مضامین

حضرت امام زین العابدین علیہ االسلام کا دربارِ یزید میں تاریخی خطبہ

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)آسمان امامت و ولایت کے چوتھے درخشاں ستارے فرزند رسول اور شیعیان جہان کے چوتھے امام حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے یوم شہادت کے موقع پر پورا عالم اسلام سوگوار و عزادار ہے،حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے یوم شہادت اور اہل حرم کی اسیری کی یاد میں پوری دنیا کے سبھی چھوٹے بڑے شہروں میں مجالس عزا اور نوحہ و ماتم کا سلسلہ جاری ہےاورذاکرین اہلبیت عصمت و طہارت سید الساجدین کے فضائل و مناقب بیان اور دین اسلام کی حفاظت میں ان کے عظیم الشان کارناموں کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔

امام زین العابدین کے یوم شہادت کی مناسبت سے مشہد مقدس میں لاکھوں کی تعداد میں زائرین اور سوگوار موجود ہیں جو بیمار کربلا کی مصیبتوں پر اشک عزا بہا رہے ہیں۔ایران کے مختلف شہروں سے مشہد پہنچنےوالی ماتمی انجمنیں منظم شکل میں نوحہ وماتم کرتی ہوئی حرم پہنچ کر امام رضاعلیہ السلام کو ان کے جد کا پرسہ دے رہی ہیں۔قم المقدسہ میں بھی سوگواروں اور زائرین کی بہت بڑی تعداد امام سجاد علیہ السلام کے یوم شہادت پر نوحہ و ماتم کرکے بی بی فاطمہ معصومہ قم سلام اللہ علیھا کے حضور اشکوں کا نذرانہ پیش کرکے انہیں پرسہ دے رہی ہے-

کربلائے معلی نجف اشرف اور کاظمین و سامرا میں بھی غم کی اس تاریخ کی مناسبت سے بڑی بڑی مجالس عزا اور نوحہ و ماتم کا سلسلہ جاری ہے جبکہ دنیا کے دیگرملکوں منجملہ افغانستان، پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں بھی آسمان امامت و ولایت کے چوتھے درخشاں ستارے فرزند رسول اور شیعیان جہان کے چوتھے امام حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کی مناسبت سے گریہ و نوحہ خوانی اور سینہ زنی ہو رہی ہے۔

پاکستان بھر میں یومِ شہادت حضرت امام سجاد علیہ السلام کے موقع پر مجالس و جلوس کا سلسلہ جاری ہے،حضرت امام زین العابدین علیہ السلام، 5 شعبان سن اڑتیس ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں اس دنیا میں تشریف لائے اور 25 محرم الحرام کو شہید ہوئے۔ ان کی قبر مطہر جنت البقیع سعودی عرب میں ہے جہاں آلِ سعود نے مومنین کے جانے پر پابندی عائد کررکھی ہے ۔

یوم عاشور کے بعد جب اسیران کربلا کا زنجیروں میں جکڑا قافلہ عورتوں اور بچوں کے ساتھ 13 سو میل کا پیدل سسفر کرکے ملک شام میں یزید کے دربار پہنچایا گیا تو اس موقع پر سر سے پاوں تک بیڑیوں میں جکڑے امام سجاد نے تاریخی خطبہ دیا جس نے یزیدی حکومت کی بنیادیں ہلادیں اور وہ یزید جو امام حسین عل؛یہ السلام کے متعلق غلط پروپیگنڈہ کرتے ہوئے انھیں شہید کرنے کے جواز ااپنے امراء کو بتارہا تھا امام کے خطبے نے اس کی سفاکی اور جھوٹ کا پردہ چاک کردیا، جب امام سجاد نے کچھ بولنا چاہاا تو یزید نے ااجازت نہ دی لیکن دربار میں موجود لوگوں کے اصرار پر یزید کو مجبور ہونا پڑا وہ سمجھ رہا تھا کہ طویل اور کٹھن پاپیادہ سفر سے آنے والا کیا بول سکے گا لیکن امام کے خطبے نے ایسا اثر دکھایا کہ یزید لعین بھرے دربار میں ذلیل و رسواء ہوا۔
امام زین العابدین نے دربارِ یزید مین جو خطبہ دیا اسے یہاں بیان کرنے سے قارئین کی معلومات کیلئے یہ بتادیں کہ واقعہ کربلا سن 61 ہجری کا ہے یعنی جنااب رسول خدا صلی االلہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیاا سے پردہ فرماانے کے 50 برس کاا، اس زمانے میں دور دراز تک پیغامات یا خبر پہنچانے کا واحد ذریعہ اونٹ یا گھوڑوں پر سوار قاصد ہوتے تھے جو ہفتوں مہینوں کا سفر کرکے منزل تک پہنچتے اور خبر پہنچاتے لیکن اس دوران خبر بھی بہت پرانی ہوچکی ہوتی تھی۔
وصالِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ایلِ بیت پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اوران 50 برسوں میں خانداانِ رسال کی فضیلت کو ہر طرح سے کم کیا گیا یہی وجہ ہے کہ 61 ہجری تک اکثر لوگوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ رسول اللہ کا کوئی خاندان باقی بھی بچا ہے اور ان کے اہلِ بیت اگر ہین تو کون ہیں۔۔؟؟ اسی وجہ سے دربارِ یزید میں جب امام نے خطبہ دیا اور اپنے خاندان کا تعارف کرایا تو لوگوں نے یزید پر لعن طعن کی کہ اے مردود تو نے خانوادہ رسول اللہ کو قتل کرادیا تجھ سے زیادہ بد بخت کوئی نہیں۔
دربارِ یزید میں امام زین االعابدین علیہ السلام کا خطبہ:
شروع اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے۔

