دنیا

نیتن یاھو کو اس کے جنگی جرائم میں بچانے کی کوشش، بیلجیئم کے وزیر اعظم پر انسانی حقوق کے حلقوں کی کڑی تنقید

شیعہ نیوز: بیلجیئم کے وزیر اعظم بارٹ ڈی ویور کے بیانات پر بیلجیئم کی متعدد سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ یہ تنقید اس وقت شروع کی گئی جب انہوں نے اعلان کیا کہ اگر اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو بیلجیئم کا دورہ کریں گے تو انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور منظم جنگی جرائم کے ارتکاب کی وجہ سے نیتن یاھو کے عالمی ریڈ وارنٹ جاری ہوچکے ہیں مگر کئی ممالک جو عالمی فوج داری عدالت کے رکن ہیں اور اس کے فیصلوں کے پابند ہیں مگر وہ صہیونی لابی کے دباؤ کی وجہ سے نیتن یاھو اور اس کے دوسرے ساتھی مجرموں پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہیں۔

بیلجیئم کی لیبر پارٹی نے ڈی ویور کے موقف کو بیلجیئم کی قانونی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو کمزور کرنے کے مترادف قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان بیانات کے مضمرات پر بحث کے لیے پارلیمنٹ کا فوری اجلاس طلب کیا جائے گا۔ ان بیانات کو اکثریت اور حزب اختلاف دونوں جماعتوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں بیلجیئم کی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کے اشارے کے طور پر دیکھا گیا۔

یہ بھی پڑھیں : تل ابیب میں فوجی مراکز پر یمنی فوج کا بڑا ڈرون حملہ

بیلجیئم کے وزیر اعظم بارٹ ڈی ویور نے واضح کیا ہے کہ اگر اسرائیلی رہنما بینجمن نیتن یاہو بیلجیئم میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔

پریس بیانات میں مراکشی نژاد بیلجیئم کے رکن پارلیمنٹ نبیل بوکیلے نے کہاکہ "وزیراعظم کے بیانات فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم اور اس حوالے سے بیلجیم کی ذمہ داریوں کی حقیقت سے پوری طرح متصادم ہیں۔ یہ بیانات غزہ میں ہونے والی نسل کشی کی سنگینی کو نظر انداز کرتے ہیں”۔

البوکیلے نے سوال کیا کہ "ایک ملک جو بین الاقوامی قانون کا احترام کرنے کا دعویٰ کرتا ہے وہ ایسے شخص کا کیسے استقبال کرسکتا ہےجس کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت نے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہوں؟”

البوکیلے نے زور دے کر کہا کہ یہ بیان بیلجیم کی قانونی ذمہ داریوں کی صریح خلاف ورزی کی نمائندگی کرتا ہے اور قابض اسرائیل کے ساتھ سیاسی مداخلت کو ظاہر کرتا ہے۔

قدس پریس کے مطابق انہوں نے مزید کہا، "یہ موقف ظاہر کرتا ہے کہ بیلجیئم کی حکومت اور خاص طور پر نیو فلیمش الائنس پارٹی واضح طور پر قابض اسرائیلی دشمن کے ساتھ جو فلسطین میں نسل کشی کا ذمہ دار ہے”۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ بیانات انسانی حقوق کے اصولوں سے متصادم اور بین الاقوامی قانون کے مسائل سے نمٹنے میں دوہرے معیار کو ظاہر کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ "جب یوکرین یا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بات آتی ہے تو ہم سخت موقف دیکھتے ہیں، لیکن جب بات فلسطین کی ہو تو بیلجیئم کی حکومت بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلوں کو نظر انداز کرتی ہے”۔

بوکیلے نے نشاندہی کی کہ بیلجیئم اور یورپی یونین اس تنازعے کے غیر جانبدار فریق نہیں ہیں، بلکہ اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی شراکت داری کے معاہدوں کے پابند ہیں جو انہیں اسرائیلی جنگی کوششوں کا موثر حامی بناتے ہیں۔

انہوں نے کہ اکہ”یورپی یونین اسرائیلی ریاست کا ایک بڑا اقتصادی شراکت دار ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ براہ راست مالی طور پر فلسطینیوں کی نسل کشی ملوث ہے، چاہے تجارت ہو یا ہتھیاروں کی برآمدات کے ذریعے ہو”۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button