجہ ہوئے اور کہا اے نونہال مجھے بڑا افسوس ہے کہ تم اس لیے رو رہے رہو کہ تمہارے پاس وہ کھلونے نہیں ہیں، جو ان بچوں کے پاس ہیں سنو ! میں ابھی ابھی تمہارے لیے کھلونے لے کر آتا ہوں۔ یہ کہنا تھا کہ اس کمسنی کے باوجود بولے، ایسا نہ سمجھ ہم کھیلنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، بلکہ ہم علم و عبادت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ بہلول نے پوچھا کہ تمہیں یہ کیونکر معلوم ہوا ہے کہ غرض خلقت علم و عبادت ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اس کی طرف قرآن مجید رہبری کرتا ہے، کیا تم نے نہیں پڑھا کہ خداوند فرماتا ہے کہ:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکمْ عَبَثا
کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تم کو عبث (کھیل کود) کے لیے پیدا کیا ہے اور کیا تم ہماری طرف پلٹ کر نہ آؤ گے۔
سورہ مؤمنون آیت 115
یہ سن کر بہلول حیران رہ گیا، اور کہنے پر مجبور ہو گیا کہ اے فرزند تمہیں کیا ہو گیا تھا کہ تم رو رہے تھے، گناہ کا تصور تو ہو نہیں سکتا کیونکہ تم بہت کم سن ہو، آپ نے فرمایا کہ کمسنی سے کیا ہوتا ہے میں نے اپنی والدہ کو دیکھا ہے کہ بڑی لکڑیوں کو جلانے کے لیے چھوٹی لکڑیاں استعمال کرتی ہیں، میں ڈرتا ہوں کہ کہیں جہنم کے بڑے ایندھن کے لیے ہم چھوٹے اور کمسن لوگ استعمال نہ کیے جائیں۔
صواعق محرقہ ص 124
نور الابصار ص 150
تذکرة المعصومین ص 230
امام حسن عسکری (ع) کے ساتھ بادشاہان وقت کا سلوک اور طرز عمل:
جس طرح آپ کے آباؤ اجداد کے وجود کو ان کے عہد کے بادشاہ اپنی سلطنت اور حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے رہے ان کا یہ خیال رہا کہ دنیا کے قلوب ان کی طرف مائل ہیں کیونکہ یہ فرندر سول اور اعمال صالح کے تاجدار ہیں لہذا ان کو انظار عامہ سے دور رکھا جائے، ورنہ امکان قوی ہے کہ لوگ انہیں اپنا بادشاہ وقت تسلیم کر لیں گے۔ اس کے علاوہ یہ بغض و حسد بھی تھا کہ ان کی عزت بادشاہ وقت کے مقابلہ میں زیادہ کی جاتی ہے اور یہ کہ امام مہدی انہیں کی نسل سے ہوں گے، جو سلطنتوں کا انقلاب لائیں گے، انہیں تصورات نے جس طرح آپ کے بزرگوں کو چین نہ لینے دیا اور ہمیشہ مصائب کی آماجگاہ بنائے رکھا اسی طرح آپ کے عہد کے بادشاہوں نے بھی آپ کے ساتھ کیا عہد واثق میں آپ کی ولادت ہوئی اور عہد متوکل کے کچھ ایام میں بچپنا گزرا، متوکل جو آل محمد کا جانی دشمن تھا۔ اس نے صرف اس جرم میں کہ آل محمد کی تعریف کی ہے ابن سکیت شاعر کی زبان گدی سے کھنچوا لی۔
ابو الفداء ج 2 ص 14
اس نے سب سے پہلے تو آپ پر یہ ظلم کیا کہ چار سال کی عمر میں ترک وطن کرنے پر مجبور کیا یعنی امام علی نقی علیہ السلام کو جبرا مدینہ سے سامرا بلوا لیا جن کے ہمراہ امام حسن عسکری علیہ السلام کو لازما جانا تھا پھر وہاں آپ کے گھر کی لوگوں کے کہنے سننے سے تلاشی کرائی اور اپ کے والد ماجد کو جانوروں کے ذریعے سے جان سے مارنے کی بھی کوشش کی ، غرضکہ جو جو سعی آل محمد کو ستانے کی ممکن تھی، وہ سب اس نے اپنے عہد حیات میں کر ڈالی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا مستنصر خلیفہ ہوا۔ یہ بھی اپنے پاپ کے نقش قدم پر چل کر آل محمد کو ستانے کی سنت ادا کرتا رہا اور اس کی مسلسل کوشش یہی رہی کہ ان لوگوں کو سکون نصیب نہ ہونے پائے، اس کے بعد مستعین کا جب عہد آیا تو اس نے آپ کے والد ماجد کو قید خانہ میں رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی سعی پیہم کی کہ کسی صورت سے امام حسن عسکری کو قتل کرا دے اور اس کے لیے اس نے مختلف راستے تلاش کیے۔
ملا جامی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ اس نے اپنے شوق کے مطابق ایک نہایت زبردست گھوڑا خریدا، لیکن اتفاق سے وہ کچھ اس درجہ سرکش نکلا کہ اس نے بڑے بڑے لوگوں کو سواری نہ دی اور جو اس کے قریب گیا اس کو زمین پر دے مار کر ٹاپوں سے کچل ڈالا، ایک دن خلیفہ مستعین باللہ کے ایک دوست نے رائے دی کہ امام حسن عسکری کو بلا کر حکم دیا جائے کہ وہ اس پر سواری کریں، اگر وہ اس پر کامیاب ہو گئے تو گھوڑا رام ہو جائے گا اور اگر کامیاب نہ ہوئے اور کچل ڈالے گئے تو تیرا مقصد حل ہو جائے گا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا لیکن اللہ رے شان امامت جب آپ اس کے قریب پہنچے تو وہ اس طرح بھیگی بلی بن گیا کہ جیسے کچھ جانتا ہی نہیں۔ بادشاہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور اس کے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا کہ گھوڑا حضرت ہی کے حوالے کر دے۔
شواہد النبوت ص 210
پھر مستعین کے بعد جب معتز باللہ خلیفہ ہوا تو اس نے بھی آل محمد کو ستانے کی سنت جاری رکھی اور اس کی کوشش کرتا رہا کہ عہد حاضر کے امام زمانہ اور فرزند رسول امام علی نقی علیہ السلام کو درجہ شہادت پر فائز کر دے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس نے 254 ہجری میں آپ کے والد بزرگوار کو زہر سے شہید کرا دیا، یہ ایک ایسی مصیبت تھی کہ جس نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو بے انتہا مایوس کر دیا۔ امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام خطرات میں محصور ہو گئے کیونکہ حکومت کا رخ اب آپ ہی کی طرف رہ گیا۔ آپ کو کھٹکا لگا ہی تھا کہ حکومت کی طرف سے عمل درآمد شروع ہو گیا۔ معتز نے ایک شقی ازلی اور ناصب ابدی ابن یارش کی حراست اور نظر بندی میں امام حسن عسکری کو دیدیا۔ اس نے آپ کو ستانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا لیکن آخر میں وہ آپ کا معتقد بن گیا، آپ کی عبادت گزاری اور روزہ داری نے اس پر ایسا گہرا اثر کیا کہ اس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی مانگ لی اور آپ کو دولت سرا تک پہنچا دیا۔
علی بن محمد زیاد کا بیان ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھے ایک خط تحریر فرمایا جس میں لکھا تھا کہ تم خانہ نشین ہو جاؤ کیونکہ ایک بہت بڑا فتنہ اٹھنے والا ہے۔ غرضکہ چند دنوں کے بعد ایک عظیم ہنگامہ برپا ہوا اور حجاج ابن سفیان نے معتز کو قتل کر دیا۔
کشف الغمہ ص 127
پھر جب مہدی باللہ کا عہد آیا تو اس نے بھی بدستور اپنا عمل جاری رکھا اور حضرت کو ستانے میں ہر قسم کی کوشش کرتا رہا۔ ایک دن اس نے آپ کو صالح ابن وصیف نامی ناصبی کے حوالہ کر دیا اور حکم دیا کہ ہر ممکن طریقہ سے آپ کو ستائے، صالح کے مکان کے قریب ایک بدترین حجرہ تھا۔ جس میں آپ قید کیے گئے صالح بدبخت نے جہاں اور طریقے سے ستایا۔ ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ آپ کو کھانا اور پانی سے بھی حیران اور تنگ رکھتا تھا۔ آخر ایسا ہوتا رہا کہ آپ تیمم سے نماز ادا فرماتے رہے ایک دن اس کی بیوی نے کہا کہ اے دشمن خدا یہ فرزند رسول ہیں، ان کے ساتھ رحم کا برتاؤ کر، اس نے کوئی توجہ نہ کی ایک دن کا ذکر ہے کہ بنی عباس کے ایک گروہ نے صالح سے جا کر درخواست کی کہ حسن عسکری پر زیادہ ظلم کیا جانا چاہیے۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے ان پر دو ایسے اشخاص کو مسلط کر دیا ہے جن کا ظلم و تشدد میں جواب نہیں ہے، لیکن میں کیا کروں، کہ ان کے تقوی اور ان کی عبادت گذاری سے وہ اس درجہ متاثر ہو گئے ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں، میں نے ان سے جواب طلبی کی تو انہوں نے قلبی مجبوری ظاہر کی یہ سن کر وہ لوگ مایوس واپس گئے۔
تذکرة المعصومین ص 223
غرضکہ مہدی کا ظلم و تشدد زوروں پر تھا اور یہی نہیں کہ وہ امام علیہ السلام پر سختی کرتا تھا بلکہ یہ کہ وہ ان کے ماننے والوں کو برابر قتل کر رہا تھا۔ ایک دن آپ کے ایک صحابی احمد ابن محمد نے ایک عریضے کے ذریعے سے اس کے ظلم کی شکایت کی، تو آپ نے تحریر فرمایا کہ گھبراؤ نہیں کہ مہدی کی عمر اب صرف پانچ دن باقی رہ گئی ہے، چنانچہ چھٹے دن اسے کمال ذلت و خواری کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔
کشف الغمہ ص 126
اسی کے عہد میں جب آپ قید خانہ میں پہنچے تو عیسی ابن فتح سے فرمایا کہ تمہاری عمر اس وقت 65 سال ایک ماہ دو دن کی ہے۔ اس نے نوٹ بک نکال کر اس کی تصدیق کی پھر آپ نے فرمایا کہ خدا تمہیں اولاد نرینہ عطا کرے گا۔ وہ خوش ہو کر کہنے لگا مولا ! کیا آپ کو خدا فرزند نہ دے گا۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم عنقریب مجھے مالک ایسا فرزند عطا کرے گا جو ساری کائنات پر حکومت کرے گا اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔
نور الابصار ص 101
پھر جب اس کے بعد معتمدخلیفہ ہوا تو اس نے امام علیہ السلام پر ظلم و تشدد و استبداد کا خاتمہ کر دیا۔
امام علی نقی (ع) کی شہادت اور امام حسن عسکری (ع) کا آغاز امامت:
حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام کی شادی جناب نرجس خاتون سے کر دی۔ جو قیصر روم کی پوتی اور شمعون وصی عیسی کی نسل سے تھیں۔
جلاء العیون ص 298
اس کے بعد آپ 3 رجب 254 ہجری کو درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
آپ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی امامت کا آغاز ہوا۔ آپ کے تمام معتقدین نے آپ کو مبارک باد دی اور آپ سے ہر قسم کا استفادہ شروع کر دیا۔ آپ کی خدمت میں آمد و رفت اور سوالات و جوابات کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ آپ نے جوابات میں ایسے حیرت انگیز معلومات کا انکشاف فرمایا کہ لوگ دھنگ رہ گئے۔ آپ نے علم غیب اور علم بالموت تک کا ثبوت پیش فرمایا اور اس کی بھی وضاحت کی کہ فلاں شخص کو اتنے دنوں میں موت آ جائے گی۔
علامہ ملا جامی لکھتے ہیں کہ: ایک شخص نے اپنے والد سمیت حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی راہ میں بیٹھ کر یہ سوال کرنا چاہا کہ باپ کو پانچ سو درہم اور بیٹے کو تین سو درہم اگر امام دیدیں تو سارے کام ہو جائیں، یہاں تک امام علیہ السلام اس راستے پر آ پہنچے ، اتفاقا یہ دونوں امام کو پہچانتے نہ تھے۔ امام خود ان کے قریب گئے اور ان سے کہا کہ تمہیں آٹھ سو درہم کی ضرورت ہے، آؤ تمہیں دیدوں دونوں ہمراہ ہو لیے اور رقم معہود حاصل کر لی اسی طرح ایک اور شخص قید خانے میں تھا۔ اس نے قید کی پریشانی کی شکایت امام علیہ السلام کو لکھ کر بھیجی اور تنگ دستی کا ذکر شرم کی وجہ سے نہ کیا۔ آپ نے تحریر فرمایا کہ تم آج ہی قید سے رہا ہو جاؤ گے اور تم نے جو شرم سے تنگدستی کا تذکرہ نہیں کیا۔ اس کے متعلق معلوم کرو کہ میں اپنے مقام پر پہنچتے ہی سو دینار بھیج دوں گا۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اسی طرح ایک شخص نے آپ سے اپنی تنگدستی کی شکایت کی آپ نے زمین کرید کر ایک اشرفی کی تھیلی نکالی اور اس کے حوالے کر دی۔ اس میں سو دینار تھے۔
اسی طرح ایک شخص نے آپ کو تحریر کیا کہ مشکوة کے معنی کیا ہیں ؟ نیز یہ کہ میری بیوی حاملہ ہے، اس سے جو فرزند پیدا ہو گا، اس کا نام رکھ دیجیے۔ آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ مشکوة سے مراد قلب محمد مصطفی (ص) ہے اور آخر میں لکھ دیا ” اعظم اللہ اجرک واخلف علیک ” خدا تمہیں جزائے خیر دے اور نعم البدل عطا کرے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس کے یہاں مردہ بیٹا پیدا ہوا۔ اس کے بعد اس کی بیوی حاملہ ہوئی ، فرزند نرینہ متولد ہوا۔
شواہد النبوت ص 211
علامہ ارلی لکھتے ہیں کہ: حسن ابن ظریف نامی ایک شخص نے حضرت سے لکھ کر دریافت کیا کہ قائم آل محمد پوشیدہ ہونے کے بعد کب ظہور کریں گے۔ آپ نے تحریر فرمایا جب خدا کی مصلحت ہو گی۔ اس کے بعد لکھا کہ تم تپ ربع کا سوال کرنا بھول گئے ہو، جسے تم مجھ سے پوچھنا چاہتے تھے۔ تو دیکھو ایسا کرو کہ جو اس میں مبتلا ہو اس کے گلے میں آیت ” یا نار کونی بردا و سلاما علی ابراہیم "، لکھ کر لٹکا دو شفا یاب ہو جائے گا۔
