حسینؑ، کربلا کا مدبر اور مفکر قائد
شیعہ نیوز:حسینؑ ایک عظیم انسان اور بے نظیر شخصیت کا نام ہے۔ ایسا زندہ کردار جس نے تاریخ کو ہر موڑ پر ششدر رکھا۔ آج بھی حسینؑ کا نام نامی زندہ و پایندہ ہے کیونکہ حسینؑ کا مقصد آفاقی تھا۔ کربلا کو چودہ سو سال گزر گئے، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ واقعہ معاصر عہد میں رونما ہوا ہے۔ اس کی تازگی کبھی پھیکی نہیں پڑتی، کیونکہ حسینؑ نے کربلا کو ابدیت اور دوام بخشا ہے۔ لیکن آیا کبھی ہم نے غور کیا کہ کربلا کو دوام کیسے حاصل ہوا؟ آیا فقط حسینؑ اور ان کے انصار و اعزہ کی پیاس نے کربلا کو ابدی زندگی بخشی ہے؟ یا پھر آفاقی ہدف، بے لوث ایثار اور یادگار قربانیوں کی بنا پر کربلا زندہ ہے۔ ایک ایسا لشکر جس میں مختلف قبیلوں، گروہوں اور الگ الگ نظریات کے افراد شامل تھے۔
امام حسینؑ کے عزم و کردار نے ان میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ سب ایک رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں، نہ کوئی اختلاف نہ انتشار۔ سب حسینؑ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اتحاد کا بے مثل نمونہ معلوم ہوتے ہیں۔ کربلا کی تاریخ میں ایک واقعہ ایسا نظر نہیں آتا کہ کسی نے اپنے امام کی حکم عدولی کی ہو یا ان کے حکم پر جان قربان کرنے میں ذرا بھی تامل سے کام لیا ہو۔ ہر ایک دوسرے پر جان دینے میں سبقت کا مشتاق تھا۔ گویا موت ان کے لئے حیات ابدی اور جاوداں تحفہ کی مانند تھی۔ ایسا صرف اس لئے ممکن ہوا، کیونکہ سب کو اپنے قائد اور رہبر پر یقین کامل تھا۔ آیا آج ہمارے درمیان کوئی حسینؑ جیسا قائد اور رہبر موجود ہے، جس کے ایک اشارے پر ہم اپنی جان قربان کرسکتے ہیں۔؟
واقعیت یہ ہے کہ کربلا کو ہم نے صرف پڑھا اور سنا ہے، سمجھا نہیں ہے۔ حسینؑ اور ان کے اصحاب و اعزہ کی پیاس اور مظلومیت پر گریہ کیا ہے، مگر ان کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بغیر شعور کے سینہ زنی کی ہے، لیکن کبھی کربلا کے آفاقی واقعہ سے درس عبرت لینے کی فکر نہیں کی۔ ایک ایسا واقعہ جو اپنی قیادت اور رہبریت پر ٹکا ہوا ہے۔ کسی انسان کا قتل کر دینا آسان ہے، لیکن کسی کو حق کی حمایت میں جاں نثاری کے لئے آمادہ کرنا آسان نہیں ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسینؑ نے کسی بھی موقع پر عوام الناس کو اپنی حمایت کے لئے مجبور نہیں کیا۔لشکر کشی کا کوئی اہتمام نظر نہیں آتا۔ البتہ لوگوں کو اپنے مقصد اور افکار سے ضرور آگاہ کیا، جس کی اس معاشرے کو بے حد ضرورت تھی۔
انہی فکر اساس اور بامقصد خطبوں کی بدولت امام حسینؑ کے گرد ایسے جاں نثار جمع ہوئے، جن کے کردار اور ایثار نے تاریخ عالم کو حیران کر دیا۔ اس سے پہلے کسی جنگ میں ہمیں ایسے جاں باز نہیں ملتے، جو جذبۂ شہادت سے اس قدر سرشار ہوں کہ موت کو شہد سے زیادہ شیریں تعبیر کرتے ہوں یا پھر کسی جوان کی شہادت کے بعد اس کی ماں گریبان ِصبر و تحمل چاک کرنے کے بجائے خالق کی بارگاہ میں کہتی ہوئی نظر آئے ’’معبود میری قربانی کو قبول فرما!‘‘ قابل غور امر یہ ہے کہ امام حسینؑ نے اپنے اہداف کو مخفی نہیں رکھا۔ مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا تک کے سفر میں جگہ جگہ آپ نے اپنے موقف کی وضاحت کی۔
بعض وہ افراد جو قیام امام حسینؑ کو مشتبہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے، ان کے منصوبوں پر امام ؑ نے اپنی حکمت عملی سے پانی پھیر دیا اور فرمایا ’’اني لم اخرج اشرا و لا بطـرا و لا مفسدا و لا ظالما و انما خرجت لطلب الاصلاح في امة جدي (ص) اريد ان امر بالمعروف و انهي عن المنكر و اسير بسيرة جدي و ابي علي ابن ابي طالب (ع). فمن قبلني بقبول الحق فاللّه اولى بالحق و من رد علي هذا اصبر حتى يقضي اللّه بيني و بين القوم بالحق و هو خير الحاكمين۔‘‘ آج تک امام حسینؑ کا یہ جملہ ان تمام پروپیگنڈوں کو باطل کرتا آرہا ہے، جو امام عالی مقامؑ کے قیام کو بدنام اور مشکوک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح امامؑ نے اپنے اصحاب، انصار اور اعزہ و اقارب کو بھی اندھیرے میں نہیں رکھا۔ ان کے لئے ہر موقع پر حجت تمام کی، تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اصحاب حسینؑ فقط محبت حسینؑ میں شہید ہوگئے۔
