مضامینہفتہ کی اہم خبریں

ادلب کا محاذ اور ترکی کی غلط فہمی

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) شام کے صوبہ ادلب کے حالیہ واقعات اور ترکی کا بھاری فوجی نقصان درحقیقت ترک حکام کے ذہن میں موجود چند غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے۔ ایسے اسٹریٹجک فیصلے جو شام کے پیچیدہ جغرافیا سے متعلق بعض غلط اندازوں اور نقصان دہ گمانوں پر استوار ہیں۔ شام میں گذشتہ آٹھ برس سے جاری خانہ جنگی خاص طور پر شام کے شمالی علاقوں میں تین بڑے فوجی آپریشنز سے حاصل شدہ نتائج کی روشنی میں ترک حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ کامیابیاں جو فوجی میدان میں ہاتھ نہیں آتیں مذاکرات کی میز پر حاصل ہونا ناممکن ہیں۔ اسی سوچ کے باعث ماسکو میں ہاکان فیدان علی مملوک کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام رہے ہیں اور انقرہ نے اس کے بعد ادلب میں شدید فوجی کاروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ اسی طرح دریائے فرات کے مشرقی حصے میں فوجی آپریشن کے دوران ترک مسلح افواج کی تیزی سے پیشقدمی اور کرد فورسز کی جانب سے قابل توجہ مزاحمت کا سامنا نہ کرنے کے باعث ترک حکام اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں کہ وہ شام کے صوبہ ادلب میں بھی مشابہہ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن ادلب کا محاذ انتہائی مشکل اور پیچیدہ ہے۔

ترک حکمرانوں کی دوسری بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ انہوں نے شام سے متعلق اپنے تمام فیصلوں کی بنیاد روس کے ساتھ اپنے معاہدات کو بنا رکھا ہے جبکہ وہ اس حقیقت سے غافل ہیں کہ ترکی اور روس کے درمیان شام سے متعلق کسی قسم کے طویل المیعاد اور اسٹریٹجک مشترکہ مفادات نہیں پائے جاتے۔ ترکی اور روس کے درمیان اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں کچھ معاہدے موجود ہیں جن میں سے 23 ارب ڈالر مالیت پر مبنی انرجی کی تجارت، اک کویو نیوکلیئر پراجیکٹ، فوجی معاہدے اور ایس 400 ایئر ڈیفنس سسٹم قابل ذکر ہیں۔ ان معاہدوں کے پیش نظر ترکی کے سیاسی رہنما اس غلط تصور کا شکار ہو چکے ہیں کہ وہ حساس مواقع پر ان مشترکہ ایشوز کے ذریعے روس پر دباو ڈال کر اس کے رویے میں تبدیلی ایجاد کر سکتا ہے۔ ادلب میں رونما ہونے والے حالیہ اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حتی ایس 400 میزائل ڈیفنس سسٹم بھی شام میں ترکی کیلئے زیادہ مفید واقع نہیں ہو سکتا اور ترکی کی جانب سے یہ سسٹم حاصل کرنے کا واحد مقصد اپنے مغربی اتحادیوں کی توجہ حاصل کرنا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ادلب میں ترکی کی بھاری فوجی موجودگی کا مقصد روس کو اپنے ساتھ معاہدے پر مجبور کرنا ہے۔

ترکی حکام کی تیسری بڑی غلط فہمی اپنے مغربی اتحادی ممالک خاص طور پر نیٹو سے بے جا توقعات ہیں۔ حالیہ چند سالوں میں ترک حکام نے روس اور شام کے دیگر اتحادی ممالک کے ساتھ اپنے مغربی اتحادیوں کی پالیسی تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش انجام دی ہے۔ ایس 400 میزائل ڈیفنس سسٹم سے لے کر یورپ کے ساتھ اپنی سرحدیں مہاجرین کیلئے کھول دینے تک ہر کوشش کر چکے ہیں۔ لیکن امریکہ اور یورپی ممالک شام کے صوبہ ادلب سے متعلق ترکی سے مختلف ترجیحات کے حامل ہیں۔ لہذا وہ ترکی کی خاطر ادلب میں اپنے فوجیوں کو خطرے میں مبتلا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اس اسٹریٹجک تنہائی کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک اہم وجہ روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش اور روس سے ایس 400 میزائل ڈیفنس سسٹم خریدنے کا فیصلہ ہے۔ ترکی کی جانب سے اچانک نیٹو کی جانب یو ٹرن درحقیقت اس بند گلی کا نتیجہ ہے جس سے ترکی شام اور لیبیا میں روبرو ہے۔ نیٹو حکام یوکرین میں حاصل ہونے والے تجربات کے پیش نظر روس سے براہ راست ٹکراو سے گریز کر رہے ہیں۔

اس بارے میں آخری اہم نکتہ ترکی کی اندرون خانہ سیاست سے مربوط ہے۔ رجب طیب اردگان کو ملک کے اندر بہت سے سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے جن پر غلبہ پانے کیلئے انہیں خارجہ پالیسی کے ایشوز کو بڑھا چڑھا کر دکھانے کی ضرورت ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے شام کے صوبہ ادلب میں اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے کیلئے ایسے تکفیری دہشت گرد عناصر پر تکیہ کیا ہے جنہیں خود شام حکومت کے مخالف سیاسی دھڑے بھی قبول نہیں کرتے۔ ادلب میں ترکی کے بھاری فوجی نقصان کے بعد ترکی کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید سامنے آئی ہے جس کے نتیجے میں ترک حکومت نے ایک تو سوشل میڈیا پر پابندی لگا دی ہے جبکہ دوسری طرف ادلب میں ہلاک ہونے والے ترک فوجیوں کی صحیح تعداد بھی ذرائع ابلاغ پر لانے سے روکی جا رہی ہے۔ ملک کے اندر شام میں اپنی جھوٹی صورتحال دکھانے کے باعث ترک حکام زمینی حقائق سے مناسب اقدامات انجام دینے میں مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔ شام میں محدود تعداد میں غیرملکی تکفیری دہشت گرد عناصر کے علاوہ ترکی کا کوئی حامی نہیں ہے۔ نیٹو کی جانب سے شام میں فوجی مدد سے گریز کرنے کی صورت میں ترکی کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا اور سفارتی طریقے سے مسئلہ حل کرنا پڑے گا۔

تحریر: ولی گل محمدی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button