مشرق وسطیہفتہ کی اہم خبریں

ایران ہمسایہ و دوست ممالک کا بھرپور دفاع کرنے کو تیار ہے

ایران نہ صرف مصلحت کی خاطر بلکہ مسلمان بھائی اور ہمسایہ و دوست ملک ہونے کے ناطے ان ممالک کا بھرپور دفاع کرنے کو تیار ہے

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے لبنانی نیوز چینل "المیادین” کے ڈائریکٹر "غسان بن جدو” کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہایران ہمسایہ و دوست ممالک کا بھرپور دفاع کرنے کو تیار ہے۔

ایک سوال کے جواب میں کہ کیا آپ کے بقول امریکیBٹیم کے نام سے موسوم گروہ اب بھی ایران سمیت پورے خطے کے لئے خطرہ ہے جبکہ "بن زائد” نے اس ٹیم سے خارج ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ کہا کہ میری اس وضع کردہ اصطلاح، B ٹیم میں چند سال قبل فقط بنجمن نیتن یاہو اور جان بولٹن ہی تھے جبکہ باقی افراد بعد میں اس ٹیم کا حصہ بنے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہمسایہ ممالک خطے میں واپس پلٹ آئیں اور (خطہ مخالف) کسی دوسرے اتحاد کا حصہ نہ بنیں۔ قطر کے خلاف کس بناء پر اقدامات کئے جا رہے ہیں، کیا وہ ہمارا اتحادی تھا؟ کیا سوڈان ہمارا اتحادی ہے؟ کیا عمر البشیر ہمارا اتحادی تھا یا ان کا اپنا؟ کیا لیبیا کے ساتھ ہمارا اتحاد قائم تھا یا ان کا؟ یہ خطرات فقط ایران کو ہی لاحق نہیں۔

دیکھیئے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے مل کر نہتے یمنی عوام پر جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ یہ ٹیم ہر جگہ پر تخریب کاری اور افراتفری پھیلانا چاہتی ہے۔ اسی طرح اگر ایران درمیان میں نہ آتا تو یہ تو اپنے ہی ہمسائے "قطر” کے عوام کا ہر قسم کا محاصرہ کرکے انہیں تہس نہس کر دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ نہ صرف متحدہ عرب امارات بلکہ سعودی عرب بھی اپنے جارحانہ اقدامات چھوڑ کر خطے کی بہتری کیلئے گفتگو کی طرف پلٹ آئے۔ اگر یہ ممالک خطے میں ناامنی پھیلانے پر مبنی جان بولٹن اور نیتن یاہو کے بنائے گئے امریکی منصوبوں سے الگ ہو کر خطے کی فلاح و بہبود اور باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لئے خطے میں واپس پلٹ آئیں تو ہم کھلے بازوؤں کے ساتھ ان کا استقبال کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنے ہمسایہ ممالک کو یقین دلواتا ہوں کہ امریکی و صیہونی شدت پسند آپ کو بچانے کی خاطر کبھی اپنا ایک فوجی بھی قربان نہیں کریں گے اور نہ ہی کوئی قدم اٹھائیں گے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران ان کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا گیا ہے اور وہ (اس ذلت سے) نکلنے کا پورا اختیار بھی رکھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف ایران نہ صرف مصلحت کی خاطر بلکہ مسلمان بھائی اور ہمسایہ و دوست ملک ہونے کے ناطے ان ممالک کا بھرپور دفاع کرنے کو تیار ہے۔ یہ ایران ہی تھا، جس نے آٹھ سال جنگ لڑنے کے بعد پھر جب کویت پر حملہ ہوا تو اس کی بھی بھرپور حمایت کی۔ باوجود اس کے کہ اس طرف سے ہم پر 8 سال جنگ مسلط کی گئی۔

