مضامین

بین المسالک ہم آہنگی، شیعہ تکفیر اور مولانا زاہد الراشدی

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)چند دن قبل معروف شیعہ عالم دین علامہ سید جواد نقوی صاحب گوجرانولہ میں ختم نبوت و استحکام پاکستان نامی ایک مقامی سیمینار میں شریک ہوئے ہیں۔ اس سیمینار کے بانی مولانا زاہد الراشدی صاحب تھے۔ زاہد الراشدی صاحب دیوبندی مکتب فکر کے ایک معروف عالم دین سمجھے جاتے ہیں۔ شیعہ عالم دین کی سیمینار میں شرکت نے شیعہ حلقوں میں ایک نئی بحث کو جنم دیا کہ کیا مختلف مکاتب فکر کے تکفیری علماء یعنی جنہوں نے شیعوں کی تکفیر کررکھی یا تکفیر کی تائید کر رکھی ہے ان کے ساتھ مکالمہ اور قربت ہونی چاہیے؟ اور اگر ایسا کوئی مکالمہ یا قربت ہونی چاہیے تو کن شرائط پر ہونی چاہیے؟۔ شیعہ مکتب فکر کے غنی علمی سرمائے اور دانشور و مفکر اذہان کی فراوانی کے سبب توقع کی جارہی ہے کہ اس مکتب فکر میں حوصلہ افزا اور گہری علمی گفتگو دیکھنے کو ملے گی۔

ہم ابتدائی طور پر شیعہ اور دیوبندی عالم دین کے مابین ملاقات کے موقع کی مناسبت سے بین المسالک ہم آہنگی، شیعہ تکفیر اور مولانا زاہد الراشدی کے موضوع کے تحت چند انتہائی ابتدائی گذارشات سامنے رکھتے ہیں۔ امید ہے اس موضوع پر غور و فکر کرنے والے دوستوں کے لیے مفید ہوں گی۔مولانا زاہد الراشدی کے والد مولانا سرفراز خان صفدر نے شیعہ مکتب فکر کی تکفیر پر ایک کتاب بنام ارشاد الشیعہ لکھ رکھی ہے۔ مولانا سرفراز خان صفدر کی اس کتاب کے مطابق شیعہ کے کافر ہونے کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔1- شیعہ اصحاب ثلاثہ کی تکفیر کرتے ہیں۔2- شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں۔3- شیعہ آئمہ کو بھی معصوم اور منصوص من اللہ گردانتے ہیں جبکہ یہ منصب صرف انبیائے الٰہی سے متعلق ہے لہذا اسے کسی غیر نبی سے منسوب کرنے والا کافر ہے۔مولانا زاہد الراشدی صاحب کسی زمانے میں سپاہ صحابہ کی سپریم کونسل کے رکن بھی رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سپاہ صحابہ کا وجود انقلاب ایران کے بعد شیعہ مکتب فکر کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے بند باندھنے کے لیے ایک فطری ردعمل تھا، ولا غیر۔ بعدازاں جب انہوں نے کرسی درس و تدریس سنبھالی اور شہرت پائی اور سپاہ صحابہ سے وابستگی کو اپنی علمی و سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ پایا تو اس سے الگ ہوگئے۔ حتی بعد ازاں شیعہ کے ایک بڑے گروہ کو شدت پسند کہنے اور اس کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ سپاہ صحابہ کی شدت پسندی کے ناقد بھی رہے ہیں۔مولانا زاہد الراشدی اس وقت گوجرانولہ میں مقیم اور مدرسہ نصرۃ العلوم اور شریعہ اکیڈمی کے علاوہ الشریعہ نامی ایک ماہنامہ میگزین بھی چلا رہے ہیں۔مولانا زاہد الراشدی کے ماہنامہ الشریعہ میں گاہے بگاہے بین المسالک ہم آہنگی اور اتحاد و وحدت کے عنوان سے مختلف مضامین شائع ہوتے رہتے اور مولانا زاہد الراشدی خود کو بھی اتحاد و وحدت کا داعی گردانتے اور اس عنوان سے قلم فرسائی کرتے رہتے ہیں حتی بعض ایسی کانفرنسز و ورکشاپس میں جہاں مختلف مکاتب فکر کے علما و دانشور شریک ہوتے ہیں وہاں بھی بین المسالک ہم آہنگی کے کے موضوعات پر درس دیتے رہتے ہیں۔

