پاکستانی شیعہ خبریںہفتہ کی اہم خبریں

پارا چنار میں تنازعات کے حل کیلئے شیعہ سنی قیادت اور حکومت کے مشترکہ اقدامات ضروری ہیں، علامہ سید جواد نقوی

شیعہ نیوز: تحریک بیداری امت مصطفی کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پارا چنار میں قبائلی تنازعات زمین، وسائل اور دیگر علاقائی مسائل پر مبنی ہیں لیکن چونکہ وہاں مقیم قبائل مختلف مسالک سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے بدقسمتی سے ان جھگڑوں کو فوراً مذہبی رنگ دے دیا جاتا ہے، جو درست نہیں ہے۔ ایسے علاقے میں جہاں جنگ کے شعلے بھڑکنے کو ہر وقت تیار رہتے ہوں اور ایک معمولی حادثہ بھی بڑا بحران ایجاد کر دیتا ہو وہاں قومی غیرت یا بہادری کے نام پر قتل  و غارت گری صراصر ظلم ہے، جس کا کوئی جواز نہیں۔ مذہب تو دور کی بات یہ انسانیت بھی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاراچنار میں جرائم کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ ہر کوئی اسے واضح طور پر غلط سمجھے، چاہے کرنیوالا کسی بھی مسلک سے ہو۔ انہوں نے پارا چنار میں شیعہ سنی قبائل کو  مرکزیت قائم کرنے اور اسکے ماتحت امور کو طے کرنے کا فارمولا دیتے ہوئے کہا کہ درست اصول یہی ہے کہ ہر فرقہ اپنے لوگوں کو خود کنٹرول کرے؛ شیعہ قیادت اپنے عوام اور جوانوں کو سنبھالے، اور سنی قیادت اپنی نفری کو کنٹرول کرے، اسی طرح تنازعات بہتر انداز میں حل ہو سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں فرقہ واریت کی بنیاد یہی ہے کہ ایک فرقہ اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے کو ہدایت کی کوشش میں مصروف ہے۔

انکا مزید کہنا تھا کہ ہر چند بظاہر یہ حوادث اتفاقی نظر آتے ہیں لیکن یہ اتفاقی نہیں ہیں، ان کے پیچھے باقاعدہ منصوبہ موجود ہے، جنہیں ملکی اور خطے کے حالات کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ دہشت گرد یہ منصوبہ رکھتے ہیں کہ اس  ناامنی میں وارد ہو  کر اپنی کارروائیاں کریں جو بعض ناعاقبت اندیش، اقتدار پسند مجرمین اور ریاستی اداروں کے اندر موجود ناپاک عناصر کی خیانت سے دوبارہ افغانستان سے پاکستان میں جدید ترین نیٹو اسلحے سمیت اور باقاعدہ دعوت ناموں کے ذریعے واپس لائے گئے ہیں۔ انہوں نے تاکید کی کہ یہاں پر ضرورت ہے کہ پارا چنار کے تمام شیعہ سنی عوام مل کر دہشتگردی کے اس فتنے کو بھانپیں اس کی جڑیں پہچانیں کہ یہ ایک بڑے بحران کیلئے پیش خیمہ بنایا جا رہا ہے۔ پارا چنار کی شیعہ سنی مذہبی قیادت، طبقات اور عوام یہ جان لیں کہ یہ فتنہ دونوں ہی کیخلاف ہے۔ انہوں نے تاکید کی کہ بحرانوں کی اس طرح مدیریت کریں کہ وہ اس طرف نہ جائے جدھر دشمن چاہ رہے ہیں یا جدھر یہ فتنہ گر چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ تجزیہ ہماری مذہبی قیادت کے پاس علاقائی طور پر بھی ہونا چاہیے ان کی نگاہ ملکی حالات پر ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو بھی مل کر پابند کرنا ہوگا کہ وہ اس خطے میں امن قائم کرنے میں اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔ مسلسل دونوں طرف سے شکایت ہے کہ حکومتی افراد اور فورسز اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرتیں، بلکہ صورتحال کو بگڑنے کی اجازت دیتی ہیں۔ آگ لگنے کے بعد ہی وہ جنگ بندی کے اقدامات کرتی ہیں، جو ناقابل قبول ہے۔اگر مذہبی، سیاسی اور سرکاری قیادت مل کر ایک مؤقف اختیار کرے تو آنیوالے حوادث کو روکنے میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے، اور یہ عمل اشد ضروری ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button