علی ابن زید ابن حسین کا کہنا ہے کہ میں ایک گھوڑا پر سوار ہو کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اس گھوڑے کی عمر صرف ایک رات باقی رہ گئی ہے، چنانچہ وہ صبح ہونے سے پہلے مر گیا۔ اسماعیل ابن محمد کا کہنا ہے کہ میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا، اور میں نے ان سے قسم کھا کر کہا کہ میرے پاس ایک درہم بھی نہیں ہے۔ آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ قسم مت کھاؤ تمہارے گھر دو سو دینار مدفون ہیں۔ یہ سن کر وہ حیران رہ گیا، پھر حضرت نے غلام کو حکم دیا کہ انہیں سو اشرفیاں دیدو۔
عبدی روایت کرتا ہے کہ میں اپنے فرزند کو بصرہ میں بیمار چھوڑ کر سامرا گیا اور وہاں حضرت کو تحریر کیا کہ میرے فرزند کے لیے دعائے شفاء فرمائیں۔ آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ ” خدا اس پر رحمت نازل فرمائے ” جس دن یہ خط اسے ملا اسی دن اس کا فرزند انتقال کر چکا تھا۔ محمد ابن افرغ کہتا ہے کہ میں نے حضرت کی خدمت میں ایک عریضے کے ذریعے سے سوال کیا کہ ” آئمہ کو بھی احتلام ہوتا ہے ” جب خط روانہ کر چکا تو خیال ہوا کہ احتلام تو وسوسہ شیطانی سے ہوا کرتا ہے اور امام تک شیطان پہنچ نہیں سکتا، بہرحال جواب آیا کہ امام نیند اور بیداری دونوں حالتوں میں وسوسہ شیطانی سے دور ہوتے ہیں، جیسا کہ تمہارے دل میں بھی خیال پیدا ہوا ہے پھر احتلام کیونکر ہو سکتا ہے۔ جعفر ابن محمد کا کہنا ہے کہ میں ایک دن حضرت کی خدمت میں حاضر تھا، دل میں خیال آیا کہ میری عورت جو حاملہ ہے، اگر اس سے فرزند نرینہ پیدا ہو تو بہت اچھا ہو۔ آپ نے فرمایا کہ اے جعفر لڑکا نہیں لڑکی ہو گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
کشف الغمہ ص 128
اپنے عقیدت مندوں میں حضرت کا دورہ:
جعفر ابن شریف جرجانی بیان کرتے ہیں کہ: میں حج سے فراغت کے بعد حضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور ان سے عرض کی کہ مولا ! اہل جرجان آپ کی تشریف آوری کے خواستگار ہیں۔ آپ نے فرمایا تم آج سے 190 دن کے بعد واپس جرجان پہنچو گے اور جس دن تم پہنچو گے، اسی دن شام کو میں بھی پہنچ جاؤں گا۔ تم انہیں باخبر کر دینا، چنانچہ ایسا ہی ہوا میں وطن پہنچ کر لوگوں کو آگاہ کر چکا تھا کہ امام علیہ السلام کی تشریف آوری ہوئی۔ آپ نے سب سے ملاقات کی اور سب نے شرف زیارت حاصل کیا، پھر لوگوں نے اپنی مشکلات پیش کیں امام علیہ السلام نے سب کو مطمئن کر دیا۔ اسی سلسلہ میں نصر ابن جابر نے اپنے فرزند کو پیش کیا، جو نابینا تھا۔ حضرت نے اس کے چہرے پر دست مبارک پھیرکر اسے بینائی عطا کی، پھر آپ اسی روز واپس تشریف لے گئے۔
کشف الغمہ ص 128
ایک شخص نے آپ کو ایک خط بغیر سیاہی کے قلم سے لکھا آپ نے اس کا جواب مرحمت فرمایا اور ساتھ ہی لکھنے والے کا اور اس کے باپ کا نام بھی تحریر فرما دیا۔ یہ کرامت دیکھ کر وہ شخص حیران ہو گیا اور اسلام لایا اور آپ کی امامت کا معتقد بن گیا۔
دمعہ ساکبہ ص 172
امام حسن عسکری (ع) کا پتھر پر مہر ثبت کرنا:
ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں ایک خوبصورت سا یمنی آیا اور اس نے ایک سنگ پارہ یعنی پتھر کا ٹکڑا پیش کر کے خواہش کی کہ آپ اس پر اپنی امامت کی تصدیق میں مہر کر دیں۔ حضرت نے مہر نکالی اور اس پر لگا دی آپ کا اسم گرامی اس طرح کندہ ہو گیا جس طرح موم پر لگانے سے کندہ ہوتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ آنے والا مجمع ابن صلت ابن عقبہ ابن سمعان ابن غانم ابن ام غانم تھا۔ یہ وہی سنگ پارہ لایا تھا جس پر اس کے خاندان کی ایک عورت ام غانم نے تمام آئمہ طاہرین سے مہر لگوا رکھی تھی۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی امامت کا دعوی کرتا تھا تو وہ اس کو لے کر اس کے پاس چلی جاتی تھی۔ اگر اس مدعی نے پتھر پر مہر لگا دی تو اس نے سمجھ لیا کہ یہ امام زمان ہیں، اور اگر وہ اس عمل سے عاجز رہا تو وہ اسے نظر انداز کر دیتی تھی۔ چونکہ اس نے اسی سنگ پارہ پر کئی اماموں کی مہر لگوائی تھی ، اس لیے اس کا لقب (صاحبۃ الحصاة) ہو گیا تھا۔
علامہ جامی لکھتے ہیں کہ: جب مجمع ابن صلت نے مہر لگوائی تو اس سے پوچھا گیا کہ تم حضرت امام حسن عسکری کو پہلے سے پہچانتے تھے۔ اس نے کہا نہیں، واقعہ یہ ہوا کہ میں ان کا انتظار کر ہی رہا تھا کہ آپ تشریف لائے میں لیکن پہچانتا نہ تھا، اس لیے خاموش ہو گیا۔ اتنے میں ایک ناشناس نوجوان نے میری نظروں کے سامنے آ کر کہا کہ یہی حسن ابن علی ہیں۔
راوی ابو ہاشم کہتا ہے کہ: جب وہ جوان آپ کے دربار میں آیا تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ یہ کون ہے۔ دل میں اس کا خیال آنا تھا کہ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ مہر لگوانے کے لیے وہ سنگ پارہ لایا ہے۔ جس پر میرے باپ دادا کی مہریں لگی ہوئی ہیں۔ چنانچہ اس نے پیش کیا اور آپ نے مہر لگا دی۔ وہ شخص آیت ” ذریة بعضھا من بعض ” پڑھتا ہوا چلا گیا۔
اصول کافی
دمعہ ساکبہ ص 164
شواہد النبوت ص 211
اعلام الوری 214
حضرت امام حسن عسکری (ع) کا عراق کے ایک عظیم فلسفی کو شکست دینا:
مؤرخین کا بیان ہے کہ: عراق کے ایک عظیم فلسفی اسحاق کندی کو یہ خبط سوار ہوا کہ قرآن مجید میں تناقض و تضاد ثابت کرے، اور یہ بتا دے کہ قرآن مجید کی ایک آیت دوسری آیت سے، اور ایک مضمون دوسرے مضمون سے ٹکراتا ہے۔ اس نے اس مقصد کی تکمیل کے لیے کتاب ” تناقض القرآن ” لکھنا شروع کی اور اس درجہ منہمک ہو گیا کہ لوگوں سے ملنا جلنا اور کہیں آنا جانا سب ترک کر دیا۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اس کے خبط کو دور کرنے کا ارادہ فرمایا۔ آپ کا خیال تھا کہ اس پر کوئی ایسا اعتراض کر دیا جائے کہ جس کا وہ جواب نہ دے سکے اور مجبورا اپنے ارادہ سے باز آ جائے۔
اتفاقا ایک دن آپ کی خدمت میں اس کا ایک شاگرد حاضر ہوا۔ حضرت نے اس سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اسحاق کندی کو کتاب ” تناقض القرآن ” لکھنے سے باز رکھے۔ اس نے عرض کی مولا ! میں اس کا شاگرد ہوں، بھلا اس کے سامنے کیسے لب گشائی کر سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا یہ تو کر سکتے ہو کہ جو میں کہوں وہ اس تک پہنچا دو۔ اس نے کہا کر سکتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ پہلے تو تم اس سے موانست پیدا کرو، اور اس پر اعتبار جماؤ۔ جب وہ تم سے مانوس ہو جائے اور تمہاری بات توجہ سے سننے لگے تو اس سے کہنا کہ مجھے ایک شبہ پیدا ہو گیا ہے۔ آپ اس کو دور فرما دیں، جب وہ کہے کہ بیان کرو تو کہنا کہ
” ان اتاک ھذا لمتکلم بھذا القرآن ہل یجوز مرادہ بما تکلم منہ عن المعانی التی قد ظننتھا انک ذھبتھا الیھا ”
اگر اس کتاب یعنی قرآن کا مالک تمہارے پاس اسے لائے تو کیا ہو سکتا ہے کہ اس کلام سے جو مطلب اس کا ہو، وہ تمہارے سمجھے ہوئے معانی و مطالب کے خلاف ہو۔
جب وہ تمہارا یہ اعتراض سنے گا تو چونکہ ذہین آدمی ہے فورا کہے گا کہ بے شک ایسا ہو سکتا ہے جب وہ یہ کہے تو تم اس سے کہنا کہ پھر کتاب ” تناقض القرآن ” لکھنے سے کیا فائدہ ؟ کیونکہ تم اس کے جو معنی سمجھ کر اس پر اعتراض کر رہے ہو ، ہو سکتا ہے کہ وہ خدائی مقصود کے خلاف ہو، ایسی صورت میں تمہاری محنت ضائع اور برباد ہو جائے گی، کیونکہ تناقض تو جب ہو سکتا ہے کہ تمہارا سمجھا ہوا مطلب صحیح اور مقصود خداوندی کے مطابق ہو اور ایسا یقینی طور پر نہیں تو پھر تناقض کیسا ؟
الغرض وہ شاگرد ، اسحاق کندی کے پاس گیا اور اس نے امام کے بتائے ہوئے اصول پر اس سے مذکورہ سوال کیا۔ اسحاق کندی یہ اعتراض سن کر حیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ پھر سوال کو دہراؤ۔ اس نے پھر سوال کو تکرار کیا۔ اسحاق تھوڑی دیر کے لیے محو تفکر ہو گیا اور کہنے لگا کہ بے شک اس قسم کا احتمال باعتبار لغت اور بلحاظ فکر و تدبر ممکن ہے، پھر اپنے شاگرد کی طرف متوجہ ہو کر بولا ! میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم مجھے صحیح صحیح بتاؤ کہ تمہیں یہ اعتراض کس نے بتایا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ میرے شفیق استاد یہ میرے ہی ذہن کی پیداوار ہے۔ اسحاق نے کہا ہرگز نہیں ، یہ تمہارے جیسے علم والے کے بس کی چیز نہیں ہے۔ تم سچ بتاؤ کہ تمہیں کس نے بتایا اور اس اعتراض کی طرف کس نے توجہ دلائی ہے۔ شاگرد نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا تھا اور میں نے انھیں کے بتائے ہوئے اصول پر آپ سے سوال کیا ہے۔ اسحاق کندی بولا:
” ان جئت بہ ” اب تم نے سچ کہا ہے،
ایسے اعتراضات اور ایسی اہم باتیں خاندان رسالت ہی سے برآمد ہو سکتی ہیں۔ ” ثم انہ دعا بالنار و احرق جمیع ما کان الفہ ”
پھر اس نے آگ منگوائی اور کتاب تناقض القرآن کا سارا مسودہ نذر آتش کر دیا۔
مناقب ابن شہر آشوب مازندرانی ج 5 ص 127
بحار الانوار ج 12 ص 172
دمعہ ساکبہ ج 3 ص 183
حضرت امام حسن عسکری (ع) اور خصوصیات مذہب:
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ ہمارے مذہب میں ان لوگوں کا شمار ہو گا جو اصول و فروع اور دیگر لوازم کے ساتھ ساتھ ان دس چیزوں کے قائل ہوں بلکہ ان پر عامل ہوں گے۔:
1- شب و روز میں 51 رکعت نماز پڑھنا۔
2- سجد گاہ کربلا پر سجدہ کرنا۔
3- داہنے ہاتھ میں انگھوٹھی پہننا۔
4- اذان و اقامت کے جملے دو دو مرتبہ کہنا۔
5- اذان و اقامت میں حی علی خیر العمل کہنا۔
6- نماز میں بسم اللہ بلند آواز سے پڑھنا۔
7- ہر دوسری رکعت میں قنوت پڑھنا۔
8- آفتاب کی زردی سے پہلے نماز عصر اور ستاروں کے ڈوب جانے سے پہلے نماز صبح پڑھنا۔
9- سر اور داڑھی میں وسمہ کا خضاب کرنا۔
10- نماز میت میں پانچ تکبر کہنا۔
دمعہ ساکبہ ج 3 ص 172
معتمد عباسی کی خلافت اور امام حسن عسکری (ع) کی گرفتاری:
256 ہجری میں معتمد عباسی خلافت مقبوضہ کے تخت پر متمکن ہوا، اس نے حکومت کی عنان سنبھالتے ہی اپنے آبائی طرز عمل کو اختیار کرنا اور نسلی کردار کو پیش کرنا شروع کر دیا اور دل سے اس کی سعی شروع کر دی کہ آل محمد کے وجود سے زمین خالی ہو جائے۔ یہ اگرچہ حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لیتے ہی ملکی بغاوت کا شکار ہو گیا تھا، لیکن پھر بھی اپنے وظیفے اور اپنے مشن سے غافل نہیں رہا۔ اس نے حکم دیا کہ عہد حاضر میں خاندان رسالت کی یادگار، امام حسن عسکری کو قید کر دیا جائے اور انہیں قید میں کسی قسم کا سکون نہ دیا جائے۔ حکم حاکم مرگ مفاجات آخر امام علیہ السلام بلا جرم و خطا آزاد و فضا سے قید خانے میں پہنچا دئیے گئے اور آپ پر علی ابن اوتاش نامی ایک ناصبی مسلط کر دیا گیا، جو آل محمد اور ال ابی طالب کا سخت ترین اور بد ترین دشمن تھا اور اس سے کہہ دیا گیا کہ جو جی چاہے کرو، تم سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ابن اوتاش نے حسب ہدایت آپ پر طرح طرح کی سختیاں شروع کر دیں اس نے نہ خدا کا خوف کیا اور نہ ہی پیغمبر کی اولاد ہونے کا لحاظ کیا۔
لیکن اللہ رے آپ کا زہد و تقوی کہ دو چار ہی دن میں دشمن کا دل موم ہو گیا اور وہ حضرت کے پیروں پر پڑ گیا۔ آپ کی عبادت گذاری اور تقوی و طہارت دیکھ کر وہ اتنا متاثر ہوا کہ حضرت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ نہ سکتا تھا۔ آپ کی عظمت و جلالت کی وجہ سے سر جھکا کر آتا اور چلاجاتا، یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا کہ دشمن بصیرت آگیں بن کر آپ کا معترف اور ماننے والا ہو گیا۔
اعلام الوری ص 218
ابو ہاشم داؤد ابن قاسم کا بیان ہے کہ: میں اور میرے ہمراہ حسن ابن محمد القتفی و محمد ابن ابراہیم عمری اور دیگر بہت سے حضرات اس قید خانے میں آل محمد کی محبت کے جرم کی سزا بھگت رہے تھے کہ ناگاہ ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے امام زمان حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام بھی تشریف لا رہے ہیں۔ ہم نے ان کا استقبال کیا وہ تشریف لا کر قید خانہ میں ہمارے پاس بیٹھ گئے، اور بیٹھتے ہی ایک اندھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ شخص نہ ہوتا تو، میں تمہیں یہ بتا دیتا کہ اندرونی معاملہ کیا ہے اور تم کب رہا ہو گے۔ لوگوں نے یہ سن کر اس اندھے سے کہا کہ تم ذرا ہمارے پاس سے چند منٹ کے لیے دور چلے جاؤ، چنانچہ وہ ہٹ گیا۔ اس کے چلے جانے کے بعد آپ نے فرمایا کہ یہ نابینا قیدی نہیں ہے، بلکہ تمہارے لیے حکومت کا جاسوس ہے۔ اس کی جیب میں ایسے کاغذات موجود ہیں جو اس کی جاسوسی کا ثبوت دیتے ہیں۔ یہ سن کر لوگوں نے اس کی تلاشی لی اور واقعہ بالکل صحیح نکلا ابو ہاشم کہتے ہیں کہ ہم قید کے ایام گذار رہے تھے کہ ایک دن غلام دوپہر کا کھانا لایا۔ حضرت نے کہا کہ میں شام کا کھانا آنے سے پہلے یہاں نہیں ہوں گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ عصر کے وقت قید خانے سے رہا ہو گئے۔
