دنیا

الکرامہ آپریشن نے اسرائیل کو کیسے ہلا کر رکھ دیا؟ عرب دنیا کے اخبارات کی شہ سرخیاں

شیعہ نیوز: حزب اللہ کے حالیہ الکرامہ آپریشن کے بعد صیہونی حکومت کی 8200 یونٹ کے کمانڈر کے انجام کی غیر یقینی صورت حال کے ساتھ اردنی شہری کے صیہونیت مخالف آپریشن کی وجوہات عرب اخبارات کی توجہ کا مرکز بنی ہیں۔

الکرامہ کراسنگ ( ملک حسین پل) پر صیہونی سکیورٹی عناصر کے خلاف اردن کے ایک شہری کی بے ساختہ کارروائی کے بعد اس ملک کے عوام میں خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ تاہم عرب میڈیا اس آپریشن کی اہمیت اور جہتوں پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔

روزنامہ القدس العربی نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے: اردنی شہری کا آپریشن جو آپریشن الکرامہ کے نام سے جانا جاتا ہے، کئی لحاظ سے اہم ہے۔ یہ کارروائی صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف اردنی عوام کے دھماکہ خیز غصے کو ظاہر کرتی ہے۔

اردن کی فلسطینی اراضی کے ساتھ طویل ترین سرحدی پٹی ہے اور صہیونی عناصر کے خلاف اس طرح کی بے ساختہ کاروائیاں دوبارہ دہرائی جا سکتی ہیں۔ اس آپریشن پر اردنی عوام کا ردعمل جشن کی شکل میں تھا کہ تمام گلیوں میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں : غزہ میں اقوامِ متحدہ کے رضاکاروں کی ہلاکتوں پر احتساب نہ ہونا ناقابلِ قبول ہے، انتونیو گوتریس

آپریشن الکرامہ کے کردار کہ جسے ہیرو کہا جاتا ہے، نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ صیہونی رجیم اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔

اخبار رائ الیوم نے صیہونی حکومت کے بارے میں لکھا ہے: یونٹ 8200 صیہونی حکومت کے جاسوسی نظام کی تلوار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لیکن تل ابیب اس آپریشن کے کمانڈر کے انجام کے بارے میں دانستہ خاموشی اختیار کر رہا ہے۔

حزب اللہ کی اہم کارروائی کے بعد اس یونٹ کے کمانڈر اور مصنوعی ذہانت کے انجینئر یوسی سرییل کے انجام بارے میڈیا میں کوئی اطلاع شائع نہیں ہوئی ہے اور یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اسے مارا گیا یا برطرف کیا گیا۔

اس آدمی نےدو بڑے حفاظتی نقائص دکھائے۔ اول، وہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہا، اور دوسرا، اس نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کے حوالے سے سکیورٹی پروٹوکول کی خلاف ورزی کی اور طوفان الاقصی آپریشن کے آغاز کے چھ ماہ بعد سوشل میڈیا میں اپنی اصل شناخت ظاہر کی۔

یوسی کو واقعی کیا ہوا؟ اگر حزب اللہ اسے اپنے ڈرون حملوں سے قتل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی تو اس کا اعلان کیوں نہیں کیا جاتا؟ ممکن ہے کہ اسے مزاحمتی قوتوں نے نہیں بلکہ خود صیہونی حکومت نے قتل کیا ہو تاکہ اس حکومت کی جاسوسی کے تمام راز اس کے ساتھ دفن ہو جائیں، یا یہ کہ اسے کسی جعلی جگہ پر چھپا دیا گیا ہو۔ اس طرح وہ عملی طور پر منظر نامے سے ہٹا دیے گئے ہیں.