حتیٰ کہ جس رات آپ نے چراغ گل کرکے اپنے اصحاب و انصار اور اقرباء کو میدان کربلا سے چلے جانے کے لئے کہا، اس رات بھی آپ نے پوری طرح اپنے مقصد اور شہادت کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا۔ امام کی طرف سے چاہنے والوں کی آزمائش کا یہ آخری موقع تھا۔ اس کے بعد میدان جنگ تھا اور اصحاب کا جذبۂ شہادت سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ گویا کہ امام حسینؑ دنیا کے ہر قائد اور رہبر کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ اپنے اصحاب و انصار کو کبھی اندھیرے میں نہیں رکھنا چاہیئے۔ انہیں اپنے مقصد اور عزم سے آگاہ رکھو، تاکہ تاریخ کبھی یہ نہ کہہ سکے کہ انہیں فریب دیا گیا۔ کیونکہ عام طور پر لیڈروں کے بارے میں یہ بات عام ہو چلی ہے کہ ان کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ اور ہوتا ہے۔ مگر کربلا میں امام حسینؑ نے ثابت کر دیا کہ اصلی رہبر وہ ہے، جس کا ظاہر اس کے باطن کی ترجمانی کر رہا ہو۔
امام حسینؑ نے یزید جیسے فاسق و فاجر کی بیعت کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ "مثلی لایبایع مثلہ۔” یعنی "مجھ جیسا کبھی تجھ جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا!” آیا ہم اس حسینی عزم اور حوصلے کے آئینہ دار ہیں۔؟ کیا ہم یزید صفت افراد کو حسین جیسا جواب دینے کی جرأت رکھتے ہیں۔؟ اگر نہیں تو کیا ہمیں خود کو حسینی کہلانے کا حق حاصل ہے؟ کیونکہ حسینؑ نے ظلم و استبداد پر مصلحت آمیز خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ ظالم کے خلاف قیام فرمایا۔ آج ہم معاشرے میں ہو رہے ظلم اور فساد پر مہر بہ بلب ہیں، کیونکہ ظالم کے خوف نے ہمیں مصلحت آمیز خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے، یا پھر درباروں سے وابستگی نے ہمارے ضمیروں کو مردہ بنا دیا ہے۔ اگر کسی شخص میں ظالم بادشاہ کے سامنے حق بولنے کی جرأت نہیں ہے تو وہ ہر گز حسینی نہیں ہوسکتا۔
آج ہماری قوم کے سربرآوردہ افراد، دانشور اور بعض مولوی یرقانی اور زعفرانی تنظیموں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔ حکومت کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ حق بولنا تو دور حق دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ ہر وقت ظالم کے ظلم کی توجیہ کرتے نظر آتے ہیں۔ مسلسل حق تلفیوں اور جبر و دہشت پر شرعی جواز پیش کرتے ہیں۔ گویا یہ لوگ یزید کے درباری ہیں، جو حسینؑ کے قتل پر افسردہ تو تھے لیکن یزید کی خوشنودی کے لئے کبھی حسینؑ کی علیٰ الاعلان حمایت نہیں کرسکے۔ایسے لوگ معاشرے کے لئے زیادہ خطرناک ہیں۔ ان کے بارے میں عوام و خواص دونوں کو بیدار ہونا ہوگا۔ آج ہمارے درمیان ایسے افراد کی کمی نہیں ہے، بس انہیں پہچان کر ان کا بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے لئے بے حد ضروری ہے کہ امام حسینؑ کی قائدانہ تاریخ کا مطالعہ کریں۔ مدینہ سے لے کر کربلا کے میدان تک امام حسینؑ کے فیصلوں اور خطبات کا جائزہ لیں۔کیونکہ امام ؑ کے فیصلوں کی حکمت کو سمجھے بغیر ہم کربلا کے آفاقی پیغام کو نہیں سمجھ سکتے۔ حج کو عمرہ سے بدل دینا آسان فیصلہ نہیں تھا۔ اسی طرح کوفے میں چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر سننے کے بعد کوفہ کا رخ نہ کرکے کربلا کی طرف چلے آنا غیر معمولی فیصلہ تھا۔ ورنہ جس کا سفیر کوفے میں تہ تیغ کر دیا گیا ہو، اس کے لئے جنگ کو کوفے کے اندر برپا کر دینا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ امام نے کسی موقع پر جذبات کی رو میں آکر کوئی فیصلہ نہیں کیا، بلکہ ہر فیصلہ کے پیچھے ایک حکمت عملی اور سیاسی و سماجی شعور کارفرما تھا۔ اس لئے مدینہ سے کربلا تک کے حسینی فیصلوں کا غائرانہ مطالعہ بے حد ضروری ہے، تاکہ امام حسینؑ کی قیادت اور رہبریت کا افق ہمارے لئے روشن ہوسکے۔
تحریر: عادل فراز