اعلام الوری ص 214
اسلام پر امام حسن عسکری (ع) کا احسان عظیم اور واقعہ قحط:
امام عسکری علیہ السلام قید خانے ہی میں تھے کہ سامرا میں جو تین سال سے قحط پڑا ہوا تھا، اس نے شدت اختیار کر لی اور لوگوں کا حال یہ ہو گیا تھا کہ مرنے کے قریب پہنچ گئے۔ بھوک اور پیاس کی شدت نے زندگی سے عاجز کر دیا۔ یہ حال دیکھ کر خلیفہ معتمد عباسی نے لوگوں کو حکم دیا کہ تین دن تک باہر نکل کر نماز استسقاء پڑھیں، چنانچہ سب نے ایسا ہی کیا ، مگر پانی نہ برسا، چوتھے روز بغداد کے نصاری کی جماعت صحرا میں آئی اور ان میں سے ایک راہب نے آسمان کی طرف اپنا ہاتھ بلند کیا، اس کا ہاتھ بلند ہونا تھا کہ بادل چھا گئے اور پانی برسنا شروع ہو گیا۔ اسی طرح اس راہب نے دوسرے دن بھی عمل کیا اور بدستور اس دن بھی باران رحمت کا نزول ہوا۔یہ دیکھ کر سب کو نہایت تعجب ہوا، حتی کہ بعض جاہلوں کے دلوں میں شک پیدا ہو گیا، بلکہ ان میں سے تو بعض اسی وقت مرتد ہو گئے، یہ واقعہ خلیفہ پر بہت شاق گزرا۔
اس نے امام حسن عسکری کو طلب کر کے کہا کہ اے ابو محمد اپنے جدّ کے کلمہ گو مسلمانوں کی خبر لو، اور ان کو ہلاکت یعنی گمراہی سے بچاؤ، حضرت امام حسن عسکری نے فرمایا کہ اچھا راہبوں کو حکم دیا جائے کہ کل پھر وہ میدان میں آ کر دعائے باران کریں ، انشاء اللہ تعالی میں لوگوں کے شکوک زائل کر دوں گا، پھر جب دوسرے دن وہ لوگ میدان میں طلب باران کے لیے جمع ہوئے تو اس راہب نے معمول کے مطابق آسمان کی طرف ہاتھ بلند کیا، ناگہاں آسمان پر ابر نمودار ہوئے اور بارش برسنے لگی۔ یہ دیکھ کر امام حسن عسکری نے ایک شخص سے کہا کہ راہب کا ہاتھ پکڑ کر جو چیز راہب کے ہاتھ میں ملے، اسے اس سے لے لو، اس شخص نے راہب کے ہاتھ میں ایک ہڈی دبی ہوئی پائی اور اس سے لے کر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر دی، انہوں نے راہب سے فرمایا کہ اب تم اپنا ہاتھ اٹھا کر بارش کی دعا کر۔ اس نے ہاتھ اٹھایا تو بجائے بارش ہونے کے مطلع صاف ہو گیا اور دھوپ نکل آئی، لوگ کمال تعجب سے حیران رہ گئے۔
خلیفہ معتمد نے حضرت امام حسن عسکری سے پوچھا، کہ اے ابو محمد یہ کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ ایک نبی کی ہڈی ہے جس کی وجہ سے راہب اپنے مدعا میں کامیاب ہوتا رہا، کیونکہ نبی کی ہڈی کا یہ اثر ہے کہ جب وہ زیر آسمان کھولی جائے گی، تو باران رحمت کا ضرور نزول ہوتا ہے۔ یہ سن کر لوگوں نے اس ہڈی کا امتحان کیا تو اس کی وہی تاثیر دیکھی جو حضرت امام حسن عسکری نے بیان کی تھی۔ اس واقعہ سے لوگوں کے دلوں کے وہ شکوک زائل ہو گئے جو پہلے پیدا ہو گئے تھے، پھر امام حسن عسکری علیہ السلام اس ہڈی کو لے کر اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے اور پھر آپ نے اس ہڈی کو کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا۔
صواعق محرقہ ص 124
کشف الغمہ ص 129
اخبار الدول ص 117
شیخ شہاب الدین قلبونی نے کتاب غرائب و عجائب میں اس واقعہ کو صوفیوں کی کرامات کے سلسلہ میں لکھا ہے۔ بعض کتابوں میں ہے کہ ہڈی کی گرفت کے بعد آپ نے نماز ادا کی اور دعا فرمائی خداوند عالم نے اتنی بارش نازل کی کہ جل تھل ہو گیا اور قحط مکمل طور پر جاتا رہا۔
یہ بھی مرقوم ہے کہ امام علیہ السلام نے قید سے نکلتے وقت اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ فرمایا تھا، جو منظور ہو گیا تھا، اور وہ لوگ بھی راہب کی ہوا اکھاڑنے کے لیے ہمراہ تھے۔
نور الابصار ص 151
ایک روایت میں ہے کہ جب آپ نے دعائے باران کی اور ابرآیا تو آپ نے فرمایا کہ فلاں ملک کے لیے ہے اور وہ وہیں چلا گیا، اسی طرح کئی بار ہوا پھر وہاں برسا۔
امام حسن عسکری (ع) اور عبید اللہ، وزیر معتمد عباسی:
اسی زمانے میں ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام متوکل کے وزیر فتح ابن خاقان کے بیٹے عبید اللہ ابن خاقان جو کہ معتمد کا وزیر تھا، ملنے کے لیے تشریف لے گیے۔ اس نے آپ کی بے انتہا تعظیم کی اور آپ سے اس طرح محو گفتگو رہا کہ معتمد کا بھائی موفق دربار میں آیا تو اس نے اسکی کوئی پرواہ نہ کی۔ یہ حضرت کی جلالت اور خداوند کی دی ہوئی عزت کا نتیجہ تھا۔
ہم اس واقعے کو عبید اللہ کے بیٹے احمد خاقان کی زبانی بیان کرتے ہیں۔ کتب معتبرہ میں ہے کہ جس زمانے میں احمد خاقان قم کا والی تھا، اس کے دربار میں ایک دن علویوں کا تذکرہ چھڑ گیا، وہ اگرچہ دشمن آل محمد ہونے میں مثالی حیثیت رکھتا تھا، لیکن یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ میری نظر میں امام حسن عسکری سے بہتر کوئی نہیں ہے۔ ان کی جو وقعت ان کے ماننے والوں اور اراکین دولت کی نظر میں تھی، وہ ان کے عہد میں کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی ، سنو ! ایک مرتبہ میں اپنے والد عبید اللہ ابن خاقان کے پاس کھڑا تھا کہ ناگاہ دربان نے اطلاع دی کہ امام حسن عسکری تشریف لائے ہوئے ہیں۔ وہ داخل ہونے کی اجازت چاہتے ہیں۔ یہ سن کر میرے والد نے پکار کر کہا کہ حضرت ابن الرضا کو آنے دو، والد نے چونکہ کنیت کے ساتھ نام لیا تھا، اس لیے مجھے سخت تعجب ہوا، کیونکہ اس طرح خلیفہ یا ولیعہد کے علاوہ کسی کا نام نہیں لیا جاتا تھا۔ اس کے بعد ہی میں نے دیکھا کہ ایک صاحب جو سبز رنگ ، خوش قامت، خوب صورت، نازک اندام جوان تھے، داخل ہوئے، جن کے چہرے سے رعب و جلال ہویدا تھا۔ میرے والد کی نظر جونہی ان پر پڑی وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے استقبال کے لیے آگے بڑھے اور انھیں سینے سے لگا کر ان کے چہرہ اور سینے کا بوسہ لیا اور اپنے مصلے پر انہیں بٹھایا اور کمال ادب سے ان کی طرف مخاطب رہے، اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کہتے تھے: میری جان آپ پر قربان اے فرزند رسول خدا۔
اسی اثناء میں دربان نے آ کر اطلاع دی کہ خلیفہ کا بھائی موفق آیا ہے۔ میرے والد نے کوئی توجہ نہ دی ، حالانکہ اس کا عموما یہ انداز رہتا تھا کہ جب تک واپس نہ چل اجائے دربار کے لوگ سر جھکائے کھڑے رہتے تھے، یہاں تک کہ موفق کے غلامان خاص کو اس نے اپنی نظروں سے دیکھ لیا، انہیں دیکھنے کے بعد میرے والد نے کہا یا ابن رسول اللہ اگر اجازت ہو تو موفق سے کچھ باتیں کر لوں۔ حضرت نے وہاں سے اٹھ کر روانہ ہو جانے کا ارادہ کیا۔ میرے والد نے انہیں سینے سے لگایا اور دربانوں کو حکم دیا کہ انہیں دو مکمل صفوں کے درمیان سے لے جاؤ کہ موفق کی نظر آپ پر نہ پڑے، چنانچہ اسی انداز سے واپس تشریف لے گئے۔
آپ کے جانے کے بعد میں نے خادموں اور غلاموں سے کہا کہ وائے ہو تم نے کنیت کے ساتھ کس کا نام لے کر اسے میرے والد کے سامنے پیش کیا تھا۔ جس کی اس نے اس درجہ تعظیم کی جس کی مجھے توقع نہ تھی۔ ان لوگوں نے پھر کہا کہ یہ شخص سادات علویہ میں سے تھا۔ اس کا نام حسن ابن علی اور کنیت ابن الرضا ہے، یہ سن کر میرے غم و غصہ کی کوئی انتہا نہ رہی اور میں دن بھر اسی غصہ میں مبتلا رہا کہ علوی سادات کی میرے والد نے اتنی عزت و توقیر کیوں کی، یہاں تک کہ رات آ گئی۔
میرے والد نماز میں مشغول تھے، جب وہ فریضہ عشاء سے فارغ ہوئے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے پوچھا اے احمد اس وقت آنے کا سبب کیا ہے ؟ میں نے عرض کی کہ اجازت دیجیے تو میں کچھ پوچھوں، انہوں نے فرمایا جو جی چاہے پوچھو میں نے کہا یہ شخص کون تھا ؟ جو صبح آپ کے پاس آیا تھا۔ جس کی آپ نے زبردست تعظیم کی اور ہر بات میں اپنے کو اور اپنے ماں باپ کو اس پر سے فدا کرتے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ اے فرزند یہ رافضیوں کے امام ہیں۔ ان کا نام حسن ابن علی اور ان کی مشہور کنیت ابن الرضا ہے۔ یہ فرما کر وہ تھوڑی دیر چپ رہے پھر بولے اے فرزند یہ وہ کامل انسان ہے کہ اگر عباسیوں سے سلطنت چلی جائے تو اس وقت دنیا میں اس سے زیادہ اس حکومت کا مستحق کوئی نہیں ہے۔ یہ شخص عفت، زہد، کثرت عبادت، حسن اخلاق، صلاح، تقوی وغیرہ میں تمام بنی ہاشم سے افضل و اعلی ہے اور اے فرزند اگر تو ان کے باپ کو دیکھتا تو حیران رہ جاتا۔ وہ اتنے صاحب کرم اور فاضل تھے کہ ان کی مثال بھی نہیں تھی۔ یہ سب باتیں سن کر میں خاموش تو ہو گیا، لیکن والد سے حد درجہ ناخوش رہنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ ابن الرضا کے حالات کا تفحص کرنا اپنا شیوہ بنا لیا۔
اس سلسلہ میں، میں نے بنی ہاشم ، امراء لشکر، منشیان دفتر قضاة اور فقہاء اور عوام الناس سے حضرت کے حالات کے بارے میں سوال کیا۔ سب کے نزدیک حضرت ابن الرضا کو جلیل القدر اور عظیم پایا اور سب نے بالاتفاق یہی بیان کیا کہ اس مرتبہ اور ان خوبیوں کا کوئی شخص کسی خاندان میں نہیں ہے۔ جب میں نے ہر ایک دوست اور دشمن کو حضرت کے بیان اخلاق اور اظہار مکارم اخلاق میں متفق پایا تو میں بھی ان کا دل سے ماننے والا ہو گیا اور اب ان کی قدر و منزلت میرے نزدیک بے انتہا ہے۔ یہ سن کر تمام اہل دربار خاموش ہو گئے۔ البتہ ایک شخص بول اٹھا کہ اے احمد تمہاری نظر میں ان کے برادر جعفر کی کیا حثیت ہے ؟ احمد نے کہا کہ ان کے مقابلے میں اس کا کیا ذکر کرتے ہو۔ وہ تو علانیہ فسق و فجور کا ارتکاب کرتا تھا۔ دائم الخمر تھا، خفیف العقل تھا، انواع انواع کے گناہ انجام دیا کرتا تھا۔
ابن الرضا کے بعد جب خلیفہ معتمد سے اس نے ان کی جانشینی کا سوال کیا، تو اس نے اس کے کردار کی وجہ سے اسے دربار سے نکلوا دیا تھا۔
مناقب ابن آشوب ج 5 ص 124
ارشاد مفید ص 505
بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ گفتگو امام حسن عسکری کی شہادت کے 18 سال بعد ماہ شعبان 278 ہجری کی ہے۔
دمعہ ساکبہ ج 3 ص 192
آپ کی حیات طیبہ میں درج ذیل حکّام کا زمانہ تھا:
1- خلیفہ المعتز: اس کے زمانے میں خلیفہ اور امام کے درمیان کوئی دشمنی یا سازش نهیں تھی کیونکہ اس زمانے میں تُرک لشکر نے خلیفہ کے لیے بہت سی مشکلیں ایجاد کر رکھی تھیں، اس کی حکومت میں تباہ کاری و خرابکاری کر رکھی تھی اور خلیفہ ان مشکلات سے دوچار تھا لیکن آخر کار خلیفہ کو خلافت سے معزول ہونا پڑا۔
2- خلیفہ مہتدیٰ: اس کے امام علیہ السلام کے ساتھ اچھے روابط تھے اور اسی وجہ سے خلیفہ شراب، محفلِ رقص و سرور سے دور تھا اور نیکی و خیر کا مظاہرہ کیا کرتا تھا۔
3- خلیفہ معتمد: یہ خلیفہ اہل بیت (ع) کا سخت دشمن تھا، اسی وجہ سے اس نے امام علیہ السلام کو ایک مدت تک قید خانے میں رکھا لیکن مجبور ہو کر امام علیہ السلام کو آزاد کرنا پڑا کیونکہ اس وقت کے نصاریٰ نے خلیفہ سے کچھ علمی سوالات کر لیے تھے چنانچہ اس مشکل کو حل کرنے اور نصاریٰ کے کھوٹے پن کو ظاہر کرنے کے لیے امام علیہ السلام کی مدد لی جیسا کہ تاریخی کتابیں اشارہ کرتی ہیں۔
جس وقت امام عسکری علیہ السلام کی شہادت کی خبر ملی تو وہ نگران تھا کیونکہ اس وقت، محمد مہدی ابن امام عسکری علیہما السلام کی بحث شروع ہو چکی تھی اور اس سلسلے میں امام مہدی علیہ السلام کے چچا جعفر ابن علی میں حسد و کینہ بھرا ہوا تھا اور آپ کے مال و منال اور آپ کے مقام کی طرف چشم طمع لگائے ہوئے تھا، اور اپنے بھتیجے ( امام مہدی ) کو تلاش کرنا چاہتا تھا لیکن یہ اور خلیفہ دونوں اپنے ارادوں میں ناکام ہو گئے اور امام مہدی دشمنوں کی نظروں سے مخفی رہے اور خداوند نے ان کو حاسدوں کے حسد سے نجات دی۔
