دنیا

مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں پر جبر کی رپورٹ پر بھارتی حکام برہم، قانونی کارروائی کا عندیہ

مقبوضہ کشمیر میں آزادی صحافت کی صورتحال سے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی ایک برس طویل تحقیقات پر مقامی حکام معترض ہیں اور مقبوضہ کشمیر کی پولیس نے بی بی سی کے خلاف قانونی کارروائی کا انتباہ بھی دے ڈالا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مقامی پولیس نے یوگیتا لیمے کی بی بی سی نیوز رپورٹ پر برہمی کا اظہار کیا ہے، جس کا عنوان ’کوئی بھی خبر آپ کی آخری خبر ہوسکتی ہے—کشمیر پریس پر انڈیا کا کریک ڈاؤن‘ ہے، اس رپورٹ میں میڈیا کو دھمکانے اور خاموش کرانے کی ایک مذموم اور منظم مہم کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

’دی وائر‘ کے مطابق مقبوضہ کشمیر پولیس نے کہا کہ اس رپورٹ میں علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر کی پولیس کی کوششوں کی غیر منصفانہ طور پر مذمت کی گئی ہے اور پولیس کو صحافیوں کے خلاف متعصب ظاہر کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کشمیری صحافی آصف سلطان، فہد شاہ، سجاد گل اور عرفان معراج سمیت دیگر کی نظربندی اور ان پر مقدمہ چلانے کے پیچھے کی کہانی بیان کی گئی ہے۔

بی بی سی نے جن صحافیوں سے بات کی ان میں سے 90 فیصد سے زائد صحافیوں نے بتایا کہ انہیں پولیس کم از کم ایک بار طلب کر چکی ہے، ان میں سے اکثر کو ایک خبر پر متعدد بار طلب کیا جا چکا ہے۔

رپورٹ کے مطابق کچھ لوگوں نے کہا کہ پولیس کا لہجہ شائستہ تھا، دیگر نے کہا کہ انہیں غیظ و غضب اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ بھارتی حکومت نہ صرف علیحدگی پسند تحریکوں اور عسکریت پسند گروہوں سے متعلق رپورٹنگ کو بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے بلکہ سیکیورٹی فورسز یا انتظامیہ کے حوالے سے کوئی بھی تنقیدی کوریج، حتیٰ کہ روزمرہ کے شہری مسائل پر رپورٹنگ بھی بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

’دی وائر‘ کے مطابق مقبوضہ کشمیر پولیس کے ترجمان نے ’ایکس‘ (ٹوئٹر) پر کہا کہ ریاستی تحقیقاتی ایجنسی ایک زیر سماعت کیس کے حوالے سے حقائق کی غلط رپورٹنگ کرنے پر بی بی سی کے خلاف قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔

تاہم مقبوضہ کشمیر پولیس کے ترجمان کی جانب سے جاری اس بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ حقائق کی غلط رپورٹنگ سے ان کا کیا مطلب ہے۔

مقبوضہ کشمیر پولیس نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف اس کی کارروائیاں قانون اور انصاف کے معیار پر پورا اترتی ہیں جنہوں نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں سیکیورٹی کے ماحول کو بے حد تبدیل کر دیا ہے۔

اس حوالے سے ’بی بی سی‘ کے ایک ترجمان نے ’دی وائر‘ کو بتایا کہ ہم صرف اتنا کہیں گے کہ ادارہ اپنی صحافت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button