مضامین

آئی پیک، طلبہ انقلابی تحریک کو کچلنے کا کنٹرول روم

تحریر: محمد علی زادہ

امریکی یونیورسٹیوں میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اور غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ دوسری طرف امریکی پولیس اور سکیورٹی فورسز نے گذشتہ چند دنوں کے دوران مزید طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور گرفتار کیا ہے۔ یہ سلسلہ ایسے وقت مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جب انسانی حقوق کا دفاع کی دعویدار مغربی تنظیموں کی اکثریت نے یونیورسٹی طلبہ کے خلاف اس قدر تشدد آمیز اقدامات اور امریکی یونیورسٹیوں کو فوجی چھاونیاں بنا ڈالنے پر پراسرار چپ سادھ رکھی ہے اور پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اقدامات کو سماجی اور علمی میدان میں امن اور سلامتی برقرار کرنے کی کوششیں قرار دیا ہے۔ اس وقت کیلی فورنیا یونیورسٹی ایک بار پھر صیہونزم اور اس کے اصلی حامی یعنی امریکی حکومت کے خلاف احتجاج کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے۔ امریکہ میں احتجاج کا آتش فشان پہلے سے زیادہ شعلہ ور ہو گیا ہے۔

کیلی فورنیا یونیورسٹی میں کیا ہو رہا ہے؟
کیلی فورنیا یونیورسٹی میں فلسطین کے حامیوں کی جانب سے احتجاج میں مزید وسعت آ جانے کے بعد اس یونیورسٹی کی انتظامیہ حقائق کے برعکس خبریں اور تاثرات دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیلی فورنیا یونیورسٹی کے اسٹریٹجک تعلقات کے مشیر میری اوساکو اس بارے میں کہتی ہیں: "یہ صورتحال اس وقت تبدیل ہوئی جب کچھ مظاہرین نے دو گروہوں کو علیحدہ کرنے کیلئے یونیورسٹی کی ایجاد کردہ رکاوٹوں سے عبور کیا۔” جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہیری ٹاب مین سماجی انصاف مرکز کے اراکین مظاہرہ کرنے والے طلبہ کی حمایت کا اظہار کرنا اور ان کے حق اعتراض پر زور دینا چاہتے تھے۔ دوسری طرف یہودی طلبہ کی حمایت نامی مہم کے اراکین، امریکہ میں یہودی لابی آئی پیک (AIPAC) کے تعاون سے مظاہرہ کرنے والے طلبہ کی مخالفت کر رہے تھے اور اسے یہودی دشمنی اور یہودیوں کے خلاف منافرت قرار دینے کی کوشش میں مصروف تھے۔

امریکی پولیس کے تشدد آمیز اقدامات آئی پیک کے زیر سایہ ہیں
یہاں ہم امریکہ میں طلبہ کی احتجاجی تحریک کو طاقت کے بل بوتے پر کچلنے میں یہودی لابی آئی پیک کے خاص کردار کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ غزہ جنگ کے آغاز سے آج تک آئی پیک نے امریکہ کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں اور تجزیوں نیز طاقت کے مراکز اور گروہوں پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے اور انہیں سمت و سو دینے میں مصروف ہے۔ وسیع پیمانے پر طلبہ کی گرفتاری اور یہودی طلبہ کی حمایت میں مہم کے آغاز جیسے اقدامات کی پیشکش بھی اسی یہودی لابی کی حکمت عملی کا حصہ تھے۔ کولمبیا یونیورسٹی پر امریکی پولیس کے کریک ڈاون اور بڑی تعداد میں طلبہ کی گرفتاری کے بعد سے اب تک طلبہ احتجاجی تحریک کا سلسلہ امریکہ کی تمام یونیورسٹیوں تک پھیل چکا ہے۔ اس دوران کیلی فورنیا سے لے کر ٹیکساس تک اور اینٹلنٹا سے لے کر بوسٹن تک سینکڑوں طلبہ پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے ہیں۔

ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں طلبہ نے کولمبیا یونیورسٹی طلبہ کی پیروی کرتے ہوئے یونیورسٹی کے احاطے میں مظلوم فلسطینی شہریوں کی حمایت کا اعلان کرنے کیلئے خیمے لگا کر دھرنا دینا شروع کر دیا ہے۔ یہ خیمے غزہ میں ان فلسطینی مہاجرین سے اظہار ہمدردی کیلئے لگائے جا رہے ہیں جو خیموں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہودی لابی آئی پیک نے یہود دشمنی کو صیہونزم دشمنی کے برابر قرار دینے پر مبنی قانون کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس قانون کے بعد صیہونزم کے خلاف ہر قسم کا اعتراض امریکہ اور یورپ میں جرم قرار پا چکا ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں میں حالیہ طلبہ احتجاجی تحریک کے دوران بھی آئی پیک نے یونیورسٹی سربراہان پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں "نسل کشی” یا "جرائم” جیسے الفاظ استعمال کرنے کو یہود دشمنی سمجھیں اور اس سے گریز کریں۔ امریکی یونیورسٹیوں نے اس حکم کو لاگو کر رکھا ہے۔

وہ مطالبات جنہوں نے آئی پیک کو حیرت زدہ کر دیا ہے
امریکی یونیورسٹیوں میں احتجاج کرنے والے طلبہ نے کچھ ایسے مطالبات پیش کئے ہیں جنہوں نے یہودی لابی آئی پیک کو شدید حیرت میں ڈال دیا ہے۔ یونیورسٹی طلبہ کے مطالبات صرف غزہ میں جنگ بندی تک محدود نہیں بلکہ اس میں زیادہ اہم موضوعات بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی یونیورسٹیاں ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری نہ کریں جو کسی طرح بھی اسرائیلی فوج سے رابطے میں ہیں۔ اسی طرح انہوں نے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو فراہم کی جانے والی فوجی امداد بھی روک دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہودی لابی آئی پیک نے طلبہ احتجاجی تحریک کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک اوچھا ہتھکنڈہ یہ اپنا رکھا ہے کہ اپنے کرائے کے مزدور ان میں گھسا دیتے ہیں جن کا کام صیہونزم کی بجائے یہودیوں کے خلاف نعرے بازی کرنا ہوتا ہے۔ یوں آئی پیک کو احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلانے کا بہانہ مل جاتا ہے۔

جب امریکی سیاست دان بھی آئی پیک سے محفوظ نہیں ہیں
امریکی پولیس اور سکیورٹی فورسز اب تک ملک کی مختلف یونیورسٹیوں سے سینکڑوں افراد کو گرفتار کر چکی ہیں۔ گرفتار شدگان میں گرین پارٹی سے وابستہ جل آسٹن بھی موجود ہیں جو 2024ء میں امریکہ کے صدارتی الیکشن کی امیدوار بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے بیانیے میں اس رویے کو شرمناک قرار دیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کے تین دیگر صدارتی امیدوار جو بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ اور رابرٹ کینیڈی غزہ میں جاری صیہونی نسل کشی کو اسرائیل کا حق دفاع قرار دے کر اس کی حمایت کر چکے ہیں۔ ان افراد نے امریکہ میں فلسطین کے حق میں حالیہ طلبہ احتجاجی تحریک کو ملک کی علمی تاریخ میں تاریک حصہ قرار دیا ہے۔ وائٹ ہاوس کے قومی سلامتی کے ترجمان، جان کربی نے ای بی سی نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر مانتے ہیں کہ امریکیوں کی اکثریت غزہ جنگ کے بارے میں بہت زیادہ جذباتی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button