اسلام کو سازشوں سے بچانا ہے تو حرمت محرم کی حفاظت کرنا ہوگی، شیعہ سنی علماء
شیعہ نیوز:تحریک بیداری امت مصطفیٰؐ کے زیر اہتمام شہید حمید بھوجانی ہال سولجر بازار کراچی میں ‘حرمت محرم کانفرنس’ کا انعقاد کیا گیا، جس میں مکتب حسینیؑ کے پیروکار شیعہ سنی علمائے کرام، مشائخ عظام، عمائدین، دانشوروں، صحافیوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔ کانفرنس سے خصوصی خطاب میں مولانا عباس شاکری، مولانا ضیغم عباس رضوی، مولانا جواد نوری جنرل سیکریٹری ہیئت آئمہ مساجد و علماء امامیہ پاکستان، مفتی محمود الحسینی رہنما جمعیت علماء پاکستان سندھ، مولانا منظر الحق تھانوی، مفتی فضل ہمدرد، مولانا زاہد حسین، نوحہ خواں شاہد علی، نوحہ خواں ابراہیم، سمیع حیدر چیف اسکاؤٹ المصطفیٰؐ اسکاؤٹس پاکستان، مولانا شیخ سلیم مسئول مجمعہ المدارس تعلیم الکتاب و الحکمہ کراچی، منظر حیدر رہنما بوتراب اسکاؤٹ کراچی، احمد خان رہنما تحریک بیداری امت مصطفیٰؐ سندھ سمیت دیگر رہنماؤں اور عمائدین نے محرم الحرام کے تقدس اور کربلا کے پیغام پر اظہار خیال کیا۔ کانفرنس کی صدارت مولانا علی رضا مطہری نمائندہ مرکز تشیع پاکستان حوذہ علمیہ جامعہ عروة الوثقیٰ نے کی۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی رہنما تحریک بیداری امت مصطفیٰؐ علامہ علی رضا مطہری و دیگر مقررین کا کہنا تھا کہ امام حسینؑ نے عزت کی موت ذلت و خواری کی زندگی سے بہتر ہے اور شہادت عظمیٰ کا مرتبہ حاصل کرکے دنیائے انسانیت کے سامنے اسلام کے آفاقی پیغام کو ایک ایسے انداز میں پیش کیا اور اپنے اوپر ہونیوالے ظلم و ستم کو سہہ کر حق و باطل کے درمیان جو حد فاضل کھینچی اور حق گوئی و شہادت کی ایسی عظیم مثال قائم کی کہ وہ رہتی دنیا کیلئے آزادی، مساوات اور جمہوریت کی علامت بننے کیساتھ اقامت دین و تحریکات اسلامی کیلئے چشمۂ ہدایت بن گئے۔ مقررین نے کہا کہ نواسۂ رسولؐ کی شہادت تاریخ انسانیت کی بہت بڑی قربانی تھی، یہ کوئی شخصی یا انفرادی واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ چمنستان نبویؐ کے پورے گلشن کی شہادت کا واقعہ تھا، جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ اس طرح اسلام ابتداء سے لیکر انتہاء تک قربانیوں کا نام ہے، گویا ایک مسلمان کی زندگی ایثار و قربانی سے عبارت ہے، اسلام نے انسان کی کامیابی و کامرانی کو قربانی میں مضمر رکھا ہے۔
مقررین نے کہا کہ صاحب بصیرت، نواسۂ رسولؑ کی نگاہ کو سیاسی حالات نے آنکھیں دکھائیں، وطنی مفاد آڑے آئے، وقت اور ماحول نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا، مصلحتوں نے دامن پکڑا، مشکلات نے راستہ روکا، ہلاکتوں کا طوفان نمودار ہوا، فخر و مباحات کی تیز آندھیاں اپنا زور دکھا رہی تھیں، لیکن اہل دین کا دینی ضمیر اس تبدیلی کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ امام حسینؑ اور ان کے چھوٹے بڑے اعزاء و اقرباء کب یزید کی بیعت کر سکتے تھے، اس لئے کہ جنتی جوانوں کے سردار حضرت امام حسینؑ حق و باطل کے درمیان ایک فصیل کا مقام رکھتے تھے۔ مقررین نے کہا کہ امام حسینؑ کی تعلیم و تربیت کا گہوارہ آپ (ص) کی گود تھی اور آپ (ص) کی آغوش میں پل کر اپنی حیات کا آغاز کیا تھا، جن کے ناز آپ (ص) نے برداشت کئے۔ مقررین نے کہا کہ آپؑ نے حضرت امام حسنؑ اور حضرت امام حسینؑ کے بارے میں فرمایا کہ دنیا میں میرے یہ دو پھول ہیں اور فرمایا کہ اے اللہ میں ان دونوں کو محبوب رکھتا ہوں، تو بھی انھیں محبوب رکھ، اور جو ان سے محبت کرتا ہے، انہیں بھی محبوب رکھ۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ حسنین کریمینؑ کی رگوں میں ماں فاطمہ زہرا (س) کا دودھ اور باپ علی مرتضیؑ کا خون دوڑ رہا تھا، اخلاق، پیار و محبت، عظمت و بزرگی، حکمت و شجاعت، صداقت، ایمانداری، عدالت و سخاوت، صبر و شکر اخلاق و کردار، حکمت و عفت، عدالت اور جود و سخا میں آپ (ص) کی جیتی جاگتی تصویر اور عملی نمونہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ شاہد ہے کہ حق و باطل، خیر و شر، اسلام و کفر کے مابین ہزاروں معرکے ہوئے، اور اسلام کا اولین دور تو بے شمار شہادتوں سے لبریز ہے، اور جب بھی باطل نے حق کے مقابلہ سر اٹھانے کی کوشش کی، تو حق نے اس کے سر کو کچلا ہے، اور اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا، لیکن واقعہ کربلا تمام شہادتوں سے ممتاز اور منفرد نظر آتا ہے، کیونکہ نواسۂ رسولؐ خانوادۂ رسولؐ کے چشم و چراغ ہیں، یہ داستان شہادت کسی ایک پھول پر مشتمل نہیں، بلکہ یہ پورے گلشن کی قربانی ہے، اور شہید ہونے والوں کی آپ (ص) کیساتھ خاص نسبتیں ہیں۔