باوجود یہ کہ اپنے دور امامت میں آپ کی تقریباً پوری زندگی قید و بند میں گزری لیکن پھر بھی اپنے جد بزرگوار امیر المومنین اور دیگر اجداد کی سیرت کے مطابق جب اسلام کو آپکی مدد کی ضرورت پڑی تو ظالم حکومت کے بڑھائے ہوئے فریاد کے ہاتھ کو کبھی ناکام واپس جانے نہ دیا۔ چنانچہ جب قحط کے موقع پر ایک عیسائی راہب نے بارش کرا کے اپنی روحانیت کے مظاہرہ سے دار السلطنت عباسیہ کے بہت سے مسلمانوں کے ارتداد کے آثار پیدا کر دیئے تو اس وقت امام حسن عسکری تھے کہ جنہوں نے اس کے طلسم کو شکستہ کر کے مسلمانوں کی استقامت کا سامان بہم پہنچایا۔
اس کے علاوہ آپ نے سچے پرستارانِ دین کی دینی تعلیم و تربیت کے فریضہ کو نظر انداز نہیں کیا۔ اس کے لیے اپنی طرف سے سفراء مقرر کیے جو اپنی بصیرت علمی کے مطابق خود مسائل شرعیہ کا جواب دیتے تھے اور جن مسائل میں امام سے دریافت کرنے کی ضرورت ہوتی تھی ان کا خود مناسب موقع پر امام سے جواب حاصل کر کے سائل کی تشفی کر دیتے تھے۔ انہی کے ذریعے سے اموالِ خمس کی جمع آوری ہوتی تھی اور وہ تنظیم سادات اور دیگر دینی مہمات پر صرف ہوتا تھا۔ اسی طرح سلطنت دنیوی کے متوازی، حکومت دینی کا پورا ادارہ کامیابی کے ساتھ چل رہا تھا۔
پھر آپ نے قید و بند کے اسی شکنجہ میں بھی معارف اسلامی کی خدمت جاری رکھی۔ حالانکہ امام حسن عسکری (ع) کا زمانہ پُر آشوب تھا لیکن پھر بھی راویوں نے بہت سی روایات نقل کی ہیں جو علم و معرفت میں اپنا مقام رکھتی ہیں۔ چنانچہ بعض آپ کی نورانی احادیث شیعہ کتب احادیث اور بعض کتب اہل سنت میں درج ہیں۔
حضرت امام حسن عسکری (ع) کے سود مند، حکمت آمیز فرامین:
حضرت امام حسن عسکری (ع) کے پند و نصائح و حکم اور مواعظ میں سے چند کو ذکر کرنے کی سعادت حاصل کی جا رہی ہے:
1- دو بہترین عادتیں یہ ہیں کہ اللہ پر ایمان رکھے اور لوگوں کو نفع پہنچائے۔
2- نیک لوگوں کو دوست رکھنے میں ثواب ہے۔
3- تواضع اور فروتنی یہ ہے کہ جب کسی کے پاس سے گزرو تو سلام کرو اور مجلس میں جہاں جگہ ملے بیٹھ جاؤ۔
4- بلا وجہ ہنسنا جہالت کی دلیل ہے۔
5- پڑوسیوں کی نیکی کو چھپانا اور برائیوں کو اچھالنا ہر شخص کے لیے کمر توڑ دینے والی مصیبت اور بے چارگی ہے۔
6- یہی عبادت نہیں ہے کہ نماز روزے کو ادا کرتے رہو، بلکہ یہ بھی اہم عبادت ہے کہ خدا کے بارے میں غور و فکر کرتے رہو۔
7- وہ شخص بدترین ہے جو دو چہرے اور دو زبان والا ہو، جب دوست سامنے آئے تو اپنی زبان سے خوش کر دے اور جب وہ چلا جائے تو اسے کھا جانے کی تدبیر سوچے ، جب اسے کچھ ملے تو یہ حسد کرے اور جب اس پر کوئی مصیبت آئے تو اسکے قریب بھی نہ جائے۔
8- غصہ ہر برائی کی کنجی ہے۔
9- حسد کرنے اور کینہ رکھنے والے کو کبھی بھی سکون قلب نصیب نہیں ہوتا۔
10- پرہیزگار وہ ہے کہ جو شب کے وقت توقف و تدبر سے کام لے اور ہر کام میں احتیاط برتے۔
11- بہترین عبادت گزار وہ ہے کہ جو فرائض ادا کرتا رہے۔
12- بہترین متقی اور زاہد وہ ہے کہ جو بالکل گناہ کو ترک کر دے۔
13- ہر انسان جو بھی دنیا میں بوئے گا، وہی آخرت میں کاٹے گا۔
14- موت تمہارے پیچھے لگی ہوئی ہے، اچھا بوگے تو اچھا کاٹو گے، برا بوگے تو ندامت و پشمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
15- حرص اور لالچ سے کوئی فائدہ نہیں، جو ملنا ہے وہی ملے گا۔
16- ایک مومن دوسرے مومن کے لیے باعث برکت ہے۔
17- بیوقوف کا دل اس کے منہ میں ہوتا ہے اور عقلمند کا منہ اس کے دل میں ہوتا ہے۔
18- دنیا کی تلاش میں کوئی فریضہ نہ گنوا دینا۔
19- طہارت میں شک کی وجہ سے زیادتی کرنا، غیر ممدوح ہے۔
20- کوئی کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو، جب وہ حق کو چھوڑ دے گا تو ذلیل ہو جائے گا۔
21- معمولی آدمی کے ساتھ اگر حق ہو تو وہی بڑا ہے۔
22- جاہل کی دوستی کسی مصیبت سے کم نہیں ہے۔
23- غمگین کے سامنے ہنسنا، بے ادبی اور برا عمل ہے۔
24- وہ چیز موت سے بدتر ہے، جو تمہیں موت سے بہتر نظر آئے۔
25- وہ چیز زندگی سے بہتر ہے، جس کی وجہ سے تم زندگی کو برا سمجھو۔
26- جاہل کی دوستی اور اس کے ساتھ گزارا کرنا، معجزے کی مانند ہے۔
27- کسی انسان کا اپنی عادت کو ترک کرنا، کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔
28- تواضع ایسی نعمت ہے، جس پر حسد نہیں کیا جا سکتا۔
29- اس انداز سے کسی کی تعظیم نہ کرو، جسے وہ برا سمجھے۔
30- اپنے بھائی کو پوشیدہ نصیحت کرنا، اس کی زینت کا سبب بنتا ہے۔
31- کسی کو دوسروں کے سامنے نصیحت کرنا، برائی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔
32- ہر بلا اور مصیبت کے پس منظر میں رحمت اور نعمت خداوندی ہوتی ہے۔
33- میں اپنے شیعوں کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈریں، دین کے بارے میں پرہیزگاری کو شعار بنا لیں، خدا کے متعلق پوری سعی کریں اور اس کے احکام کی پیروی میں کمی نہ کریں، سچ بولیں، امانتیں چاہے مؤمن کی ہوں یا کافر کی، ادا کریں، اور اپنے سجدوں کو طول دیں اور سوالات کے شیریں جواب دیں، تلاوت قرآن مجید کیا کریں، موت اور خداوند کے ذکر سے کبھی غافل نہ ہوں۔
34- جو شخص دنیا سے دل کا اندھا اٹھے گا، آخرت میں بھی اندھا رہے گا، دل کا اندھا ہونا، ہماری مودت سے غافل رہنا ہے، قرآن مجید میں ہے کہ قیامت کے دن ظالم کہیں گے:
” رب لما حشرتنی اعمی وکنت بصیرا "،
میرے پالنے والے ہم تو دنیا میں بینا تھے ہمیں یہاں اندھا کیوں اٹھایا ہے، جواب ملے گا ہم نے جو نشانیاں بھیجی تھیں، تم نے انھیں نظر انداز کیا تھا۔
لوگو ! اللہ کی نعمت اللہ کی نشانیاں ہم آل محمد ہیں۔
بحار الانوار ج 14 ص 134
التماس دعا۔۔۔۔۔
حضرت امام حسن عسکری (ع) کی ولادت با سعادت
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام 8 ربیع الثانی سن 232 ہجری قمری بروز جمعہ مدینہ منورہ میں جناب حدیثہ خاتون کے بطن مبارک سے متولد ہوئے۔ آپ کی ولادت کے بعد آپ کے والد حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے حضرت محمد مصطفی (ص) کے رکھے ہوئے نام، حسن بن علی سے موسوم کیا۔
شواہدالنبوت ص 210
صواعق محرقہ ص 124
نور الابصار ص 110
جلاء العیون ص 295
ارشاد مفید ص 502
دمعہ ساکبہ ص 163
ینابع المودة
آپ کی کنیت ابو محمد تھی اور آپ کے بہت سے القاب تھے۔ جن میں عسکری، ہادی، زکی خالص، سراج اور ابن الرضا زیادہ مشہور ہیں۔
نور الابصار ص 150
شواہد النبوت ص 210
دمعہ ساکبہ ج 3 ص 122
مناقب ابن شہر آشوب ج 5 ص 124
آپ کا لقب عسکری اس لیے زیادہ مشہور ہوا کہ آپ جس محلے میں بمقام سرمن رائے رہتے تھے، اسے عسکر کہا جاتا تھا اور بظاہر اس کی وجہ یہ تھی کہ جب خلیفہ معتصم باللہ نے اس مقام پر لشکر جمع کیا تھا اور خود بھی قیام پذیر تھا تو اسے عسکر کہنے لگے تھے، اور خلیفہ متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ سے بلوا کر یہیں مقیم رہنے پر مجبور کیا تھا نیز یہ بھی تھا کہ ایک مرتبہ خلیفہ وقت نے امام زمانہ کو اسی مقام پر نوے ہزار لشکر کا معائنہ کرایا تھا اور امام (ع) نے اپنی دو انگلیوں کے درمیان سے اسے اپنے خدائی لشکر کا مشاہدہ کرا دیا تھا انہیں وجوہ کی بناء پر اس مقام کا نام عسکر ہو گیا تھا، جہاں امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام مدتوں مقیم رہ کر عسکری مشہور ہو گئے۔
بحار الانوار ج 12 ص 154
وفیات الاعیان ج 1 ص 135
مجمع البحرین ص 322
دمعہ ساکبہ ج 3 ص 163
تذکرة ا لمعصومین ص 222
آپ کا عہد حیات اور بادشاہان وقت:
آپ کی ولادت 232 ہجری میں اس وقت ہوئی جبکہ واثق باللہ ابن معتصم بادشاہ وقت تھا جو 227 ہجری میں خلیفہ بنا تھا ۔ پھر 233 ہجری میں متوکل خلیفہ ہوا۔ جو حضرت علی (ع) اور ان کی اولاد سے سخت بغض و عناد رکھتا تھا، اور ان کی منقت کیا کرتا تھا۔ اسی نے 236 ہجری میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت جرم قرار دی اور ان کے مزار کو ختم کرنے کی کوشش کی اور اسی نے امام علی نقی علیہ السلام کو جبرا مدینہ سے سرمن رائے میں طلب کرا لیا، ، اور آپ کو گرفتار کرا کے آپ کے مکان کی تلاشی کرائی ، پھر 247 ہجری میں مستنصر بن متوکل خلیفہ وقت ہوا پھر 248 ہجری میں مستعین خلیفہ بنا، پھر 252 ہجری میں معتز باللہ خلیفہ ہوا، اسی زمانے میں امام علیہ السلام کو زہر سے شہید کر دیا گیا پھر 255 ہجری میں مہدی باللہ خلیفہ بنا، ان تمام خلفاء نے آپ کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جو آل محمد کے ساتھ برتاؤ کیے جانے کا دستور چلا آ رہا تھا۔
امام الحسنالعسکری(ع )، آیت اللہ ، سید مہدی،
الامام الحسن العسکری(ع)، ملا عیدی، عامر،
معانی الاخبارالرضا، صدوق، ص 65.
دلائل الامامة، ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، ص 223.
تاریخ ابو الفداء
تاریخ ابن الوردی
حیواة الحیوان
تاریخ کامل
صواعق محرقہ
وفیات الاعیان
نور الابصار
امام حسن عسکری (ع) کا پتھر پر مہر لگانا:
ثقۃ الاسلام یعقوب کلینی اور امام اہلسنت علامہ جامی نے لکھا ہے کہ:
ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں ایک خوبصورت یمنی آیا اور اس نے ایک سنگ پارہ یعنی پتھر کا ٹکڑا پیش کر کے خواہش کی کہ آپ اس پر اپنی امامت کی تصدیق میں مہر کر دیں حضرت نے مہر نکالی اور اس پر لگا دی آپ کا اسم گرامی اس طرح کندہ ہو گیا جس طرح موم پر لگانے سے کندہ ہوتا ہے۔
اصول کافی، کلینی، یعقوب، ج 1، ص 503
پہلا دور بچپن کے وہ 13 سال ہیں جو انہوں نے مدینہ میں گزارے۔
دوسرا دور انہوں نے امامت سے قبل سامرا میں گزارا۔
تیسرا دور ان کی امامت والے 6 سال ہیں۔ ان چھ سالوں میں حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہ تھے۔ اس وقت وہاں پر خلیفہ ہارون کی تقلید کرنے والے اپنی ظاہری طاقت کا مظاہرہ کرتے مگر امام ہمیشہ باطل کے مقابلے کے لیے میدان عمل میں کار فرما رہے۔ اپنی امامت کے چھ سالوں میں سے تین سال امام علیہ السلام قید میں رہے۔ قید خانے کے انچارج نے دو ظالم غلاموں کو مقرر کر رکھا تھا کہ آنحضرت علیہ السلام کو آزار پہنچائیں لیکن جب ان دو غلاموں نے امام علیہ السلام کے حسن سلوک اور سیرت کو نزدیک سے دیکھا تو وہ امام کے گرویدہ ہو گئے۔
جب ان غلاموں سے امام حسن عسکری کا حال پوچھا جاتا تو وہ بتاتے کہ یہ قیدی دن کو روزہ رکھتا ہے اور شب بھر اپنے معبود کی عبادت کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور کسی سے بھی بات چیت نہیں کرتے، وہ (امام حسن عسکری) اس دور کے زاہد ترین انسان ہیں۔
عبید اللہ خاقان کے بیٹے نے کہا ہے کہ:
میں لوگوں سے ہمیشہ امام حسن عسکری کے بارے میں پوچھتا رہتا تھا۔ مجھے ہمیشہ اس بات کا احساس ہوتا کہ لوگوں کے دلوں میں حضرت امام حسن عسکری (ع) کے لیے احترام اور محبت پائی جاتی تھی۔ امام حسن عسکری (ع) اپنے خاص شیعوں سے ملا کرتے تھے مگر پھر بھی عباسی خلیفہ اپنی حکومت کو تحفظ دینے کے لیے زیادہ تر ان پر نظر رکھتا اور انہیں قید میں رکھ کر عام لوگوں سے ملاقات سے روکا کرتا تھا۔
الارشاد، شیخ مفید، قم، مکتبة بصیرتی، ص 335.
الاتحاف بحب الاشراف، شیخ عبد الله الشبراوی، ص 178
اہلبیت علیہم السلام محور خیر و برکت:
ابو ہاشم جعفری نے حضرت امام حسن عسکری (ع) سے آیت:
ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْکِتابَ الَّذِینَ اصْطَفَیْنا مِنْ عِبادِنا فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سابِقٌ بِالْخَیْراتِ ،
کے بارے میں پوچھا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
کلّهم من آل محمّد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ( الظالم لنفسه ) الّذی لا یقرّ بالإمام و ( المقتصد ) العارف الإمام، و ( السابق بالخیرات ) الإمام.
سب محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے خاندان میں سے ہیں۔ جس نے امام کا اعتراف نہ کیا اس نے خود پر ستم کیا ، اور جس نے امام کو کما حقہ پہچان لیا اس نے میانہ روی اختیار کی۔ خدا کے احکام اور نیکی میں پہل کرنے والی بھی امام ہی کی ذات اقدس ہے۔
تفسیر نور الثقلین، عروسی حویزی، تحقیق: سید هاشم رسولی محلاتی، ج 4، ص 364.