جب داعش نے عراق پر حملہ کیا تو ہم نے عراق کے ساتھ بھرپور تعاون کیا، ہم نے اپنے جوانوں کو عراقی بھائیوں کی خاطر قربان کر دیا۔ ان فتوحات میں عراقی و شامی عوام کا کردار یقیناً سب سے بڑھ کر ہے، لیکن یہ ایرانی ہی تھے، جو ان کے شانہ بشانہ حاضر رہے اور ان کے خون میں اپنا خون شامل کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے ہمسایہ ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ امریکہ و اسرائیل کیساتھ کس بناء پر توقعات وابستہ کرتے ہیں؟ کیا انہوں نے کھلم کھلا یا خفیہ طور پر آپ کو امن و امان کی کوئی ضمانت فراہم کی ہے؟ کیا متحدہ عرب امارات کے اس صورتحال سے باہر نکلنے کے بارے آپ کے پاس کوئی توجیح موجود ہے، جس کو آپ اپنے اور خطے کے لئے خطرہ شمار کرتے ہیں؟ البتہ خطے کی سیاست میں ایسے نئے موڑ بھی آنے والے ہیں، جن پر اگر متحدہ عرب امارات کی طرف سے عمل کیا گیا تو متحدہ عرب امارات کے لئے انتہائی فائدہ مند ہوگا۔

ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اس سوال کے جواب میں کہ ایران ہر نئی ملنے امریکی دھمکی کے مقابلے میں کس قدر تیار رہتا ہے؟ کہا کہ ہم ایک طاقتور ملک کے شہری ہیں۔ ایران وہ ملک ہے، جس نے 8 سال تک نہ صرف صدام کی ایک حکومت کا بلکہ پوری دنیا کا، جس نے مل کر ہمارے خلاف صدام کی حمایت کی، ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ روسی ساختہ مگ طیاروں سے لے کر جرمنی کے کیمیائی ہتھیار، امریکی ایواکس طیارے، بلین ہا سعودی ڈالر اور حتیٰ ہمارے خلاف اسلحے کی خریداری کے لئے صدام کی جیب میں جانے والے کویتی اور اماراتی ڈالرز تک، ایک طرف جبکہ ہم پر ڈالا جانے والا ہر قسم کا دباؤ دوسری طرف، وہ بھی جب ہم نے تازہ انقلاب برپا کیا تھا۔

تب ہمارے پاس نہ اسلحہ تھا نہ دوسرے وسائل، لیکن آج خدا کے لطف و کرم سے ہمارا ملک خطے کا ایک طاقتور ملک ہے اور باوجود اس کے کہ ہمارے ملک کا فوجی بجٹ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ملکوں کے فوجی بجٹ سے کئی گنا کم ہے، خطے کے طاقتور ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ البتہ ہم جنگ نہیں چاہتے، تناؤ نہیں چاہتے اور نہ ہی کسی قسم کے ٹکراؤ کے خواہشمند ہیں، لیکن اگر ہمارے ساتھ ٹکر لی گئی تو حتما بہت سخت جواب دیں گے۔ محمد جواد ظریف نے "غسان بن جدو” کے اس سوال کے جواب میں کہ فرانسوی صدر کے مشیر تہران آئے تھے، آپ کے لئے کیا لائے اور آپ نے کیا جواب دیا؟ کہا کہ فرانسوی چاہتے ہیں کہ تناؤ کو کم کرنے کے لئے کوئی طریقۂ کار وضع کریں۔ یہ جنگ اقتصادی جنگ ہے۔ موجودہ تناؤ کی صورتحال ایرانی عوام کے خلاف امریکہ کی اقتصادی دہشتگردی کے خاتمے سے ہی برطرف ہوسکتی ہے۔

