ہم نے امریکی صدر کے دفتر کی جاسوسی نہیں کی۔ اسرائیل
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) امریکہ اور اسرائیل کوایک دوسرے کا گہرا دوست قرار دیا جاتا ہے مگر دونوں ملک ایک دوسرے کی جاسوسی کے بھی مرتکب پائے جاتے ہیں۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس خبر کی پرزور تردید کی ہے کہ ان کا ملک امریکہ کی جاسوسی کر رہا تھا۔
خبر رساں ادارے ’پولیٹیکو‘ نے تین سابق اعلیٰ امریکی اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی کہ وائٹ ہاؤس کے قریب ملنے والے جاسوسی کے آلات کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
تاہم اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق یہ ’بالکل جھوٹ ہے۔‘
بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی حکومت کی ایک پرانی اور واضح پالیسی ہے کہ امریکہ کے اندر کسی قسم کی جاسوسی کی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ بی بی سی نے امریکی وزارت خارجہ سے ان کے رد عمل کے لیے رابطہ کیا ہے۔
اسرائیل میں انتخابات میں چند ہی روز رہ گئے ہیں اور ملک کے وزیر اعظم کو اس میں سخت مقابلے کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں کیا الزام عائد کیا گیا ہے؟
پولیٹیکو میں جمعرات کو ایک خصوصی خبر میں مذکورہ الزام لگایا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق ’آئی ایم ایس آئی‘ جنہیں ’سٹنگ ریز‘ بھی کہا جاتا ہے امریکی صدر کی رہائش گاہ اور واشنگٹن ڈی سی کے کچھ اور حساس مقامات کے قریب پائے گئے تھے۔
یہ آلات موبائل فون سے ان کی موجودگی کا مقام، شناخت اور ڈیٹا کے استعمال کے بارے میں معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔
ایک سابق اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ویب سائٹ ’پولیٹیکو‘ کو بتایا کہ ’سٹنگ ریز‘ کا ممکنہ طور پر مقصد صدر ٹرمپ کی جاسوسی کرنا تھا۔ انہوں ے کہا یہ معلوم نہیں کہ ایسا کرنے والے اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے یا نہیں۔
ایک سابق اعلیٰ انٹیلیجنس افسر نے پولیٹیکو کو بتایا کہ ایف بی آئی نے معلوم کرنے کے لیے تجزیہ کیا کہ یہ آلات کہاں سے آئے ہیں ’اور یہ بالکل واضح تھا کہ اسرائیل اس کا ذمہ دار ہے۔‘
اسی اہلکار نے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ پر تنقید بھی کی کہ انہوں نے کھلے عام اور نہ ہی اندرونی طور اسرائیلی حکومت سے اس کے بارے میں بات کی۔
اس سابق اہلکار نے کہا کہ ’میں کسی احتسابی کارروائی کے بارے میں لا علم ہوں۔‘
بنیامین نیتن یاہو کی تردید اپنی جگہ، لیکن اسرائیل ماضی میں امریکہ کی جاسوسی کر چکا ہے۔
ایک موساد ایجنٹ نے 1980 کی دہائی میں ایک امریکی تجزیہ کار جوناتھن پولارڈ کے ذریعے ہزاروں خفیہ دستاویزات اسرائیل تک پہنچائی تھیں۔
سن 2006 میں امریکی محکمۂ دفاع کے ایک سابق ملازم لارنس فرینکلن کو ایران کے بارے میں امریکی پالیسی کی دستاویزات اسرائیل کو دینے کے لیے 13 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہ سزا بعد میں کم ہو کر 10 ماہ کی نظر بندی میں تبدیل ہو گئی تھی۔