قالَ الإمامُ الْحَسَنِ الْعَسْکَری (علیہ السلام): « مَنْ لَمْ یَتَّقِ وُجُوهَ النّاسِ لَمْ یَتَّقِ اللهَ. »
امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں: جو لوگوں سے بیباکی سے پیش آئے، اخلاقی مسائل اور لوگوں کے حقوق کی رعایت نہ کرے ، وہ خدا کے تقویٰ کی بھی رعایت نہیں کرتا۔
بحار الأنوار، مجلسی، محمد تقی، ج 68، ص 336
امام زمان (عج) کی امامت اور ان کی غیبت کے وسائل کی فراہمی:
احمد ابن اسحاق اس سوچ میں تھا کہ حضرت امام حسن عسکری (ع) کے بعد آپ کا جانشین کون ہو گا، اسی اثناء میں امام نے شفقت سے اس کی طرف رخ کیا اور فرمایا : اے احمد بن اسحاق ! خدا نے جس دن آدم کو خلق کیا، اس دن سے آج تک دنیا کو اپنی حجت سے خالی نہیں چھوڑا اور نہ قیامت تک خالی چھوڑے گا، خدا اپنی حجت کی موجودگی کی برکت سے زمین سے بلاؤں کو دور ، اس پر باران رحمت کا نزول اور اس میں پوشیدہ رازوں کو عیاں کرتا ہے۔
احمد ابن اسحاق نے سوال کیا، آپ کے بعد امام کون ہے ؟ امام علیہ السلام اٹھ کر اندر تشریف لے گئے اور اندر سے ایک تین سالہ بچے کو کہ جس کا چہرہ مبارک چودہویں کے چاند کی طرح روشن تھا ، اپنی گود میں لے آئے اور فرمایا:” اگر تم خدا اور اماموں کے نزدیک محبوب نہ ہوتے تو ہرگز تمہاری اس سے ملاقات نہ کرواتا۔ یہ رسول خدا، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ہم نام اور ہم کنیت ہے ، یہ اس وقت زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جب زمین ظلم و جور سے پر ہو چکی ہو گی…..
یہ مصلحت خدا سے غیبت میں چلا جائے گا ، جب یہ غیبت میں ہو گا، تو غیبت کے طولانی ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس کے بارے میں شک اور تردید کا شکار ہو جائیں گے، سوائے ان لوگوں کے کہ جنکے اعتقاد امامت کو خداوند سالم اور ثابت رہنے کی توفیق دے گا اور انکو گمراہیوں سے نجات دے گا۔
کمال الدین و النعمه، شیخ صدوق،ج 2، صص 118 و 119.
امام حسن عسکری (ع) کی زندگی کا مختصر جائزہ:
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا مقابلہ بھی اپنے اجداد طاہرین کی طرح اس وقت کے ظالم ، جابر ، غاصب ، عیار اور مکار عباسی خلفا سے تھا۔ آپ کی مثال اس دور میں ایسی ہی تھی جس طرح ظلم و استبداد کی سیاہ آندھیوں میں ایک روشن چراغ کی ہوتی ہے۔
آپ مہتدیوں اور معتمدوں کی دروغگوئی ، فریب ، سرکشی کے دور میں گم گشتہ افراد کی ہدایت کرتے رہے۔ آپ کی امامت کے دور میں عباسی خلفاء کے ظلم و استبداد کے محلوں کو گرانے کے بہت سے اہم اور تاریخی واقعات رونما ہوئے جو براہ راست امام (ع) کی ہدایات پر مبنی تھے۔ ان میں سے مصر میں احمد ابن طولون کی حکومت کا قیام ، بنی عباس کے ظلم و ستم کے خلاف حسن ابن زید علوی کی درخشاں خونچکان تحریک اور آخر کار حسن ابن زید کے ہاتھوں طبرستان کی فتح اور صاحب الزنج کا عظیم جشن اس دور کے اہم واقعات میں شامل ہے۔
اس کے علاوہ مخفیانہ طور پر جو ارتباط امام علیہ السلام سے برقرار کیے جاتے تھے، اس کی وجہ سے حکومت نے اس باب ہدایت کو بند کرنے کے لیے چند پروگرام بنائے۔ پہلے تو امام کو عسکر چھاؤنی میں فوجیوں کی حراست میں دے دیا۔ دوسرے مہتدی عباسی نے اپنے استبدادی اور ظالمانہ نظام حکومت پر نظر ثانی کی اور گھٹن کے ماحول کو بہ نسبت آزاد فضا میں تبدیل کیا اور نام نہاد ، مقدس مآب ، زرخرید ملّا عبد العزیز اموی کی دیوان مظالم کے نام سے ریا کاری پر مبنی ایک ایسی عدالت تشکیل دی جہاں ہفتے میں ایک دن عوام آ کر حکومت کے کارندوں کے ظلم و ستم کی شکایت کرتے تھے۔
لیکن اس ظاہری اور نام نہاد عدالت کا در حقیقت مسلمانوں پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ روز بروز امام حسن عسکری علیہ السلام کی طرف مسلمانوں کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا اور چاروں طرف سے حریت پسند مسلمانوں کی تحریک سے بنی عباس کی حکومت کی بنیادیں ہلنے لگیں اور عوام کی سیل آسا تحریک سے بنی عباس کی حکومت کے زوال کے خوف سے بنی عباس نے عوام میں اپنی مقبولیت پیدا کرنے کے لیے پروگرام بنایا کہ پہلے تو مال و دولت کو عوام کے درمیان تقسیم کیا جائے تا کہ لوگوں کی سرکشی کم ہو اور عوام کو خرید کر ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ جس امام میں حسن عسکری علیہ السلام کو شہید کرنے میں آسانی ہو ۔
تاریخ شاہد ہے کہ تمام دنیا کے جابر و ظالم حکمرانوں کا یہ دستور رہا ہے کہ جب بھی ان کے استبداد کے خلاف کسی نے آواز اٹھائی تو انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ جلد سے جلد اس آواز کو دولت سے خاموش کر دیں اگرچہ شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ آنے والی نسل میں ان کے لیے سوائے رسوائی اور ذلت کے کچھ نہیں ہو گا اور ان کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی دنیا نہ صرف یہ کہ حمایت کرے گی بلکہ ان بزرگوں کو عظمت کی نگاہ سے دیکھی گی اور ان مظلوموں کی زندگی کے نقش قدم پر چل کر فخر کرے گی۔ امام حسن عسکری (ع) نے بھی ہمیشہ اپنے اجداد کی طرح دین اسلام کی حفاظت اور پاسداری میں اپنی زندگی کے گرانقدر لمحات کو صرف کیا اور دین کی حمایت کرتے رہے اگرچہ دین کی حمایت اور عوام کی خدمت عباسی حکمرانوں کے لیے کبھی بھی خوش آئند نہیں رہی، لیکن خداوند متعال نے اپنی آخری حجت اور دین اسلام کے ناصر حضرت امام مہدی (ع) کو امام حسن عسکری کے گھر میں بھیج کر واضح کر دیا ہے کہ دین اسلام کے اصلی مالک و وارث اہل بیت رسول (ع) ہی ہیں۔
چار ماہ کی عمر اور منصب امامت:
حضرت امام حسن عسکری (ع) کی عمر جب چار ماہ کے قریب ہوئی تو آپ کے والد امام علی نقی (ع) نے اپنے بعد کے لیے منصب امامت کی وصیت کی اور فرمایا کہ میرے بعد یہی میرے جانشین ہوں گے اور اس پر بہت سے لوگوں کو گواہ کر دیا۔
ارشاد مفید 502
دمعہ ساکبہ ج 3 ص 163 بحوالہ اصول کافی
علامہ ابن حجر مکی کا کہنا ہے کہ امام حسن عسکری ، امام علی نقی کی اولاد میں سب سے زیادہ اجل و ارفع اعلی و افضل تھے۔
چار سال کی عمر میں آپ کا سفر عراق:
متوکل عباسی ناصبی کہ جو آل محمد کا ہمیشہ سے دشمن تھا، اس نے امام حسن عسکری کے والد بزرگوار امام علی نقی علیہ السلام کو جبرا 236 ہجری میں مدینہ سے سرمن رائے بلا لیا، آپ ہی کے ہمراہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو بھی جانا پڑا، اس وقت آپ کی عمر صرف چار سال اور چند ماہ کی تھی۔
دمعہ ساکبہ ج 3 ص 162
یوسف آل محمد (ع) کنوئیں میں:
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نہ جانے کس طرح اپنے گھر کے کنوئیں میں گر گئے، آپ کے گرنے سے عورتوں میں کہرام عظیم برپا ہو گیا۔ سب چیخنے اور چلّانے لگیں ، مگر امام علی نقی علیہ السلام جو محو نماز تھے، بالکل متاثر نہ ہوئے اور اطمینان سے نماز کا اختتام کیا، اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ گھبراؤ نہیں حجت خدا کو کوئی گزند نہ پہنچے گا۔ اسی دوران میں دیکھا گیا کہ پانی بلند ہو رہا ہے اور امام حسن عسکری پانی میں کھیل رہے ہیں۔
دمعہ ساکبہ ج 3 ص 179
امام حسن عسکری (ع) اور کمسنی میں عروج فکر:
آل محمد جو تدبر قرآنی اور عروج فکر میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک بلند مقام بزرگ حضرت امام حسن عسکری ہیں۔ علمائے فریقین نے لکھا ہے کہ:
ایک دن آپ ایک ایسی جگہ کھڑے تھے کہ جہاں کچھ بچے کھیل میں مصروف تھے۔ اتفاقا ادھر سے عارف آل محمد جناب بہلول دانا گزرے، انہوں نے یہ دیکھ کر کہ سب بچے کھیل رہے ہیں اور ایک خوبصورت سرخ و سفید بچہ کھڑا رو رہا ہے، ادھر متوجہ ہوئے اور کہا اے نونہال مجھے بڑا افسوس ہے کہ تم اس لیے رو رہے رہو کہ تمہارے پاس وہ کھلونے نہیں ہیں، جو ان بچوں کے پاس ہیں سنو ! میں ابھی ابھی تمہارے لیے کھلونے لے کر آتا ہوں۔ یہ کہنا تھا کہ اس کمسنی کے باوجود بولے، ایسا نہ سمجھ ہم کھیلنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، بلکہ ہم علم و عبادت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ بہلول نے پوچھا کہ تمہیں یہ کیونکر معلوم ہوا ہے کہ غرض خلقت علم و عبادت ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اس کی طرف قرآن مجید رہبری کرتا ہے، کیا تم نے نہیں پڑھا کہ خداوند فرماتا ہے کہ:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکمْ عَبَثا
کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تم کو عبث (کھیل کود) کے لیے پیدا کیا ہے اور کیا تم ہماری طرف پلٹ کر نہ آؤ گے۔
سورہ مؤمنون آیت 115
یہ سن کر بہلول حیران رہ گیا، اور کہنے پر مجبور ہو گیا کہ اے فرزند تمہیں کیا ہو گیا تھا کہ تم رو رہے تھے، گناہ کا تصور تو ہو نہیں سکتا کیونکہ تم بہت کم سن ہو، آپ نے فرمایا کہ کمسنی سے کیا ہوتا ہے میں نے اپنی والدہ کو دیکھا ہے کہ بڑی لکڑیوں کو جلانے کے لیے چھوٹی لکڑیاں استعمال کرتی ہیں، میں ڈرتا ہوں کہ کہیں جہنم کے بڑے ایندھن کے لیے ہم چھوٹے اور کمسن لوگ استعمال نہ کیے جائیں۔
صواعق محرقہ ص 124
نور الابصار ص 150
تذکرة المعصومین ص 230
امام حسن عسکری (ع) کے ساتھ بادشاہان وقت کا سلوک اور طرز عمل:
جس طرح آپ کے آباؤ اجداد کے وجود کو ان کے عہد کے بادشاہ اپنی سلطنت اور حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے رہے ان کا یہ خیال رہا کہ دنیا کے قلوب ان کی طرف مائل ہیں کیونکہ یہ فرندر سول اور اعمال صالح کے تاجدار ہیں لہذا ان کو انظار عامہ سے دور رکھا جائے، ورنہ امکان قوی ہے کہ لوگ انہیں اپنا بادشاہ وقت تسلیم کر لیں گے۔ اس کے علاوہ یہ بغض و حسد بھی تھا کہ ان کی عزت بادشاہ وقت کے مقابلہ میں زیادہ کی جاتی ہے اور یہ کہ امام مہدی انہیں کی نسل سے ہوں گے، جو سلطنتوں کا انقلاب لائیں گے، انہیں تصورات نے جس طرح آپ کے بزرگوں کو چین نہ لینے دیا اور ہمیشہ مصائب کی آماجگاہ بنائے رکھا اسی طرح آپ کے عہد کے بادشاہوں نے بھی آپ کے ساتھ کیا عہد واثق میں آپ کی ولادت ہوئی اور عہد متوکل کے کچھ ایام میں بچپنا گزرا، متوکل جو آل محمد کا جانی دشمن تھا۔ اس نے صرف اس جرم میں کہ آل محمد کی تعریف کی ہے ابن سکیت شاعر کی زبان گدی سے کھنچوا لی۔
ابو الفداء ج 2 ص 14
اس نے سب سے پہلے تو آپ پر یہ ظلم کیا کہ چار سال کی عمر میں ترک وطن کرنے پر مجبور کیا یعنی امام علی نقی علیہ السلام کو جبرا مدینہ سے سامرا بلوا لیا جن کے ہمراہ امام حسن عسکری علیہ السلام کو لازما جانا تھا پھر وہاں آپ کے گھر کی لوگوں کے کہنے سننے سے تلاشی کرائی اور اپ کے والد ماجد کو جانوروں کے ذریعے سے جان سے مارنے کی بھی کوشش کی ، غرضکہ جو جو سعی آل محمد کو ستانے کی ممکن تھی، وہ سب اس نے اپنے عہد حیات میں کر ڈالی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا مستنصر خلیفہ ہوا۔ یہ بھی اپنے پاپ کے نقش قدم پر چل کر آل محمد کو ستانے کی سنت ادا کرتا رہا اور اس کی مسلسل کوشش یہی رہی کہ ان لوگوں کو سکون نصیب نہ ہونے پائے، اس کے بعد مستعین کا جب عہد آیا تو اس نے آپ کے والد ماجد کو قید خانہ میں رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی سعی پیہم کی کہ کسی صورت سے امام حسن عسکری کو قتل کرا دے اور اس کے لیے اس نے مختلف راستے تلاش کیے۔
ملا جامی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ اس نے اپنے شوق کے مطابق ایک نہایت زبردست گھوڑا خریدا، لیکن اتفاق سے وہ کچھ اس درجہ سرکش نکلا کہ اس نے بڑے بڑے لوگوں کو سواری نہ دی اور جو اس کے قریب گیا اس کو زمین پر دے مار کر ٹاپوں سے کچل ڈالا، ایک دن خلیفہ مستعین باللہ کے ایک دوست نے رائے دی کہ امام حسن عسکری کو بلا کر حکم دیا جائے کہ وہ اس پر سواری کریں، اگر وہ اس پر کامیاب ہو گئے تو گھوڑا رام ہو جائے گا اور اگر کامیاب نہ ہوئے اور کچل ڈالے گئے تو تیرا مقصد حل ہو جائے گا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا لیکن اللہ رے شان امامت جب آپ اس کے قریب پہنچے تو وہ اس طرح بھیگی بلی بن گیا کہ جیسے کچھ جانتا ہی نہیں۔ بادشاہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور اس کے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا کہ گھوڑا حضرت ہی کے حوالے کر دے۔
شواہد النبوت ص 210