فرانسوی یہ سب مکمل طور پر جانتے ہیں، جبکہ ہم نے بھی انہیں، فرانسوی صدر کے مشیر کے گذشتہ دورے اور ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے ساتھ فرانس کے صدر امانویل میکرون کے ٹیلیفونک مذاکرات کے دوران کھل کر یہ بات کہی ہے۔ فرانسوی چاہتے ہیں کہ امریکہ اپنی پابندیاں ختم کر دے، تاکہ تناؤ میں کمی آسکے، البتہ اس کام میں وہ کس حد تک کامیاب ہوں گے، یہ بات امریکیوں کے ان کے ساتھ تعاون کرنے پر منحصر ہے۔ فرانس نے باقاعدہ طور پر یہ اعلان کیا ہے کہ وہ ثالث نہیں، لیکن تناؤ کم کرنے کے لئے کوشش کرے گا، جبکہ ہم بھی تناؤ کم کرنے کی ہر کوشش کا خیر مقدم کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم جوہری معاہدے کو ایک بین الاقوامی اہم پیشرفت کے عنوان سے دوبارہ زندہ کرنے کی ہر کوشش کا استقبال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیشہ سے ہمارا یہی موقف رہا ہے کہ ہمارے تمام اقدامات جوہری معاہدے کی شق نمبر 36 کے مطابق ہیں۔ اگر یورپی ممالک جوہری معاہدے کو فعال کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیئے کہ وہ جوہری معاہدے پر عملدرآمد کریں۔ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر جوہری معاہدے میں شامل تمام رکن ممالک مل کر امریکی پابندیوں کو لاگو کرنے سے انکار کر دیں تو امریکہ ان تمام ممالک کے خلاف اپنی پابندیاں لاگو نہیں کرسکتا، کیونکہ بین الاقوامی معاشی صورتحال اس کی اجازت نہیں دے گی۔ لہذا اس طریقے سے امریکی پابندیوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے، جبکہ ہماری طرف سے اٹھائے گئے اقدامات بھی واپسی کے قابل ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ نے اس سوال کے جواب میں کہ آپ کے یورینیم کی افزودگی کے فیصلے پر یورپی ممالک ناراض ہوگئے، جبکہ آپ کے بحری جہاز کو روک کر برطانیہ نے بھی اپنا پیغام دے دیا ہے، تو کیا یورپی ممالک کی طرف سے کوئی سنجیدہ پیشکش بھی موجود ہے یا تمام دعوے زبانی کلامی ہیں؟ کہا کہ یورپی ممالک سرمایہ لگانے کا ارادہ نہیں رکھتے اور یہی وجہ ہے کہ میں نے عرض کیا کہ اگر یورپی ممالک سرمایہ لگائیں تو انہی کے فائدہ میں ہوگا اور امریکہ بھی یہ نہیں سمجھے گا کہ جب چاہے پوری دنیا کی سیاست کو بدل سکتا ہے۔ دوسری طرف برطانیہ کا ایرانی کشتی کو روکنے کا اقدام "سمندری قزاقی” کے مترادف ہے، جبکہ یہ بھی واضح ہے کہ یہ اقدام امریکیوں کی طرف سے اٹھایا گیا ہے۔ یہ کہنا کہ شامی تیل پر پابندی ہے، ایک بے معنی دعویٰ ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یورپی ممالک شام سے تیل نہ خریدیں۔

کیونکہ پہلی تو بات یہ کہ یورپی ممالک کسی دوسرے ملک کو تیل برآمد نہیں کرتے، دوسرے یہ کہ یورپی ممالک ویسے بھی سرحد سے باہر کی پابندیوں کے خلاف ہیں اور امریکہ کو بھی اسی حوالے سے اپنی تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں، کیونکہ امریکہ اپنی سرحدوں سے باہر اپنی پابندیاں لاگو کرتا ہے۔ لہذا اس پابندی کا مطلب یہ ہے کہ یورپی ممالک شام سے تیل نہ خریدیں، نہ یہ کہ کوئی تیسرا ملک شام کو تیل نہ بیچے! لہذا یہ ایک بچگانہ توجیح ہے، جو برطانوی کر رہے ہیں۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو انہیں باقاعدہ اعلان کر دینا چاہیئے کہ وہ امریکہ کے غلام ہیں، جبکہ امریکیوں نے بھی ان کے سفیر اور وزیراعظم کی توہین کرکے اپنے ساتھ ان کی اسی نسبت کو ثابت کیا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ کی تنہائی کی بہترین مثال عالمی ایٹمی ایجنسی کی منگل کے روز منعقد ہونے والی میٹنگ ہے، جو ہمارے خلاف امریکیوں کی طرف سے سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی طرح نہ صرف مضحکہ خیز ثابت ہوئی ہے، بلکہ امریکیوں کے بین الاقوامی برادری کے درمیان تنہاء رہ جانے کو بھی ثابت کر گئی ہے۔ ایران کی سفارتکاری نے دنیا میں امریکیوں کو تنہاء کر دیا ہے اور امریکہ انشاءاللہ مزید تنہاء ہوگا جبکہ امریکہ کی یہ تنہائی سیاسی میدان سے نکل کر اقتصادی میدان میں بھی داخل ہو جائے گی۔ یہ بات صرف دعویٰ نہیں بلکہ حقیقت ہے، کیونکہ امریکہ ڈالر کی صلاحیت سے بڑھ کر اس سے کام لے رہا ہے، جبکہ ڈالر پر پڑنے والا یہ حد سے زیادہ دباؤ نہ صرف ڈالر کو لے ڈوبے گا بلکہ بین الاقوامی اقتصادی صورتحال پر بھی منفی اثر ڈالے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button