لوگو! خدا نےہمیں چھ امتیازات اورسات فضیلتوں سے نوازا ہے؛ ہمارے چھ امتیازات علم، حلم، بخشش و سخاوت، فصاحت، شجاعت، اور مؤمنین کے دل :میں ودیعت کردہ محبت سے عبارت ہیں۔ ہماری سات فضیلتیں یہ ہیں کہ

خدا کے برگزیدہ پیغمبرحضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم سے ہیں۔
صدیق امیر المؤمنین علی بن ابی طالب ہم سے ہیں۔
جعفر طیار ہم سے ہیں۔
شیر خدا اور شیر رسول خدا حمزہ بن عبد المطلب سید الشہداء ہم سے ہیں۔
اس امت کے دو سبط حسن و حسین علیہ السلام ہم سے ہیں۔
زہرائے بتول سلام اللہ ہم سے ہیں اور
مہدی امت ہم سے ہیں۔
لوگو! اس مختصر تعارف کے بعد جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا میں اپنے خاندان اور آباء و اجداد کو متعارف کرواکر اپنا تعارف کراتا ہوں۔

لوگو! میں مکہ و مِنٰی کا بیٹا ہوں،
میں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں،
میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جس نے حجرالاسود کو اپنی عبا کے پلو سے اٹھاکر اپنے مقام پر نصب کیا،
میں بہترینِ عالِم کا بیٹا ہوں،
میں اس عظیم ہستی کا بیٹا ہوں جس نے احرام باندھا اور طواف کیا اورسعی بجا لائے،
میں بہترین طواف کرنے والوں اور بہترین لبیک کہنے والوں کا بیٹا ہوں؛
میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جو براق پر سوار ہوئے،
میں ان کا بیٹا ہوں جنہوں نے معراج کی شب مسجدالحرام سے مسجدالاقصٰی کی طرف سیر کی
میں اس ہستی کا بیٹا ہوں جن کو جبرائیل سدرۃ المنتہی تک لے گئے
میں ان کا بیٹا ہوں جو زیادہ قریب ہوئے اور زیادہ قریب ہوئے تو وہ تھے دو کمان یا اس سے کم تر کے فاصلے پر اور وہ پروردگار کے مقام قرب پر فائز ہوئے۔
میں ہوں اس والا صفات کا بیٹا جنہوں نے آسمان کے فرشتوں کے ہمراہ نماز ادا کی؛
میں ہوں بیٹا اس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جس کو خدائے بزرگ و برتر نے وحی بھیجی؛
میں محمد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور علی مرتضی (علیہ السلام) کا بیٹا ہوں۔
میں اس شخصیت کا بیٹا ہوں جس نے مشرکین اور اللہ کے نافرمانوں کی ناک خاک میں رگڑ لی حتی کہ کفار و مشرکین نے کلمہ توحید کا اقرار کیا؛
میں اس عظیم مجاہد کا بیٹا ہوں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سامنے اور آپ (ص) کے رکاب میں دو تلواروں اور دو نیزوں سے جہاد کیا اور دوبار ہجرت کی اور دوبار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ہاتھ پر بیعت کی؛ بدر وحنینمیں کفار کے خلاف شجاعانہ جہاد کیا اورلمحہ بھر کفر نہیں برتا؛

میں اس پیشوا کا بیٹا ہوں جو مؤمنین میں سب سے زيادہ نیک و صالح، انبیاء علیہم السلام کے وارث، ملحدین کا قلع قمع کرنے والے، مسلمانوں کے امیر، مجاہدوں کے روشن چراغ، عبادت کرنے والوں کی زینت، خوف خدا سے گریہ و بکاء کرنے والوں کے تاج، اور سب سے زیادہ صبر و استقامت کرنے والے اور آل یسین (یعنی آل محمد (ص)) میں سب زیادہ قیام و عبادت کرنے والے والے ہیں۔میرے داد (علی) وہ ہيں جن کو جبرائیل (ع) کی تائید و حمایت اور میکائیل (ع) کی مدد و نصرت حاصل ہے،

