*استاد محترم… یوٹرنز کے بادشاہ*
*ڈرامے کا پہلا منظر*
عزیزان گرامی ایک دفعہ کا ذکر ہے جب استاد محترم اس ملت سے بڑے جوشیلے انداز میں تقریر کر رہے تھے (اس وقت طاہر القادری کینیڈا سے پاکستان واپس آیا تھا) یہ صاحب زنج جو تیرے ملک میں آئے ہیں تجھے زنجي، زنجباری اور غافل سمجھنے والے یہ شیخ الاسلام جو کینیڈا سے آے ہیں آ کر سامري کو گوسالہ بنا کر، جمہوریت کو بچھڑا بنا کر امت کو اسلام آباد لے چلے ہیں،
یہ کیسا اسلام ہے کہ تو رسول کو ہی بھول گیا، یہ صاحبان زنگ ہیں لیکن یہ ملت ہوشیار ہے اور کوئی ہوشیار ہو نہ ہو کربلائی ہوشیار ہیں تم نے زنجي نہیں بننا……
*ڈرامے کا دوسرا منظر*
استاد محترم کی اسی کینڈا والے شیخ الاسلام کے مینار پاکستان پر ہونے والے پروگرام میں شرکت لیکن اس دفعہ بیان کچھ اس طرح ہے.
حضور ﷺ کی آمد سے امت کو امراض سے نجات ملی۔ آپ ایسے طبیب ہیں، جنہوں نے تمام بدنی و روحانی بیماریوں کی اصلاح کی۔ آج الحمدللہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بھی ایک ایسے طبیب ہیں، جنہوں نے جب بھی امت میں کوئی نئی بیماری آئی تو فورا ایک مرہم تیار کر کے رکھا ہے۔
آج سیاست اور مذہب کے نام پر جو فتنے پھیلائے جا رہے ہیں، اس کا شیخ الاسلام نے علاج دریافت کیا ہے۔
*ڈرامے کا تیسرا منظر*
جیالے خوشی سے پاگل ہو رہے ہیں کہ استاد محترم نے اہل سنت کے بڑے اجتماع میں نہج البلاغہ سے أمير المؤمنين کا کلام پڑھا ہے، یہ پہلے شیعہ عالم ہیں جنہیں یہ اعزاز نصیب ہوا، استاد محترم جیسا کوئی دوسرا عالم ہے تو ہمیں دکھاؤ..
*پس پردہ حقائق*
عربی میں تو کہا جاتا ہے بائک تجر و بائی لا تجر لیکن اپنی ملت کے عام افراد کو سمجھانے کے لیے اردو ضرب المثل پیش کر دیتا ہوں کہ تیرا کتا کتا ہے اور میرا کتا ٹومی….
جی عزیزان گرامی کل اسی شیخ الاسلام کے ساتھ جب کچھ دوسرے شیعہ علماء دکھائی دئے اور وہ بھی ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے میں تو اسی استاد محترم نے نہ تو ان شیعہ علماء کا کوئی لحاظ رکھا اور نہ اس شیخ الاسلام کا… کل طاہر القادری گوسالہ پرست اسلام آباد میں مداری و تماشا لگانے والا تھا آج یہ ہی رسول خدا کیطرح جسمانی و روحانی امراض کا طبیب بن گیا بلکہ آخر میں تو طبیب دوار بطبہ کہہ دیا (لا حول ولا قوۃ الا باللہ) ، کل استاد محترم کہہ رہے تھے کہ اسکی باتوں میں نہیں آنا کربلایی ہوشیار ہوتا ہے وہ زنجي نہیں بنتا صاحب زنج کے سامنے آج اسی صاحب زنج کے مہمان خصوصی قرار پائے کل جو دوسروں کو ہوشیار رہنے کا کہہ رہے تھے آج اپنی ہوشیاری کھو بیٹھے، کل جو قوم کے سامنے طاہر القادری کو ڈرامے باز کے طور پر پیش کر رہے تھے آج اسے رسول خدا کیطرح طبیب قرار دے رہے ہیں….
