سید جواد نقوی کا حکومت کو چیلنج کس قدر سنجیدہ ہے؟
رھبر معظم انقلاب نے ایران کو کرونا کی آفت سے بچانے کے لیے ماہرین کی کمیٹی کے ذریعے ساری مدیریت کی ہے جو کام باقی حکومتیں بھی کر رہی ہیں اور لاک ڈاؤن اس ماہرین کی کمیٹی ہی کا ایک تجویز کردہ طریقہ کار ہے جو دنیا میں کئی جگہ اپنایا گیا ہے بلکہ چین نے تو اس کے ذریعے کامیابی بھی حاصل کی۔
سید جواد نقوی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بغیر لاک ڈاؤن اور معیشت کا پہیہ روکے اس سارے نظام کو ٹھیک کر کے دے سکتے ہیں اگر حکومت انکو دے دی جائے۔ اس طرح کے دعوے بہت نقصان دہ ہیں کیونکہ ان دعوؤں سے منبر کا مذاق بنتا ہے
ہم استاد محترم کے وقار کی خاطر انکو تذکر دینا چاہتے ہیں کہ ایسی تقریروں سے اجتناب کریں۔ ریاست چلانی اور منبروں سے بیٹھ کر خیالی منصوبے بنانے میں بہت فرق ہے ۔۔۔ اگے حکومتوں و اداروں میں کوئی شیرخوار تھوڑی بیٹھے ہیں۔
چلیے سیاستدان نالائق ہوں گے مگر ریاستی ادارے جیسے پوری نیشنل ڈیزاسٹرز مینجمنٹ اتھارٹی ہے، نیشنل سیکیورٹی کونسل، کویڈ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر ہے، پی ایم اے ہے، ڈاکٹر و ماہرین کی تنظیمیں و ادارے ہیں جو انٹرنشنل باڈیز سے منسلک ہیں کیا یہ سب نکمے و نالائق ہیں اور ان سب کے پاس سب میدانی تجربہ و مہارت و سائنسز کا علم ہونے وہ کچھ نہیں جو استاد محترم کے پاس ہے کہ وہ آئیں گے اور سب ٹھیک کر دیں گے !!؟
اس دعوے اور ضمیر اختر کے دعوے میں کہ کرونا کا علاج میرے پاس ہے جو میں نہیں بتاؤں گا، میں کوئی فرق نہیں ہے
جو بیٹھے ہیں وہ کہیں گے بھائی ذرا اپنا فیزیبیلٹی پروپوزل اور پی سی ون بنا کر لے آؤ۔ ساری بجٹنگ اور امپلیمینٹیشن پلانز بھی تیار کر لو
آگے ٹیکنوکریٹس بیٹھے ہیں، ماہرین و ڈاکٹرز بیٹھے ہیں۔ استاد محترم خالی پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کو ہی ایک پریزنٹیشن دے کر اپنی طرف کنونس کر لیں تو بہت بڑے بات ہو گی۔
وہ پی ایم اے کے ماہرین پیںڈیمک سے متعلق سوالوں کی ایسی بوچھاڑ کریں گے کہ دن میں تارے نظر آئیں گے
دین کی مدیریت میں پینڈیمک سے نپٹنے کی ماہرانہ ٹیکنیکس کا اضافہ کب سے ہوا ہے، ہمیں نہیں معلوم!!!!
دینی مدیریت ایک جنرل اصول ہے کہ جس میں جدید وسائل کو قبول کرنا، اہل افراد کو میدان دینا اور ماہرین کے مطابق فیصلے کی قوت کو استعمال میں لانا ہوتا ہے اور بروقت مناسب اقدام کرنا جو مبنی بر مشاورت ہوتا ہے جو کام رھبر معظم نے کیا ہے۔ یہ غلط ہے کہ رھبر نے کسی کیمٹی سے مشورہ نہیں کیا اور بطور حاکم شرع خود سے جو چاہا فیصلہ کر لیا۔۔ نہیں بلکہ رھبر نے ماہرین و ڈاکٹرز کی کمیٹی سے ملاقات کر کے ان سے مشورہ کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ سارا انتظام یہ ماہرین سنبھالیں گے، فوج، مجریہ، عدلیہ و مقننہ اس کمیٹی کے تابع ہو گی۔۔۔ یہ مدیریت ہے بس ۔
بروقت سخت فیصلہ ہی اسلامی مدیریت ہے اور اس اسلامی مدیریت میں ون مین شو کی کوئی گنجائش نہیں
مزید یہ کہ دین کسی پینڈیمک سے نپٹنے کی خصوصی ٹیکنیکس و مدیریت اپنے دامن میں لیے ہوئے نہیں ہے یہ چھچھڑوں کے خواب ہیں۔ اس طرح کی باتیں مضحکہ خیز ہوتی ہیں آپ نے بھی آنے کے بعد انتظام ٹیکنوکریٹس کے حوالے ہی کرنا ہے جو کام ابھی بھی حکومت وقت کر رہی ہے۔
اسلامی رھبریت صرف اس مدیریت کو اغیار اور دشمنوں کے ہاتھ میں نہیں جانے دیتی اس سے زیادہ کے دعوے نہ وہ کرتی ہے اور نہ یہ اس کے بس کی بات ہے ۔ یہ کریز سے نکل کر کھیلنا ہے جو مذاق کہلاتا ہے