دنیا

ہماری مدد کرو، تل ابیب کا یمنی حملوں کے بعد واویلا

شیعہ نیوز: یمن کے حوثیوں نے ابھی تک مشرق وسطیٰ کی سمندری دنیا میں 17 کے قریب اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ لیکن دنیا اس سلسلے میں خاموشی دھارے ہوئے ہے۔ یہ منظرنامہ صنعاء کے سامنے تل ابیب کی تنہائی کا مظہر ہے۔ اس سلسلے میں اسرائیلی میڈیا نے ایک رپورٹ میں اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے خلاف جنگ میں یمن کی فورسز کا کودنا ایک اتفاق نہیں ہے۔ وہ اپنے تمام وسائل اور علاقائی ہم آہنگی کے بعد تل ابیب کے لئے خطرے کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ واضح رہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملے بعد یمنی باضابطہ طور پر اس جنگ میں شامل ہوئے ہیں۔ حوثیوں نے اسرائیلی سامان لے جانے والے "گلیکسی لیڈر” نامی بحری جہاز کو نشانہ بنا کر اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ یہ کارروائیاں ابھی تک جاری ہیں اور تل ابیب کے لئے درد سر بنی ہوئی ہیں۔

15 دسمبر کو ایک بار پھر یمن کی مسلح فورسز کے ترجمان "یحییٰ سریع” نے اعلان کیا کہ اُن کی فوج نے اسرائیل کی جانب جانے والے MSC Alanya اور MSC PALATIUM III نامی دو بحری جہازوں کو اپنے میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کارروائیوں کا اثر صرف اسرائیل پر ہی نہیں بلکہ اکانومسٹ نے رپورٹ دی کہ 4 کمپنیوں نے ان حملوں کے بعد بحیرہ احمر میں اپنی سرگرمیاں معطل کر دی ہیں حالانکہ یہ چاروں کمپنیاں دنیا کی تجارت کا 53 فیصد حصہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ اب اسرائیل کے خلاف یمن کی کارروائیوں میں اضافے کے بعد تل ابیب کے میڈیا میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ امریکہ، صیہونیوں کی مدد کے لئے صنعاء کے خلاف میدان میں آئے۔ صیہونی چاہتے ہیں کہ تل ابیب کے سفر پر آئے ہوئے امریکی وزیر دفاع "لوئیڈ آسٹن” کے دورے کو اس بیانیے سے ربط دے۔

گارڈین اخبار کے ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ لوئیڈ آسٹن کے اس دورے کا مقصد بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملوں کو روکنے کے لئے ایک ایسے اتحاد کی تشکیل ہے جس میں علاقائی عرب ممالک بھی شریک ہوں۔ دوسری جانب یمن کی مقاومتی تحریک "انصار الله” کی پولیٹیکل کونسل کے رکن "حزام الاسد” کا کہنا ہے کہ امریکی اتحاد یمن پر جنگ کی طرح زیادہ قدرتمند ثابت نہیں ہو گا بلکہ اس بار ہمیں بیشتر کامیابیاں ملیں گی۔ بلومبرگ نیوز نے کچھ ہی دیر قبل ایک امریکی اعلیٰ عہدیدار کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ وائٹ ہاوس، عمان اور دیگر ثالثوں کے ذریعے یمنیوں سے رابطے میں ہے۔ امریکہ، یمنیوں سے اسرائیل کے خلاف حملے روکنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button