مولانا زاہد الراشدی معاشرتی اور قومی دائرہ کار اور شرعی فتوی کے دائرہ کار کے درمیان فرق کے قائل اور بین المسالک ہم آہنگی اور کثیر المسالک معاشرے میں باہمی زندگی کو معاشرتی اور قومی ضرورت کے ذیل میں قابل مسالمت گردانتے ہیں اور اس تناظر میں بین المسالک ہم آہنگی کے قائل ہیں۔مولانا زاہد الراشدی کیونکہ ایک قلم کار بھی ہیں لہذا شیعہ کی تکفیر کے حوالے سے اپنی رائے کا ببانگ دہل اظہار کرتے اور ان کے متعدد مضامین میں شیعہ تکفیر کا ذکر ملتا ہے۔ مولانا زاہد الراشدی کے ماہنامہ الشریعہ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں آزادی بیان نسبتاً زیادہ ہے اور ہر قلم کار کسی مکتب فکر کی تکفیر پر مفصل اظہار خیال کرسکتا ہے لہذا ان کے میگزین میں شیعہ تکفیر پر خاطر خواہ مواد ایک ہی جگہ دستیاب ہے۔ مولانا الراشدی شیعہ تکفیر کے حوالے سے اپنے والد مولانا سرفراز خان صفدر کے ہم فکر اور ہمیشہ والد کے فتویٰ تکفیر کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔مولانا زاہد الراشدی کے ماہنامہ الشریعہ میں سنہء 2004 اور سنہء 2005 کے درمیان شیعہ تکفیر کے حوالے سے متعدد مضامین چھپے ہیں۔ انہی ایام میں دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات ایک پروفیسر نے جب ان سے ایک تحریری انٹرویو کیا تو وہ اس سوال کے جواب میں کہ "پاکستان کے بعض گروہ جیسے سپاہ صحابہ شیعہ کو کافر کہتے ہیں کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟۔” یوں راقم ہیں۔ "ہم نے سپاہ صحابہ کی روش سے ہمیشہ اختلاف کیا اور اس کا اپنی تحاریر و سربراہانِ سپاہ صحابہ سے ملاقات میں اظہار بھی کیا ہے لیکن اس حوالے سے ہم جمہور علمائے اہل سنت کے موقف سے متفق ہیں کہ جو شیعہ قرآن میں تحریف کا قائل ہو، اکابر صحابہ کی تکفیر کرتا ہو اور حضرت عائشہ پر قذف کرتا ہو وہ کافر ہے اور ہم شیعہ کی سیاسی تاریخ پر بھی شدید تحفظات رکھتے ہیں۔”

جب ان کی اس رائے کو فیصل آباد سے شائع ہونے والے ماہنامہ خلافت راشدہ کے ایک مضمون نگار نے ستمبر 2004 میں ایک مبہم رائے قرار دیا اور اسے مولانا زاہد الراشدی کے اپنے والد مولانا سرفراز خان صفدر کے شیعہ کی تکفیر والے فتوے سے عدول قرار دیا تو مولانا زاہد الراشدی نے دسمبر 2004 کے ماہنامہ الشریعہ کے شمارے میں اس کا جواب یوں دیا۔ "ماہنامہ خلافت راشدہ فیصل آباد کے ستمبر کے شمارے کے ایک مضمون نگار نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ہم شیعہ کی تکفیر کے حوالے سے اکابر علمائے اہل سنت کے فتوے سے اختلاف کر رہے ہیں جو کہ غلط ہے کیونکہ جس تحریر میں ہم نے سپاہ صحابہ کے طرز عمل سے اختلاف کیا ہے وہیں ہم نے اس فتوی کی تائید بھی کی ہے۔ البتہ ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ تکفیر کرتے ہوئے اس بات کی تصریح بھی کی جائے کہ جو شیعہ قرآن میں تحریف کا قائل ہے، جو حضرت عائشہ پر قذف کرتا ہے، جو شیعہ اکابر اصحاب کی تکفیر کرتا ہے اور جو شیعہ آئمہ کو انبیائے کرام کی طرح معصوم مانتا ہے یا دین کی کسی اور ضروری بات کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہے اور اسلام سے خارج ہے۔” مولانا زاہد الراشدی کے بقول "یہ وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ بعض شیعہ اس عقیدے کے حامل نہیں ہیں جیسے زیدی اور نور بخشی شیعہ، لہذا وہ کافر نہیں ہیں۔”مولانا زاہد الراشدی اپنے ماہنامہ الشریعہ کے مئی 2011 کے شمارے میں شیعہ کی قومی ملی تحریکات میں شمولیت کے حوالے سے لکھتے ہوئے پیامبر اسلام ص کے زمانے سے منافقین کی مثالیں دیتے اور لکھتے ہیں کہ "جیسے پیامبر اسلام ص نے منافقین کو اپنا الگ تشخص نہ بنانے دینے، انہیں ساتھ رکھ کر ان کی اصلاح کرنے اور ان کی سرگرمیوں کو زیر نظر رکھ کر ان کے اضافی شر سے بچے جانے کی پالیسی اپنائی تھی ایسے ہی ہمیں بھی ان منافقین (یعنی شیعہ) کو الگ تشخص نہیں بنانے دینا چاہیے اور انہیں ساتھ رکھ کر ان کی اصلاح اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی پالیسی اپنانی چاہیے۔” اسی مضمون میں مولانا زاہد الراشدی ایک دلچسپ تقسیم کے قائل بھی ہوتے ہیں جس کی طرف ہم نے مقدمے میں اشارہ کیا ہے۔