لبنانی روزنامہ الاخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے: لبنان کے ساتھ کسی بھی کشیدگی کا سامنا کرنے کے لیے صیہونی حکومت اور امریکہ کی زمینی کارروائی جاری ہے۔

حال ہی میں امریکی مرکزی افواج کے کمانڈر نے مقبوضہ علاقوں کا دورہ کیا اور حزب اللہ کے ساتھ تنازعات اور شمالی محاذ میں بڑے پیمانے پر جنگ کے امکان کی تیاری کے سلسلے میں صیہونی حکومت کے حکام سے مشاورت کی۔

ادھر لبنان کی حزب اللہ مظلوم فلسطینی عوام اور اس علاقے میں مزاحمتی فورسز کی حمایت کے لیے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور اپنے ڈرون اور میزائل حملوں سے صیہونی فوج کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتی ہے۔

شام کے اخبار الثورۃ نے بھی رپورٹ دی ہے: گزشتہ سال 7 اکتوبر سے غزہ کی پٹی میں تقریباً 20 لاکھ فلسطینی جنگ کی آگ میں جل رہے ہیں اور بے گھر ہونے کے ساتھ قحط اور بھوک کی لپیٹ میں ہیں۔ غزہ کی پٹی کے لاکھوں باشندوں بشمول خواتین، بچوں اور بوڑھوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔

متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ اور طبی خدمات کے فقدان کے باعث اس پٹی کے باشندوں کی حالت محاصرے اور خوراک کی کمی کی وجہ سے ابتر ہو گئی ہے۔ جب کہ صہیونی طویل عرصے تک غزہ کی پٹی کے باشندوں کے خلاف قحط اور فاقہ کشی کی جنگ جاری رکھنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

شام کے روزنامہ الوطن نے الکرامہ آپریشن کے بارے میں لکھا ہے: "یہ کہ صہیونی دشمن کو ایسی جگہ پر آپریشن کا سامنا ہے جس کے بارے میں اس نے سوچا بھی نہیں تھا، بذات خود ایک چیلینج ہے” یہاں تک کہ نیتن یاہو، جو روزانہ غزہ میں بڑی تعداد میں صیہونی فوجیوں کی ہلاکت اور ان کے ساز و سامان کی تباہی کی خبریں سنتے ہیں، نے بھی اس آپریشن کی خبر سن کر کہا کہ ان کے سامنے ایک مشکل دن ہے جو ان تین صیہونیوں کی وجہ سے نہیں جو ہلاک ہوئے، بلکہ اردن کی طرف سے اس حکومت کو زبردست دھچکے کی وجہ سے۔ کیونکہ ایک اردن ہی بچا تھا جس سے تل ابیب کو خطرہ نہیں تھا کیونکہ وہ محفوظ تھا۔

اس پٹی پر حملے کے آغاز کو تقریباً ایک سال گزر جانے کے بعد اس طرح کی کارروائیوں سے غزہ کی پٹی میں مزاحمتی فورسز کے حوصلے مضبوط ہوئے ہیں۔ یہ آپریشن صیہونی حکومت کے خلاف حملوں کی ایک نئی لہر کا آغاز اور خطے اور دنیا میں اس رجیم کے خلاف ایک نئے محاذ کے آغاز کا سبب بن سکتا ہے۔

روزنامہ المراقب العراقی نے لکھا ہے: جب کہ صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف فلسطینی قوم کی بین الاقوامی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے، بعض اسرائیل نواز عرب ذرائع ابلاغ اس رجحان کی مخالفت کرتے ہوئے تل ابیب کی حمایت کر رہے ہیں۔

اس سلسلے میں غزہ کی حکومت کے انفارمیشن آفس نے اس پٹی میں نسل کشی کے حوالے سے (سعودی چینلز) العربیہ اور الحدث کی غیر پیشہ وارانہ کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا۔ مذکورہ دونوں چینلز اپنے نشر کردہ تجزیوں، رپورٹوں اور انٹرویوز کو استعمال کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کے حوالے سے صیہونی رجیم کے جھوٹے بیانات کی حمایت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”

یمنی اخبار المسیرہ نے اردنی شہری کے آپریشن کے بارے میں لکھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ اس نے سب سے اچھا کام کیا تھا؟ کہ وہ شہید ہو گیا۔ کیونکہ اگر وہ بچ جاتا تو اسے اردن کی عدالت کم از کم 15 سال قید کی سزا سناتی! اس سلسلے میں اردن کی ایک طویل اور شرمناک تاریخ ہے۔ کیونکہ 10 سے زائد صیہونیوں کو قتل کرنے والے احمد الدقامسہ کو بالآخر قید کی سزا سنادی گئی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button