پھر مستعین کے بعد جب معتز باللہ خلیفہ ہوا تو اس نے بھی آل محمد کو ستانے کی سنت جاری رکھی اور اس کی کوشش کرتا رہا کہ عہد حاضر کے امام زمانہ اور فرزند رسول امام علی نقی علیہ السلام کو درجہ شہادت پر فائز کر دے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس نے 254 ہجری میں آپ کے والد بزرگوار کو زہر سے شہید کرا دیا، یہ ایک ایسی مصیبت تھی کہ جس نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو بے انتہا مایوس کر دیا۔ امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام خطرات میں محصور ہو گئے کیونکہ حکومت کا رخ اب آپ ہی کی طرف رہ گیا۔ آپ کو کھٹکا لگا ہی تھا کہ حکومت کی طرف سے عمل درآمد شروع ہو گیا۔ معتز نے ایک شقی ازلی اور ناصب ابدی ابن یارش کی حراست اور نظر بندی میں امام حسن عسکری کو دیدیا۔ اس نے آپ کو ستانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا لیکن آخر میں وہ آپ کا معتقد بن گیا، آپ کی عبادت گزاری اور روزہ داری نے اس پر ایسا گہرا اثر کیا کہ اس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی مانگ لی اور آپ کو دولت سرا تک پہنچا دیا۔
علی بن محمد زیاد کا بیان ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھے ایک خط تحریر فرمایا جس میں لکھا تھا کہ تم خانہ نشین ہو جاؤ کیونکہ ایک بہت بڑا فتنہ اٹھنے والا ہے۔ غرضکہ چند دنوں کے بعد ایک عظیم ہنگامہ برپا ہوا اور حجاج ابن سفیان نے معتز کو قتل کر دیا۔
کشف الغمہ ص 127
پھر جب مہدی باللہ کا عہد آیا تو اس نے بھی بدستور اپنا عمل جاری رکھا اور حضرت کو ستانے میں ہر قسم کی کوشش کرتا رہا۔ ایک دن اس نے آپ کو صالح ابن وصیف نامی ناصبی کے حوالہ کر دیا اور حکم دیا کہ ہر ممکن طریقہ سے آپ کو ستائے، صالح کے مکان کے قریب ایک بدترین حجرہ تھا۔ جس میں آپ قید کیے گئے صالح بدبخت نے جہاں اور طریقے سے ستایا۔ ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ آپ کو کھانا اور پانی سے بھی حیران اور تنگ رکھتا تھا۔ آخر ایسا ہوتا رہا کہ آپ تیمم سے نماز ادا فرماتے رہے ایک دن اس کی بیوی نے کہا کہ اے دشمن خدا یہ فرزند رسول ہیں، ان کے ساتھ رحم کا برتاؤ کر، اس نے کوئی توجہ نہ کی ایک دن کا ذکر ہے کہ بنی عباس کے ایک گروہ نے صالح سے جا کر درخواست کی کہ حسن عسکری پر زیادہ ظلم کیا جانا چاہیے۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے ان پر دو ایسے اشخاص کو مسلط کر دیا ہے جن کا ظلم و تشدد میں جواب نہیں ہے، لیکن میں کیا کروں، کہ ان کے تقوی اور ان کی عبادت گذاری سے وہ اس درجہ متاثر ہو گئے ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں، میں نے ان سے جواب طلبی کی تو انہوں نے قلبی مجبوری ظاہر کی یہ سن کر وہ لوگ مایوس واپس گئے۔
تذکرة المعصومین ص 223
غرضکہ مہدی کا ظلم و تشدد زوروں پر تھا اور یہی نہیں کہ وہ امام علیہ السلام پر سختی کرتا تھا بلکہ یہ کہ وہ ان کے ماننے والوں کو برابر قتل کر رہا تھا۔ ایک دن آپ کے ایک صحابی احمد ابن محمد نے ایک عریضے کے ذریعے سے اس کے ظلم کی شکایت کی، تو آپ نے تحریر فرمایا کہ گھبراؤ نہیں کہ مہدی کی عمر اب صرف پانچ دن باقی رہ گئی ہے، چنانچہ چھٹے دن اسے کمال ذلت و خواری کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔
کشف الغمہ ص 126
اسی کے عہد میں جب آپ قید خانہ میں پہنچے تو عیسی ابن فتح سے فرمایا کہ تمہاری عمر اس وقت 65 سال ایک ماہ دو دن کی ہے۔ اس نے نوٹ بک نکال کر اس کی تصدیق کی پھر آپ نے فرمایا کہ خدا تمہیں اولاد نرینہ عطا کرے گا۔ وہ خوش ہو کر کہنے لگا مولا ! کیا آپ کو خدا فرزند نہ دے گا۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم عنقریب مجھے مالک ایسا فرزند عطا کرے گا جو ساری کائنات پر حکومت کرے گا اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔
نور الابصار ص 101
پھر جب اس کے بعد معتمدخلیفہ ہوا تو اس نے امام علیہ السلام پر ظلم و تشدد و استبداد کا خاتمہ کر دیا۔
امام علی نقی (ع) کی شہادت اور امام حسن عسکری (ع) کا آغاز امامت:
حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام کی شادی جناب نرجس خاتون سے کر دی۔ جو قیصر روم کی پوتی اور شمعون وصی عیسی کی نسل سے تھیں۔
جلاء العیون ص 298
اس کے بعد آپ 3 رجب 254 ہجری کو درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
آپ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی امامت کا آغاز ہوا۔ آپ کے تمام معتقدین نے آپ کو مبارک باد دی اور آپ سے ہر قسم کا استفادہ شروع کر دیا۔ آپ کی خدمت میں آمد و رفت اور سوالات و جوابات کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ آپ نے جوابات میں ایسے حیرت انگیز معلومات کا انکشاف فرمایا کہ لوگ دھنگ رہ گئے۔ آپ نے علم غیب اور علم بالموت تک کا ثبوت پیش فرمایا اور اس کی بھی وضاحت کی کہ فلاں شخص کو اتنے دنوں میں موت آ جائے گی۔
علامہ ملا جامی لکھتے ہیں کہ: ایک شخص نے اپنے والد سمیت حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی راہ میں بیٹھ کر یہ سوال کرنا چاہا کہ باپ کو پانچ سو درہم اور بیٹے کو تین سو درہم اگر امام دیدیں تو سارے کام ہو جائیں، یہاں تک امام علیہ السلام اس راستے پر آ پہنچے ، اتفاقا یہ دونوں امام کو پہچانتے نہ تھے۔ امام خود ان کے قریب گئے اور ان سے کہا کہ تمہیں آٹھ سو درہم کی ضرورت ہے، آؤ تمہیں دیدوں دونوں ہمراہ ہو لیے اور رقم معہود حاصل کر لی اسی طرح ایک اور شخص قید خانے میں تھا۔ اس نے قید کی پریشانی کی شکایت امام علیہ السلام کو لکھ کر بھیجی اور تنگ دستی کا ذکر شرم کی وجہ سے نہ کیا۔ آپ نے تحریر فرمایا کہ تم آج ہی قید سے رہا ہو جاؤ گے اور تم نے جو شرم سے تنگدستی کا تذکرہ نہیں کیا۔ اس کے متعلق معلوم کرو کہ میں اپنے مقام پر پہنچتے ہی سو دینار بھیج دوں گا۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اسی طرح ایک شخص نے آپ سے اپنی تنگدستی کی شکایت کی آپ نے زمین کرید کر ایک اشرفی کی تھیلی نکالی اور اس کے حوالے کر دی۔ اس میں سو دینار تھے۔
اسی طرح ایک شخص نے آپ کو تحریر کیا کہ مشکوة کے معنی کیا ہیں ؟ نیز یہ کہ میری بیوی حاملہ ہے، اس سے جو فرزند پیدا ہو گا، اس کا نام رکھ دیجیے۔ آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ مشکوة سے مراد قلب محمد مصطفی (ص) ہے اور آخر میں لکھ دیا ” اعظم اللہ اجرک واخلف علیک ” خدا تمہیں جزائے خیر دے اور نعم البدل عطا کرے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس کے یہاں مردہ بیٹا پیدا ہوا۔ اس کے بعد اس کی بیوی حاملہ ہوئی ، فرزند نرینہ متولد ہوا۔
شواہد النبوت ص 211
علامہ ارلی لکھتے ہیں کہ: حسن ابن ظریف نامی ایک شخص نے حضرت سے لکھ کر دریافت کیا کہ قائم آل محمد پوشیدہ ہونے کے بعد کب ظہور کریں گے۔ آپ نے تحریر فرمایا جب خدا کی مصلحت ہو گی۔ اس کے بعد لکھا کہ تم تپ ربع کا سوال کرنا بھول گئے ہو، جسے تم مجھ سے پوچھنا چاہتے تھے۔ تو دیکھو ایسا کرو کہ جو اس میں مبتلا ہو اس کے گلے میں آیت ” یا نار کونی بردا و سلاما علی ابراہیم "، لکھ کر لٹکا دو شفا یاب ہو جائے گا۔
علی ابن زید ابن حسین کا کہنا ہے کہ میں ایک گھوڑا پر سوار ہو کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اس گھوڑے کی عمر صرف ایک رات باقی رہ گئی ہے، چنانچہ وہ صبح ہونے سے پہلے مر گیا۔ اسماعیل ابن محمد کا کہنا ہے کہ میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا، اور میں نے ان سے قسم کھا کر کہا کہ میرے پاس ایک درہم بھی نہیں ہے۔ آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ قسم مت کھاؤ تمہارے گھر دو سو دینار مدفون ہیں۔ یہ سن کر وہ حیران رہ گیا، پھر حضرت نے غلام کو حکم دیا کہ انہیں سو اشرفیاں دیدو۔
عبدی روایت کرتا ہے کہ میں اپنے فرزند کو بصرہ میں بیمار چھوڑ کر سامرا گیا اور وہاں حضرت کو تحریر کیا کہ میرے فرزند کے لیے دعائے شفاء فرمائیں۔ آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ ” خدا اس پر رحمت نازل فرمائے ” جس دن یہ خط اسے ملا اسی دن اس کا فرزند انتقال کر چکا تھا۔ محمد ابن افرغ کہتا ہے کہ میں نے حضرت کی خدمت میں ایک عریضے کے ذریعے سے سوال کیا کہ ” آئمہ کو بھی احتلام ہوتا ہے ” جب خط روانہ کر چکا تو خیال ہوا کہ احتلام تو وسوسہ شیطانی سے ہوا کرتا ہے اور امام تک شیطان پہنچ نہیں سکتا، بہرحال جواب آیا کہ امام نیند اور بیداری دونوں حالتوں میں وسوسہ شیطانی سے دور ہوتے ہیں، جیسا کہ تمہارے دل میں بھی خیال پیدا ہوا ہے پھر احتلام کیونکر ہو سکتا ہے۔ جعفر ابن محمد کا کہنا ہے کہ میں ایک دن حضرت کی خدمت میں حاضر تھا، دل میں خیال آیا کہ میری عورت جو حاملہ ہے، اگر اس سے فرزند نرینہ پیدا ہو تو بہت اچھا ہو۔ آپ نے فرمایا کہ اے جعفر لڑکا نہیں لڑکی ہو گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
کشف الغمہ ص 128
اپنے عقیدت مندوں میں حضرت کا دورہ:
جعفر ابن شریف جرجانی بیان کرتے ہیں کہ: میں حج سے فراغت کے بعد حضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور ان سے عرض کی کہ مولا ! اہل جرجان آپ کی تشریف آوری کے خواستگار ہیں۔ آپ نے فرمایا تم آج سے 190 دن کے بعد واپس جرجان پہنچو گے اور جس دن تم پہنچو گے، اسی دن شام کو میں بھی پہنچ جاؤں گا۔ تم انہیں باخبر کر دینا، چنانچہ ایسا ہی ہوا میں وطن پہنچ کر لوگوں کو آگاہ کر چکا تھا کہ امام علیہ السلام کی تشریف آوری ہوئی۔ آپ نے سب سے ملاقات کی اور سب نے شرف زیارت حاصل کیا، پھر لوگوں نے اپنی مشکلات پیش کیں امام علیہ السلام نے سب کو مطمئن کر دیا۔ اسی سلسلہ میں نصر ابن جابر نے اپنے فرزند کو پیش کیا، جو نابینا تھا۔ حضرت نے اس کے چہرے پر دست مبارک پھیرکر اسے بینائی عطا کی، پھر آپ اسی روز واپس تشریف لے گئے۔
کشف الغمہ ص 128
ایک شخص نے آپ کو ایک خط بغیر سیاہی کے قلم سے لکھا آپ نے اس کا جواب مرحمت فرمایا اور ساتھ ہی لکھنے والے کا اور اس کے باپ کا نام بھی تحریر فرما دیا۔ یہ کرامت دیکھ کر وہ شخص حیران ہو گیا اور اسلام لایا اور آپ کی امامت کا معتقد بن گیا۔
دمعہ ساکبہ ص 172
امام حسن عسکری (ع) کا پتھر پر مہر ثبت کرنا:
ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں ایک خوبصورت سا یمنی آیا اور اس نے ایک سنگ پارہ یعنی پتھر کا ٹکڑا پیش کر کے خواہش کی کہ آپ اس پر اپنی امامت کی تصدیق میں مہر کر دیں۔ حضرت نے مہر نکالی اور اس پر لگا دی آپ کا اسم گرامی اس طرح کندہ ہو گیا جس طرح موم پر لگانے سے کندہ ہوتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ آنے والا مجمع ابن صلت ابن عقبہ ابن سمعان ابن غانم ابن ام غانم تھا۔ یہ وہی سنگ پارہ لایا تھا جس پر اس کے خاندان کی ایک عورت ام غانم نے تمام آئمہ طاہرین سے مہر لگوا رکھی تھی۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی امامت کا دعوی کرتا تھا تو وہ اس کو لے کر اس کے پاس چلی جاتی تھی۔ اگر اس مدعی نے پتھر پر مہر لگا دی تو اس نے سمجھ لیا کہ یہ امام زمان ہیں، اور اگر وہ اس عمل سے عاجز رہا تو وہ اسے نظر انداز کر دیتی تھی۔ چونکہ اس نے اسی سنگ پارہ پر کئی اماموں کی مہر لگوائی تھی ، اس لیے اس کا لقب (صاحبۃ الحصاة) ہو گیا تھا۔
علامہ جامی لکھتے ہیں کہ: جب مجمع ابن صلت نے مہر لگوائی تو اس سے پوچھا گیا کہ تم حضرت امام حسن عسکری کو پہلے سے پہچانتے تھے۔ اس نے کہا نہیں، واقعہ یہ ہوا کہ میں ان کا انتظار کر ہی رہا تھا کہ آپ تشریف لائے میں لیکن پہچانتا نہ تھا، اس لیے خاموش ہو گیا۔ اتنے میں ایک ناشناس نوجوان نے میری نظروں کے سامنے آ کر کہا کہ یہی حسن ابن علی ہیں۔
راوی ابو ہاشم کہتا ہے کہ: جب وہ جوان آپ کے دربار میں آیا تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ یہ کون ہے۔ دل میں اس کا خیال آنا تھا کہ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ مہر لگوانے کے لیے وہ سنگ پارہ لایا ہے۔ جس پر میرے باپ دادا کی مہریں لگی ہوئی ہیں۔ چنانچہ اس نے پیش کیا اور آپ نے مہر لگا دی۔ وہ شخص آیت ” ذریة بعضھا من بعض ” پڑھتا ہوا چلا گیا۔
اصول کافی
دمعہ ساکبہ ص 164
شواہد النبوت ص 211
اعلام الوری 214
حضرت امام حسن عسکری (ع) کا عراق کے ایک عظیم فلسفی کو شکست دینا:
مؤرخین کا بیان ہے کہ: عراق کے ایک عظیم فلسفی اسحاق کندی کو یہ خبط سوار ہوا کہ قرآن مجید میں تناقض و تضاد ثابت کرے، اور یہ بتا دے کہ قرآن مجید کی ایک آیت دوسری آیت سے، اور ایک مضمون دوسرے مضمون سے ٹکراتا ہے۔ اس نے اس مقصد کی تکمیل کے لیے کتاب ” تناقض القرآن ” لکھنا شروع کی اور اس درجہ منہمک ہو گیا کہ لوگوں سے ملنا جلنا اور کہیں آنا جانا سب ترک کر دیا۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اس کے خبط کو دور کرنے کا ارادہ فرمایا۔ آپ کا خیال تھا کہ اس پر کوئی ایسا اعتراض کر دیا جائے کہ جس کا وہ جواب نہ دے سکے اور مجبورا اپنے ارادہ سے باز آ جائے۔
اتفاقا ایک دن آپ کی خدمت میں اس کا ایک شاگرد حاضر ہوا۔ حضرت نے اس سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اسحاق کندی کو کتاب ” تناقض القرآن ” لکھنے سے باز رکھے۔ اس نے عرض کی مولا ! میں اس کا شاگرد ہوں، بھلا اس کے سامنے کیسے لب گشائی کر سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا یہ تو کر سکتے ہو کہ جو میں کہوں وہ اس تک پہنچا دو۔ اس نے کہا کر سکتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ پہلے تو تم اس سے موانست پیدا کرو، اور اس پر اعتبار جماؤ۔ جب وہ تم سے مانوس ہو جائے اور تمہاری بات توجہ سے سننے لگے تو اس سے کہنا کہ مجھے ایک شبہ پیدا ہو گیا ہے۔ آپ اس کو دور فرما دیں، جب وہ کہے کہ بیان کرو تو کہنا کہ
” ان اتاک ھذا لمتکلم بھذا القرآن ہل یجوز مرادہ بما تکلم منہ عن المعانی التی قد ظننتھا انک ذھبتھا الیھا ”
اگر اس کتاب یعنی قرآن کا مالک تمہارے پاس اسے لائے تو کیا ہو سکتا ہے کہ اس کلام سے جو مطلب اس کا ہو، وہ تمہارے سمجھے ہوئے معانی و مطالب کے خلاف ہو۔
جب وہ تمہارا یہ اعتراض سنے گا تو چونکہ ذہین آدمی ہے فورا کہے گا کہ بے شک ایسا ہو سکتا ہے جب وہ یہ کہے تو تم اس سے کہنا کہ پھر کتاب ” تناقض القرآن ” لکھنے سے کیا فائدہ ؟ کیونکہ تم اس کے جو معنی سمجھ کر اس پر اعتراض کر رہے ہو ، ہو سکتا ہے کہ وہ خدائی مقصود کے خلاف ہو، ایسی صورت میں تمہاری محنت ضائع اور برباد ہو جائے گی، کیونکہ تناقض تو جب ہو سکتا ہے کہ تمہارا سمجھا ہوا مطلب صحیح اور مقصود خداوندی کے مطابق ہو اور ایسا یقینی طور پر نہیں تو پھر تناقض کیسا ؟
الغرض وہ شاگرد ، اسحاق کندی کے پاس گیا اور اس نے امام کے بتائے ہوئے اصول پر اس سے مذکورہ سوال کیا۔ اسحاق کندی یہ اعتراض سن کر حیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ پھر سوال کو دہراؤ۔ اس نے پھر سوال کو تکرار کیا۔ اسحاق تھوڑی دیر کے لیے محو تفکر ہو گیا اور کہنے لگا کہ بے شک اس قسم کا احتمال باعتبار لغت اور بلحاظ فکر و تدبر ممکن ہے، پھر اپنے شاگرد کی طرف متوجہ ہو کر بولا ! میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم مجھے صحیح صحیح بتاؤ کہ تمہیں یہ اعتراض کس نے بتایا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ میرے شفیق استاد یہ میرے ہی ذہن کی پیداوار ہے۔ اسحاق نے کہا ہرگز نہیں ، یہ تمہارے جیسے علم والے کے بس کی چیز نہیں ہے۔ تم سچ بتاؤ کہ تمہیں کس نے بتایا اور اس اعتراض کی طرف کس نے توجہ دلائی ہے۔ شاگرد نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا تھا اور میں نے انھیں کے بتائے ہوئے اصول پر آپ سے سوال کیا ہے۔ اسحاق کندی بولا:
” ان جئت بہ ” اب تم نے سچ کہا ہے،
ایسے اعتراضات اور ایسی اہم باتیں خاندان رسالت ہی سے برآمد ہو سکتی ہیں۔ ” ثم انہ دعا بالنار و احرق جمیع ما کان الفہ ”
پھر اس نے آگ منگوائی اور کتاب تناقض القرآن کا سارا مسودہ نذر آتش کر دیا۔
مناقب ابن شہر آشوب مازندرانی ج 5 ص 127
بحار الانوار ج 12 ص 172
دمعہ ساکبہ ج 3 ص 183
حضرت امام حسن عسکری (ع) اور خصوصیات مذہب:
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ ہمارے مذہب میں ان لوگوں کا شمار ہو گا جو اصول و فروع اور دیگر لوازم کے ساتھ ساتھ ان دس چیزوں کے قائل ہوں بلکہ ان پر عامل ہوں گے۔:
1- شب و روز میں 51 رکعت نماز پڑھنا۔
2- سجد گاہ کربلا پر سجدہ کرنا۔
3- داہنے ہاتھ میں انگھوٹھی پہننا۔
4- اذان و اقامت کے جملے دو دو مرتبہ کہنا۔
5- اذان و اقامت میں حی علی خیر العمل کہنا۔
6- نماز میں بسم اللہ بلند آواز سے پڑھنا۔
7- ہر دوسری رکعت میں قنوت پڑھنا۔
8- آفتاب کی زردی سے پہلے نماز عصر اور ستاروں کے ڈوب جانے سے پہلے نماز صبح پڑھنا۔
9- سر اور داڑھی میں وسمہ کا خضاب کرنا۔
10- نماز میت میں پانچ تکبر کہنا۔
دمعہ ساکبہ ج 3 ص 172
معتمد عباسی کی خلافت اور امام حسن عسکری (ع) کی گرفتاری:
256 ہجری میں معتمد عباسی خلافت مقبوضہ کے تخت پر متمکن ہوا، اس نے حکومت کی عنان سنبھالتے ہی اپنے آبائی طرز عمل کو اختیار کرنا اور نسلی کردار کو پیش کرنا شروع کر دیا اور دل سے اس کی سعی شروع کر دی کہ آل محمد کے وجود سے زمین خالی ہو جائے۔ یہ اگرچہ حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لیتے ہی ملکی بغاوت کا شکار ہو گیا تھا، لیکن پھر بھی اپنے وظیفے اور اپنے مشن سے غافل نہیں رہا۔ اس نے حکم دیا کہ عہد حاضر میں خاندان رسالت کی یادگار، امام حسن عسکری کو قید کر دیا جائے اور انہیں قید میں کسی قسم کا سکون نہ دیا جائے۔ حکم حاکم مرگ مفاجات آخر امام علیہ السلام بلا جرم و خطا آزاد و فضا سے قید خانے میں پہنچا دئیے گئے اور آپ پر علی ابن اوتاش نامی ایک ناصبی مسلط کر دیا گیا، جو آل محمد اور ال ابی طالب کا سخت ترین اور بد ترین دشمن تھا اور اس سے کہہ دیا گیا کہ جو جی چاہے کرو، تم سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ابن اوتاش نے حسب ہدایت آپ پر طرح طرح کی سختیاں شروع کر دیں اس نے نہ خدا کا خوف کیا اور نہ ہی پیغمبر کی اولاد ہونے کا لحاظ کیا۔
لیکن اللہ رے آپ کا زہد و تقوی کہ دو چار ہی دن میں دشمن کا دل موم ہو گیا اور وہ حضرت کے پیروں پر پڑ گیا۔ آپ کی عبادت گذاری اور تقوی و طہارت دیکھ کر وہ اتنا متاثر ہوا کہ حضرت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ نہ سکتا تھا۔ آپ کی عظمت و جلالت کی وجہ سے سر جھکا کر آتا اور چلاجاتا، یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا کہ دشمن بصیرت آگیں بن کر آپ کا معترف اور ماننے والا ہو گیا۔
اعلام الوری ص 218
ابو ہاشم داؤد ابن قاسم کا بیان ہے کہ: میں اور میرے ہمراہ حسن ابن محمد القتفی و محمد ابن ابراہیم عمری اور دیگر بہت سے حضرات اس قید خانے میں آل محمد کی محبت کے جرم کی سزا بھگت رہے تھے کہ ناگاہ ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے امام زمان حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام بھی تشریف لا رہے ہیں۔ ہم نے ان کا استقبال کیا وہ تشریف لا کر قید خانہ میں ہمارے پاس بیٹھ گئے، اور بیٹھتے ہی ایک اندھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ شخص نہ ہوتا تو، میں تمہیں یہ بتا دیتا کہ اندرونی معاملہ کیا ہے اور تم کب رہا ہو گے۔ لوگوں نے یہ سن کر اس اندھے سے کہا کہ تم ذرا ہمارے پاس سے چند منٹ کے لیے دور چلے جاؤ، چنانچہ وہ ہٹ گیا۔ اس کے چلے جانے کے بعد آپ نے فرمایا کہ یہ نابینا قیدی نہیں ہے، بلکہ تمہارے لیے حکومت کا جاسوس ہے۔ اس کی جیب میں ایسے کاغذات موجود ہیں جو اس کی جاسوسی کا ثبوت دیتے ہیں۔ یہ سن کر لوگوں نے اس کی تلاشی لی اور واقعہ بالکل صحیح نکلا ابو ہاشم کہتے ہیں کہ ہم قید کے ایام گذار رہے تھے کہ ایک دن غلام دوپہر کا کھانا لایا۔ حضرت نے کہا کہ میں شام کا کھانا آنے سے پہلے یہاں نہیں ہوں گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ عصر کے وقت قید خانے سے رہا ہو گئے۔
اعلام الوری ص 214
اسلام پر امام حسن عسکری (ع) کا احسان عظیم اور واقعہ قحط:
امام عسکری علیہ السلام قید خانے ہی میں تھے کہ سامرا میں جو تین سال سے قحط پڑا ہوا تھا، اس نے شدت اختیار کر لی اور لوگوں کا حال یہ ہو گیا تھا کہ مرنے کے قریب پہنچ گئے۔ بھوک اور پیاس کی شدت نے زندگی سے عاجز کر دیا۔ یہ حال دیکھ کر خلیفہ معتمد عباسی نے لوگوں کو حکم دیا کہ تین دن تک باہر نکل کر نماز استسقاء پڑھیں، چنانچہ سب نے ایسا ہی کیا ، مگر پانی نہ برسا، چوتھے روز بغداد کے نصاری کی جماعت صحرا میں آئی اور ان میں سے ایک راہب نے آسمان کی طرف اپنا ہاتھ بلند کیا، اس کا ہاتھ بلند ہونا تھا کہ بادل چھا گئے اور پانی برسنا شروع ہو گیا۔ اسی طرح اس راہب نے دوسرے دن بھی عمل کیا اور بدستور اس دن بھی باران رحمت کا نزول ہوا۔یہ دیکھ کر سب کو نہایت تعجب ہوا، حتی کہ بعض جاہلوں کے دلوں میں شک پیدا ہو گیا، بلکہ ان میں سے تو بعض اسی وقت مرتد ہو گئے، یہ واقعہ خلیفہ پر بہت شاق گزرا۔
اس نے امام حسن عسکری کو طلب کر کے کہا کہ اے ابو محمد اپنے جدّ کے کلمہ گو مسلمانوں کی خبر لو، اور ان کو ہلاکت یعنی گمراہی سے بچاؤ، حضرت امام حسن عسکری نے فرمایا کہ اچھا راہبوں کو حکم دیا جائے کہ کل پھر وہ میدان میں آ کر دعائے باران کریں ، انشاء اللہ تعالی میں لوگوں کے شکوک زائل کر دوں گا، پھر جب دوسرے دن وہ لوگ میدان میں طلب باران کے لیے جمع ہوئے تو اس راہب نے معمول کے مطابق آسمان کی طرف ہاتھ بلند کیا، ناگہاں آسمان پر ابر نمودار ہوئے اور بارش برسنے لگی۔ یہ دیکھ کر امام حسن عسکری نے ایک شخص سے کہا کہ راہب کا ہاتھ پکڑ کر جو چیز راہب کے ہاتھ میں ملے، اسے اس سے لے لو، اس شخص نے راہب کے ہاتھ میں ایک ہڈی دبی ہوئی پائی اور اس سے لے کر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر دی، انہوں نے راہب سے فرمایا کہ اب تم اپنا ہاتھ اٹھا کر بارش کی دعا کر۔ اس نے ہاتھ اٹھایا تو بجائے بارش ہونے کے مطلع صاف ہو گیا اور دھوپ نکل آئی، لوگ کمال تعجب سے حیران رہ گئے۔
خلیفہ معتمد نے حضرت امام حسن عسکری سے پوچھا، کہ اے ابو محمد یہ کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ ایک نبی کی ہڈی ہے جس کی وجہ سے راہب اپنے مدعا میں کامیاب ہوتا رہا، کیونکہ نبی کی ہڈی کا یہ اثر ہے کہ جب وہ زیر آسمان کھولی جائے گی، تو باران رحمت کا ضرور نزول ہوتا ہے۔ یہ سن کر لوگوں نے اس ہڈی کا امتحان کیا تو اس کی وہی تاثیر دیکھی جو حضرت امام حسن عسکری نے بیان کی تھی۔ اس واقعہ سے لوگوں کے دلوں کے وہ شکوک زائل ہو گئے جو پہلے پیدا ہو گئے تھے، پھر امام حسن عسکری علیہ السلام اس ہڈی کو لے کر اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے اور پھر آپ نے اس ہڈی کو کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا۔
صواعق محرقہ ص 124
کشف الغمہ ص 129
اخبار الدول ص 117
شیخ شہاب الدین قلبونی نے کتاب غرائب و عجائب میں اس واقعہ کو صوفیوں کی کرامات کے سلسلہ میں لکھا ہے۔ بعض کتابوں میں ہے کہ ہڈی کی گرفت کے بعد آپ نے نماز ادا کی اور دعا فرمائی خداوند عالم نے اتنی بارش نازل کی کہ جل تھل ہو گیا اور قحط مکمل طور پر جاتا رہا۔
یہ بھی مرقوم ہے کہ امام علیہ السلام نے قید سے نکلتے وقت اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ فرمایا تھا، جو منظور ہو گیا تھا، اور وہ لوگ بھی راہب کی ہوا اکھاڑنے کے لیے ہمراہ تھے۔
نور الابصار ص 151
ایک روایت میں ہے کہ جب آپ نے دعائے باران کی اور ابرآیا تو آپ نے فرمایا کہ فلاں ملک کے لیے ہے اور وہ وہیں چلا گیا، اسی طرح کئی بار ہوا پھر وہاں برسا۔
امام حسن عسکری (ع) اور عبید اللہ، وزیر معتمد عباسی:
اسی زمانے میں ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام متوکل کے وزیر فتح ابن خاقان کے بیٹے عبید اللہ ابن خاقان جو کہ معتمد کا وزیر تھا، ملنے کے لیے تشریف لے گیے۔ اس نے آپ کی بے انتہا تعظیم کی اور آپ سے اس طرح محو گفتگو رہا کہ معتمد کا بھائی موفق دربار میں آیا تو اس نے اسکی کوئی پرواہ نہ کی۔ یہ حضرت کی جلالت اور خداوند کی دی ہوئی عزت کا نتیجہ تھا۔