میں مسلمانوں کی ناموس کے محافظ و پاسدار کا بیٹا ہوں؛ وہی جو مارقین (جنگ نہروان میں دین سے خارج ہونے والے خوارج)، ناکثین (پیمان شکنوں اور اہل جمل) اور قاسطین (صفین میں امیرالمؤمنین (ع) کے خلاف صف آرا ہونے والے اہل ستم) کو ہلاک کرنے والے ہیں، جنہوں نے اپنے ناصبی دشمنوں کے خلاف جہاد کیا۔

میں تمام قریشیوں کی سب سے افضل اور برترو قابل فخر شخصیت کا بیٹا ہوں اور اولین مؤمن کا بیٹا ہوں جنہوں نے خدا اور رسول (ص) کی دعوت پر لبیک کہا اور سابقین میں سب سے اول، متجاوزین اور جارحین کو توڑ کر رکھنے والے اور مشرکین کو نیست و نابود کرنے والے تھے۔

میں اس شخصیت کا فرزند ہوں جو منافقین کے لئے اللہ کے پھینکے ہوئے تیر کی مانند، عبادت گذاروں کی زبان حکمت ، دین خدا کے حامی و یار و یاور، اللہ کے ولی امر(صاحب ولایت و خلافت)، حکمت الہیہ کا بوستان اور علوم الہیہ کے حامل تھے؛ وہ جوانمرد، سخی، حسین چہرے کے مالک، تمام نیکیوں اور اچھائیوں کے جامع، سید و سرور، پاک و طاہر، بزرگوار، ابطحی، اللہ کی مشیت پر بہت زیادہ راضی، دشواریوں میں پیش قدم، والا ہمت اور ارادہ کرکے ہدف کو بہرصورت حاصل کرنے والے، ہمیشہ روزہ رکھنے والے، ہر آلودگی سے پاک، بہت زیادہ نمازگزار اور بہت زیادہ قیام کرنے والے تھے؛ انھوں نے دشمنان اسلام کی کمر توڑ دی، اور کفر کی جماعتوں کا شیرازہ بکھیر دیا؛ سب سے زیادہ صاحب جرأت، سب سے زیادہ صاحب قوت و شجاعت ہیبت، کفار کے مقابلے میں خلل ناپذیر، شیر دلاور، جب جنگ کے دوران میں نیزے آپس میں ٹکراتے اورجب فریقین کی اگلیں صفیں قریب ہوجاتی تھیں وہ کفار کو چکی کی مانند پیس دیتے تھے اور آندھی کی مانند منتشر کردیتے تھے۔ وہ حجاز کے شیر اور عراق کے سید و آقا ہیں جو مکی و مدنی و خیفی و عقبی، بدری و احدی و شجر؛ اور مہاجری ہیں جو تمام میدانوں میں حاضر رہے اور وہ سیدالعرب ہیں، میدان جنگ کے شیر دلاور، اور دو مشعروں کے وارث (اس امت کے دو) سبطین "حسن و حسین (ع)” کے والد ہیں؛ ہاں! یہ میرے دادا علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

امام زین العابدین نے مزید فرمایا: میں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا بیٹا ہوں میں عالمین کی تمام خواتین کی سیدہ کا بیٹا ہوں۔

پس امام زین العابدین نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اس قدر "انا انا” فرمایا کہ حاضرین دھاڑیں مار مار اور فریادیں کرتے ہوئے رونے لگے اور یزید شدید خوف و ہراس کا شکار ہوا کہ کہیں لوگ اس کے خلاف بغاوت نہ کریں پس اس نے مؤذن کو حکم دیا کہ اذان دے اور اس طرح اس نے امام (ع) کا کلام قطع کردیا۔

مؤذن نے کہا:

الله أكبر الله أكبر

امام زین العابدین نے فرمایا: خدا سب سے بڑا ہے اور کوئی چیز بھی اس سے بڑی نہیں ہے۔

مؤذن نے کہا:

أشهد أن لاإله إلا الله

امام زین العابدین نے فرمایا: میرے بال، میری جلد، میرا گوشت اور میرا خون سب اللہ کی وحدانیت پر گواہی دیتے ہیں۔

مؤذن نے کہا: أشهد أن محمدا رسول الله

امام زین العابدین نے سر سے عمامہ اتارا اور مؤذن سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے مؤذن! تمہیں اسی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا واسطہ، یہیں رک جاؤ لمحہ بھ، تا کہ میں ایک بات کہہ دوں؛ اور پھرمنبر کے اوپرسے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان سےمخاطب ہوئے اور فرمایا:
اے یزید! کیا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے نانا ہیں یا تمہارے؟ اگر کہو گے کہ تمہارے نانا ہیں تو جھوٹ بولوگےاورکافر ہوجاؤ گےاوراگر سمجھتے ہوکہ آپ (ص) میرے نانا ہیں تو بتاؤ کہ تم نے ان کی عترت اور خاندان کو قتل کیوں کیا اور تم نے میرے والد کو قتل کیا اور ان کے اور میرے خاندان کو اسیر کیوں کیا؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button