مولانا زاہد الراشدی شرعی فتوے کے دائرہ کار اور معاشرتی و قومی ضرورت کے دائرہ کار میں فرق کرتے اور سائل (جس کے جواب میں یہ مضمون لکھا جارہا ہوتا ہے) کو مخاطب کرکے کہتے ہیں یہ بحث (شیعہ کی قومی و ملی تحریکات میں شمولیت کی بحث) فتوے کے دائرہ کار کی نہیں بلکہ معاشرتی اور قومی ضرورت کے دائرہ کار کی بحث ہے۔” لہذا فتوے کو نہ چھیڑیں کیونکہ مولانا کے نزدیک فتوی وہی ہے جو مولانا کے والد سرفراز خان صفدر نے دے رکھا حتی مولانا الراشدی اسی مضمون میں دارالعلوم دیوبند ہندوستان کے شیعہ کی تکفیر کے فتوے کا ذکر کرتے اور اس کی تائید کرتے ہیں لیکن معاشرتی اور قومی ضرورت کے تحت شیعہ کے ساتھ زندگی گزارنے کا راستہ نکالنے کی بات کرتے ہیں۔مولانا زاہد الراشدی جولائی 2016 میں اسلام آباد کے کسی "ادارہ امن” کی طرف سے مختلف مکاتب فکر کی علمی شخصیات کی ایک پانچ روزہ ورکشاپ میں بطور مہمان مقرر شرکت کرتے اور وہاں بین المسالک ہم آہنگی پر بات کرتے ہیں۔ شرکاء میں شیعہ افراد ہونے کیوجہ سے مولانا صاحب مذہب شیعہ کو اسلام کا حصہ قرار دیتے لیکن پروگرام کے بعد جب ایک شرکت کنندہ مولانا زاہد الراشدی سے ان کے والد کے فتوے کے حوالے سے دریافت کرتا اور انہیں ان کے والد سرفراز خان کی شیعہ کی تکفیر میں لکھی گئی کتاب ارشاد الشیعہ کا حوالہ دیتا ہے تو مولانا الراشدی کہتے ہیں: "ہم تو ارشاد الشیعہ کے بعد بھی شیعہ کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھاتے رہے ہیں۔” سائل جب اسی ورکشاپ میں کسی دوسرے موقع پر از راہ تفنن کہتا ہے کہ قبلہ اپنے والد کی طرف سے شیعہ کی تکفیر پر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ "مفتی مرے ساتھ فتویٰ بھی مر گیا” تو مولانا الراشدی فورا کہتے ہیں، "نہیں نہیں!” میں نے ایسا نہیں کہا ہے۔شیعہ کی تکفیر کے حوالے سے مولانا کی باتیں بہت زیادہ ہیں لیکن چونکہ ہماری بات پہلے ہی بہت لمبی ہوگئی لہذا انہی چند آراء پر اکتفا کرتے ہیں۔