ہم اس واقعے کو عبید اللہ کے بیٹے احمد خاقان کی زبانی بیان کرتے ہیں۔ کتب معتبرہ میں ہے کہ جس زمانے میں احمد خاقان قم کا والی تھا، اس کے دربار میں ایک دن علویوں کا تذکرہ چھڑ گیا، وہ اگرچہ دشمن آل محمد ہونے میں مثالی حیثیت رکھتا تھا، لیکن یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ میری نظر میں امام حسن عسکری سے بہتر کوئی نہیں ہے۔ ان کی جو وقعت ان کے ماننے والوں اور اراکین دولت کی نظر میں تھی، وہ ان کے عہد میں کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی ، سنو ! ایک مرتبہ میں اپنے والد عبید اللہ ابن خاقان کے پاس کھڑا تھا کہ ناگاہ دربان نے اطلاع دی کہ امام حسن عسکری تشریف لائے ہوئے ہیں۔ وہ داخل ہونے کی اجازت چاہتے ہیں۔ یہ سن کر میرے والد نے پکار کر کہا کہ حضرت ابن الرضا کو آنے دو، والد نے چونکہ کنیت کے ساتھ نام لیا تھا، اس لیے مجھے سخت تعجب ہوا، کیونکہ اس طرح خلیفہ یا ولیعہد کے علاوہ کسی کا نام نہیں لیا جاتا تھا۔ اس کے بعد ہی میں نے دیکھا کہ ایک صاحب جو سبز رنگ ، خوش قامت، خوب صورت، نازک اندام جوان تھے، داخل ہوئے، جن کے چہرے سے رعب و جلال ہویدا تھا۔ میرے والد کی نظر جونہی ان پر پڑی وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے استقبال کے لیے آگے بڑھے اور انھیں سینے سے لگا کر ان کے چہرہ اور سینے کا بوسہ لیا اور اپنے مصلے پر انہیں بٹھایا اور کمال ادب سے ان کی طرف مخاطب رہے، اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کہتے تھے: میری جان آپ پر قربان اے فرزند رسول خدا۔
اسی اثناء میں دربان نے آ کر اطلاع دی کہ خلیفہ کا بھائی موفق آیا ہے۔ میرے والد نے کوئی توجہ نہ دی ، حالانکہ اس کا عموما یہ انداز رہتا تھا کہ جب تک واپس نہ چل اجائے دربار کے لوگ سر جھکائے کھڑے رہتے تھے، یہاں تک کہ موفق کے غلامان خاص کو اس نے اپنی نظروں سے دیکھ لیا، انہیں دیکھنے کے بعد میرے والد نے کہا یا ابن رسول اللہ اگر اجازت ہو تو موفق سے کچھ باتیں کر لوں۔ حضرت نے وہاں سے اٹھ کر روانہ ہو جانے کا ارادہ کیا۔ میرے والد نے انہیں سینے سے لگایا اور دربانوں کو حکم دیا کہ انہیں دو مکمل صفوں کے درمیان سے لے جاؤ کہ موفق کی نظر آپ پر نہ پڑے، چنانچہ اسی انداز سے واپس تشریف لے گئے۔
آپ کے جانے کے بعد میں نے خادموں اور غلاموں سے کہا کہ وائے ہو تم نے کنیت کے ساتھ کس کا نام لے کر اسے میرے والد کے سامنے پیش کیا تھا۔ جس کی اس نے اس درجہ تعظیم کی جس کی مجھے توقع نہ تھی۔ ان لوگوں نے پھر کہا کہ یہ شخص سادات علویہ میں سے تھا۔ اس کا نام حسن ابن علی اور کنیت ابن الرضا ہے، یہ سن کر میرے غم و غصہ کی کوئی انتہا نہ رہی اور میں دن بھر اسی غصہ میں مبتلا رہا کہ علوی سادات کی میرے والد نے اتنی عزت و توقیر کیوں کی، یہاں تک کہ رات آ گئی۔
میرے والد نماز میں مشغول تھے، جب وہ فریضہ عشاء سے فارغ ہوئے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے پوچھا اے احمد اس وقت آنے کا سبب کیا ہے ؟ میں نے عرض کی کہ اجازت دیجیے تو میں کچھ پوچھوں، انہوں نے فرمایا جو جی چاہے پوچھو میں نے کہا یہ شخص کون تھا ؟ جو صبح آپ کے پاس آیا تھا۔ جس کی آپ نے زبردست تعظیم کی اور ہر بات میں اپنے کو اور اپنے ماں باپ کو اس پر سے فدا کرتے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ اے فرزند یہ رافضیوں کے امام ہیں۔ ان کا نام حسن ابن علی اور ان کی مشہور کنیت ابن الرضا ہے۔ یہ فرما کر وہ تھوڑی دیر چپ رہے پھر بولے اے فرزند یہ وہ کامل انسان ہے کہ اگر عباسیوں سے سلطنت چلی جائے تو اس وقت دنیا میں اس سے زیادہ اس حکومت کا مستحق کوئی نہیں ہے۔ یہ شخص عفت، زہد، کثرت عبادت، حسن اخلاق، صلاح، تقوی وغیرہ میں تمام بنی ہاشم سے افضل و اعلی ہے اور اے فرزند اگر تو ان کے باپ کو دیکھتا تو حیران رہ جاتا۔ وہ اتنے صاحب کرم اور فاضل تھے کہ ان کی مثال بھی نہیں تھی۔ یہ سب باتیں سن کر میں خاموش تو ہو گیا، لیکن والد سے حد درجہ ناخوش رہنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ ابن الرضا کے حالات کا تفحص کرنا اپنا شیوہ بنا لیا۔
اس سلسلہ میں، میں نے بنی ہاشم ، امراء لشکر، منشیان دفتر قضاة اور فقہاء اور عوام الناس سے حضرت کے حالات کے بارے میں سوال کیا۔ سب کے نزدیک حضرت ابن الرضا کو جلیل القدر اور عظیم پایا اور سب نے بالاتفاق یہی بیان کیا کہ اس مرتبہ اور ان خوبیوں کا کوئی شخص کسی خاندان میں نہیں ہے۔ جب میں نے ہر ایک دوست اور دشمن کو حضرت کے بیان اخلاق اور اظہار مکارم اخلاق میں متفق پایا تو میں بھی ان کا دل سے ماننے والا ہو گیا اور اب ان کی قدر و منزلت میرے نزدیک بے انتہا ہے۔ یہ سن کر تمام اہل دربار خاموش ہو گئے۔ البتہ ایک شخص بول اٹھا کہ اے احمد تمہاری نظر میں ان کے برادر جعفر کی کیا حثیت ہے ؟ احمد نے کہا کہ ان کے مقابلے میں اس کا کیا ذکر کرتے ہو۔ وہ تو علانیہ فسق و فجور کا ارتکاب کرتا تھا۔ دائم الخمر تھا، خفیف العقل تھا، انواع انواع کے گناہ انجام دیا کرتا تھا۔
ابن الرضا کے بعد جب خلیفہ معتمد سے اس نے ان کی جانشینی کا سوال کیا، تو اس نے اس کے کردار کی وجہ سے اسے دربار سے نکلوا دیا تھا۔
مناقب ابن آشوب ج 5 ص 124
ارشاد مفید ص 505
بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ گفتگو امام حسن عسکری کی شہادت کے 18 سال بعد ماہ شعبان 278 ہجری کی ہے۔
دمعہ ساکبہ ج 3 ص 192
آپ کی حیات طیبہ میں درج ذیل حکّام کا زمانہ تھا:
1- خلیفہ المعتز: اس کے زمانے میں خلیفہ اور امام کے درمیان کوئی دشمنی یا سازش نهیں تھی کیونکہ اس زمانے میں تُرک لشکر نے خلیفہ کے لیے بہت سی مشکلیں ایجاد کر رکھی تھیں، اس کی حکومت میں تباہ کاری و خرابکاری کر رکھی تھی اور خلیفہ ان مشکلات سے دوچار تھا لیکن آخر کار خلیفہ کو خلافت سے معزول ہونا پڑا۔
2- خلیفہ مہتدیٰ: اس کے امام علیہ السلام کے ساتھ اچھے روابط تھے اور اسی وجہ سے خلیفہ شراب، محفلِ رقص و سرور سے دور تھا اور نیکی و خیر کا مظاہرہ کیا کرتا تھا۔
3- خلیفہ معتمد: یہ خلیفہ اہل بیت (ع) کا سخت دشمن تھا، اسی وجہ سے اس نے امام علیہ السلام کو ایک مدت تک قید خانے میں رکھا لیکن مجبور ہو کر امام علیہ السلام کو آزاد کرنا پڑا کیونکہ اس وقت کے نصاریٰ نے خلیفہ سے کچھ علمی سوالات کر لیے تھے چنانچہ اس مشکل کو حل کرنے اور نصاریٰ کے کھوٹے پن کو ظاہر کرنے کے لیے امام علیہ السلام کی مدد لی جیسا کہ تاریخی کتابیں اشارہ کرتی ہیں۔
جس وقت امام عسکری علیہ السلام کی شہادت کی خبر ملی تو وہ نگران تھا کیونکہ اس وقت، محمد مہدی ابن امام عسکری علیہما السلام کی بحث شروع ہو چکی تھی اور اس سلسلے میں امام مہدی علیہ السلام کے چچا جعفر ابن علی میں حسد و کینہ بھرا ہوا تھا اور آپ کے مال و منال اور آپ کے مقام کی طرف چشم طمع لگائے ہوئے تھا، اور اپنے بھتیجے ( امام مہدی ) کو تلاش کرنا چاہتا تھا لیکن یہ اور خلیفہ دونوں اپنے ارادوں میں ناکام ہو گئے اور امام مہدی دشمنوں کی نظروں سے مخفی رہے اور خداوند نے ان کو حاسدوں کے حسد سے نجات دی۔
باوجود یہ کہ اپنے دور امامت میں آپ کی تقریباً پوری زندگی قید و بند میں گزری لیکن پھر بھی اپنے جد بزرگوار امیر المومنین اور دیگر اجداد کی سیرت کے مطابق جب اسلام کو آپکی مدد کی ضرورت پڑی تو ظالم حکومت کے بڑھائے ہوئے فریاد کے ہاتھ کو کبھی ناکام واپس جانے نہ دیا۔ چنانچہ جب قحط کے موقع پر ایک عیسائی راہب نے بارش کرا کے اپنی روحانیت کے مظاہرہ سے دار السلطنت عباسیہ کے بہت سے مسلمانوں کے ارتداد کے آثار پیدا کر دیئے تو اس وقت امام حسن عسکری تھے کہ جنہوں نے اس کے طلسم کو شکستہ کر کے مسلمانوں کی استقامت کا سامان بہم پہنچایا۔
اس کے علاوہ آپ نے سچے پرستارانِ دین کی دینی تعلیم و تربیت کے فریضہ کو نظر انداز نہیں کیا۔ اس کے لیے اپنی طرف سے سفراء مقرر کیے جو اپنی بصیرت علمی کے مطابق خود مسائل شرعیہ کا جواب دیتے تھے اور جن مسائل میں امام سے دریافت کرنے کی ضرورت ہوتی تھی ان کا خود مناسب موقع پر امام سے جواب حاصل کر کے سائل کی تشفی کر دیتے تھے۔ انہی کے ذریعے سے اموالِ خمس کی جمع آوری ہوتی تھی اور وہ تنظیم سادات اور دیگر دینی مہمات پر صرف ہوتا تھا۔ اسی طرح سلطنت دنیوی کے متوازی، حکومت دینی کا پورا ادارہ کامیابی کے ساتھ چل رہا تھا۔
پھر آپ نے قید و بند کے اسی شکنجہ میں بھی معارف اسلامی کی خدمت جاری رکھی۔ حالانکہ امام حسن عسکری (ع) کا زمانہ پُر آشوب تھا لیکن پھر بھی راویوں نے بہت سی روایات نقل کی ہیں جو علم و معرفت میں اپنا مقام رکھتی ہیں۔ چنانچہ بعض آپ کی نورانی احادیث شیعہ کتب احادیث اور بعض کتب اہل سنت میں درج ہیں۔
حضرت امام حسن عسکری (ع) کے سود مند، حکمت آمیز فرامین:
حضرت امام حسن عسکری (ع) کے پند و نصائح و حکم اور مواعظ میں سے چند کو ذکر کرنے کی سعادت حاصل کی جا رہی ہے:
1- دو بہترین عادتیں یہ ہیں کہ اللہ پر ایمان رکھے اور لوگوں کو نفع پہنچائے۔
2- نیک لوگوں کو دوست رکھنے میں ثواب ہے۔
3- تواضع اور فروتنی یہ ہے کہ جب کسی کے پاس سے گزرو تو سلام کرو اور مجلس میں جہاں جگہ ملے بیٹھ جاؤ۔
4- بلا وجہ ہنسنا جہالت کی دلیل ہے۔
5- پڑوسیوں کی نیکی کو چھپانا اور برائیوں کو اچھالنا ہر شخص کے لیے کمر توڑ دینے والی مصیبت اور بے چارگی ہے۔
6- یہی عبادت نہیں ہے کہ نماز روزے کو ادا کرتے رہو، بلکہ یہ بھی اہم عبادت ہے کہ خدا کے بارے میں غور و فکر کرتے رہو۔
7- وہ شخص بدترین ہے جو دو چہرے اور دو زبان والا ہو، جب دوست سامنے آئے تو اپنی زبان سے خوش کر دے اور جب وہ چلا جائے تو اسے کھا جانے کی تدبیر سوچے ، جب اسے کچھ ملے تو یہ حسد کرے اور جب اس پر کوئی مصیبت آئے تو اسکے قریب بھی نہ جائے۔
8- غصہ ہر برائی کی کنجی ہے۔
9- حسد کرنے اور کینہ رکھنے والے کو کبھی بھی سکون قلب نصیب نہیں ہوتا۔
10- پرہیزگار وہ ہے کہ جو شب کے وقت توقف و تدبر سے کام لے اور ہر کام میں احتیاط برتے۔
11- بہترین عبادت گزار وہ ہے کہ جو فرائض ادا کرتا رہے۔
12- بہترین متقی اور زاہد وہ ہے کہ جو بالکل گناہ کو ترک کر دے۔
13- ہر انسان جو بھی دنیا میں بوئے گا، وہی آخرت میں کاٹے گا۔
14- موت تمہارے پیچھے لگی ہوئی ہے، اچھا بوگے تو اچھا کاٹو گے، برا بوگے تو ندامت و پشمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
15- حرص اور لالچ سے کوئی فائدہ نہیں، جو ملنا ہے وہی ملے گا۔
16- ایک مومن دوسرے مومن کے لیے باعث برکت ہے۔
17- بیوقوف کا دل اس کے منہ میں ہوتا ہے اور عقلمند کا منہ اس کے دل میں ہوتا ہے۔
18- دنیا کی تلاش میں کوئی فریضہ نہ گنوا دینا۔
19- طہارت میں شک کی وجہ سے زیادتی کرنا، غیر ممدوح ہے۔
20- کوئی کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو، جب وہ حق کو چھوڑ دے گا تو ذلیل ہو جائے گا۔
21- معمولی آدمی کے ساتھ اگر حق ہو تو وہی بڑا ہے۔
22- جاہل کی دوستی کسی مصیبت سے کم نہیں ہے۔
23- غمگین کے سامنے ہنسنا، بے ادبی اور برا عمل ہے۔
24- وہ چیز موت سے بدتر ہے، جو تمہیں موت سے بہتر نظر آئے۔
25- وہ چیز زندگی سے بہتر ہے، جس کی وجہ سے تم زندگی کو برا سمجھو۔
26- جاہل کی دوستی اور اس کے ساتھ گزارا کرنا، معجزے کی مانند ہے۔
27- کسی انسان کا اپنی عادت کو ترک کرنا، کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔
28- تواضع ایسی نعمت ہے، جس پر حسد نہیں کیا جا سکتا۔
29- اس انداز سے کسی کی تعظیم نہ کرو، جسے وہ برا سمجھے۔
30- اپنے بھائی کو پوشیدہ نصیحت کرنا، اس کی زینت کا سبب بنتا ہے۔
31- کسی کو دوسروں کے سامنے نصیحت کرنا، برائی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔
32- ہر بلا اور مصیبت کے پس منظر میں رحمت اور نعمت خداوندی ہوتی ہے۔
33- میں اپنے شیعوں کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈریں، دین کے بارے میں پرہیزگاری کو شعار بنا لیں، خدا کے متعلق پوری سعی کریں اور اس کے احکام کی پیروی میں کمی نہ کریں، سچ بولیں، امانتیں چاہے مؤمن کی ہوں یا کافر کی، ادا کریں، اور اپنے سجدوں کو طول دیں اور سوالات کے شیریں جواب دیں، تلاوت قرآن مجید کیا کریں، موت اور خداوند کے ذکر سے کبھی غافل نہ ہوں۔
34- جو شخص دنیا سے دل کا اندھا اٹھے گا، آخرت میں بھی اندھا رہے گا، دل کا اندھا ہونا، ہماری مودت سے غافل رہنا ہے، قرآن مجید میں ہے کہ قیامت کے دن ظالم کہیں گے:
” رب لما حشرتنی اعمی وکنت بصیرا "،
میرے پالنے والے ہم تو دنیا میں بینا تھے ہمیں یہاں اندھا کیوں اٹھایا ہے، جواب ملے گا ہم نے جو نشانیاں بھیجی تھیں، تم نے انھیں نظر انداز کیا تھا۔
لوگو ! اللہ کی نعمت اللہ کی نشانیاں ہم آل محمد ہیں۔
بحار الانوار ج 14 ص 134
التماس دعا۔۔۔۔۔