عزیزان گرامی کل استاد عمران خان پر طنز کر رہے تھے کہ وہ یو ٹرن لیتا رہتا ہے آج استاد عمران خان سے بڑے یو ٹرن لے رہے ہیں…
ان یو ٹرنز کی بہت سی مثالیں ہیں کچھ اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر دیتا ہوں…
1. *کل استاد انتخابات میں شرکت کو ربوبیت کا انکار قرار دے رہے تھے* ابھی کچھ عرصہ پہلے کہا کہ اگر کوئی فائدہ ملے تو شرکت کر لیں.
2.*کل استاد مدارس کو خانقاہیں اور ان سے نکل کر ملت کے لیے کام* کی نصیحت کرتے تھے آج استاد ایک بہت بڑا مدرسہ بنا کر اسے مرکز انقلاب قرار دے رہے ہیں.
*کل استاد شہید حسینی کی برسی پر لوگوں کو بسوں پر بلا کر جمع* کرنے کی ملامت کرتے تھے کہ کرائے کی بسوں پر لوگ جمع کر کے پروگرام کرنا کوئی بہادری کا کام نہیں آج استاد پورے پاکستان تو کیا دنیا سے لوگوں کو بائی ایئر ٹکٹس اور لاکھوں کے ہدیے دیکر اپنی چاردیواری میں پروگرامز کرتے ہیں.
3 *کل استاد ملکی مسائل اور شیعہ قوم کی قتل و غارت کے* احتجاجات میں شرکت کو نفس کی ذلت اور تحقیر قرار دے رہے تھے آج ٹرانسجینڈر ایکٹ پر جماعت اسلامی کی سرپرستی میں شرکت کو انسانی حمیت قرار دے رہے ہیں.
4.*کل استاد ولی فقیہ کو نہ ماننے والے کے اعمال حبط کروا رہے تھے* آج استاد ولی فقیہ کے مختلف بیانات کی صراحت کے ساتھ مخالفت کر رہے ہیں. ولی فقیہ آج بھی اسرائیل کے مقابلے میں ایران کو قدرتمند کہتا ہے جب کہ استاد کی نظر میں ایران اب دفاعی پوزیشن میں ہے، ولی فقیہ کی ولایت میں فقہا کو اپنے مختلف فتاوی دینے کی اجازت ہے جبکہ استاد خلیفہ ثانی کے منع حدیث والے اقدام کو سراہ رہے ہیں، رہبر کبیر و بانی انقلاب رویت ہلال کے مسئلے میں عین مجردہ کے قائل ہیں جبکہ استاد اپنے آپ کو انہی کا فرزند کہلوا کر کہ رہا ہے کہ عین مجردہ کے قائلین دنیا میں سو سال بعد آئے ہیں.
5.*کل تک استاد شیعہ قوم کو انقلاب کی تیاری کرواتے رہے* آج کہہ رہے ہیں کہ چونکہ پاکستان میں حکومت اسلامی قائم نہیں ہو سکتی لہذا فوجی جمہوریت بہترین اختیار ہے.
عزیزان گرامی مثالیں تو دسیوں مل جائیں گی لیکن جس نے سمجھنا ہے وہ ایک مثال سے بھی سمجھ جاتا ہے اور جس نے نہیں سمجھنا اسکے سامنے جتنی بھی مثالیں دی جائیں کم ہیں کیونکہ جب دل کسی کی محبت کا گرویدہ اس حد تک ہو جائے کہ اسے ہر سو اپنا محبوب ہی دکھائی دے تو پھر انسان سمجھنے سے قاصر ہو جاتا ہے….
بس آخر میں میری شیعہ قوم سے التماس ہے خصوصاً اپنے جذباتی نوجوانوں سے جو استاد محترم کو آخری حرف سمجھتے ہیں کہ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور استاد کی اگلی پچھلی باتوں کی جانچ پڑتال کریں کہ کیسے اس نے ملت کے ایک طبقہ کو کچھ حسین خواب دکھا کر اپنے مخلص علماء سے دور کیا ہے اور ملت تشیع میں ایک فکری عقیدتی اور سیاسی دراڑ ڈالی ہے…
*طباطبایی*