دور حاضر کے تقاضوں اور حالات کو سمجھتے ہوئے ہمیں بین المسالک ہم آہنگی اور بین المذاھب مکالمے کا قائل ہونا چاہیے اور اس میں کسی قسم کی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے کہ مسلکی اختلافات کا واحد حل بین المسالک مکالمہ ہے لیکن مکالمے کی شرائط کیا ہونی چاہیے؟ تاکہ مکالمہ نتیجہ خیز بھی ہو اور سب مکاتب فکر کے لیے قابل قبول بھی ہو؟۔ کیا مولانا زاہدی الراشدی کے موقف کے مطابق کسی ایک مکتب فکر کو کسی دوسرے مکتب فکر میں تحلیل ہونے، اس کے زیر نظر رہنے اور الگ تشخص قائم نہ کرنے کے فارمولے کے تحت یا کسی ایسی سوچ کے ساتھ مکالمہ شروع کیا جاسکتا ہے؟ ایسا مکالمہ یقینا غیر منصفانہ ہوگا اور اسے کوئی مکتب فکر قبول نہیں کرے گا کیونکہ اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلے گا۔دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ فتوی کے دائرہ کار کو معاشرتی دائرہ کار سے جدا کرکے مولانا الراشدی کے موقف کے مطابق باہمی معاشرتی زندگی گزارنے کے راستے تلاش کر لیے جائیں۔ کیا ایسا عملا ممکن ہے کہ ہر مکتب فکر دوسرے کو کافر گردانے اور پھر ملکر بھی رہ رہے ہوں؟۔ کیا دین زندگی گزارنے کا کوڈ نہیں ہے؟۔ اور کیا فتوی دین کی تعلیمات سے استنباط نہیں کیا جاتا؟۔ اگر ایسا ہے تو پھر فتوے کے دائرہ کار یعنی دین میں داخل ہوئے بغیر مشترکہ زندگی چہ معنی دارد؟۔ ایسی مشترکہ زندگی کس اصول کی بنیاد پر ہوگی؟۔میرا خیال ہے مذکورہ بالا دونوں صورتیں جہاں عملا ناممکن ہیں وہیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتیں لہذا بین المسالک ہم آہنگی کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ایک مثالی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ تمام مکاتب فکر کے اکابر خصوصا جنہوں نے دوسرے مکاتب فکر کی تکفیر کے فتوے دے رکھے یا اپنے اکابر کے فتویٰ ہائے تکفیر کی تائید کر رکھی ہے اور خصوصا وہ اکابر جو بین المسالک ہم آہنگی کے علمبردار بھی ہیں وہ سب سے پہلے ان تکفیری فتووں سے برأت کی علمی جرات کریں اور پھر ایک مفید بین المسالک مکالمے کا آغاز کریں جس میں مسلمان کی مشترکہ تعریف اور عقیدتی و فقہی مشترکات کی بنیاد پر مشترکہ زندگی کے چند اصول وضع کئے جاسکیں اور ان کی بنیاد پر تکفیر، تعصب اور نفرت سے پاک ایک معاشرے کی تشکیل ممکن ہوسکے۔ میرا خیال ہے تکفیر کے فتوے واپس لیے جانے یا ان سے برأت کی علمی جرأت کئے بغیر بین المسالک ہم آہنگی کی کوئی بھی کوشش نتیجہ خیز نہیں ہوگی بلکہ ایک طرف ان فتووں کی تائید و توثیق اور دوسری طرف بین المسالک ہم آہنگی کی پرچم داری منافقت ہے۔

معروف شیعہ عالم دین علامہ سید جواد نقوی کی تکفیری مولانا زاہد الراشدی سے ملاقات کے علمی، معاشرتی یا سیاسی اہداف کیا تھے؟ اس بات کا علم تو ان کا موقف آنے کے بعد ہی ہوگا لیکن شیعہ قوم میں اس عنوان سے پائی جانے والی تشویش اس بات کی دلیل ہے کہ شیعہ قوم بغیر کسی ٹھوس ضمانت اور تکفیری فتوے واپس لیے جانے کے تکفیری عناصر سے ملاقات کو خوش آئند نہیں سمجھتی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button